عمر دراز ننگیانہ
پاکستان کے شہر لاہور میں کنٹونمنٹ کے علاقے میں واقع ایک میڈیکل کالج میں اتوار کے روز نوجوانوں کے لیے منعقد ہونے والی ایک تقریب میں مدعو دو اساتذہ کو مقررین کی فہرست سے نکال دیا گیا۔
لاہور کے ایف سی کالج سے منسلک معلم اور سماجی کارکن عمار علی جان اور لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز یعنی لمز کے شعبہ عمرانیات سے منسلک معلمہ ندا کرمانی کو ’یوتھ سپیک فورم‘ کے نام سے منعقد ہونے والی تقریب میں مقررین کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔
تاہم بعد میں منتظمین کی طرف سے انھیں بتایا گیا کہ ’بیرونی دباؤ‘ پر ان کے نام فہرست سے نکالے جا رہے ہیں۔
یہ تقریب نوجوانوں کی ایک غیر سرکاری غیر سیاسی بین الاقوامی تنظیم آئزیک کے پاکستانی باب کی جانب سے سی ایم ایچ کالج لاہور میں منعقد کروائی جا رہی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عمار علی جان کا کہنا تھا کہ انھیں باقاعدہ طور پر منتظمین کی جانب سے دعوت نامہ دے کر مدعو کیا گیا تھا تاہم چند روز قبل منتظمین کی طرف سے ان سے معذرت کی گئی اور مطلع کیا گیا کہ کسی بیرونی دباؤ کی وجہ سے انھیں مقررین کی فہرست سے نکالا جا رہا ہے۔
بی بی سی نے یوتھ سپیک فورم کے منتظمین آئزک پاکستان سے دونوں مقررین کا نام نکالنے کی وجہ جاننے کے لیے رابطہ کیا تاہم انھوں نے اس موضوع پر کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
اس حوالے سے ایک ٹویٹ میں عمار علی جان کا کہنا تھا ’اب یہ واضح ہے کہ کچھ حلقے طلبا اور ہمدرد اساتذہ کے درمیان رابطوں سے پریشان ہیں لیکن بڑھتے مظاہروں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طلبا کا غصہ دبایا نہیں جا سکتا۔‘
ندا کرمانی نے بھی تصدیق کی کہ انھیں باقاعدہ طور پر مدعو کیا گیا تھا تاہم بعد میں منتظمین کی جانب سے ان سے بھی معذرت کر لی گئی تھی۔
ندا کرمانی نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنا ردِعمل دیتے ہوئے کہا ’یہ کس قسم کی ریاست ہے جو اساتذہ کو عدم مساوات اور سماجی انصاف پر بات کرنے سے روکتی ہے جبکہ ایسے لوگوں کو مواقع فراہم کرتی ہے جو نفرت اور تشدد پھیلاتے ہیں؟‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عمار علی جان کا کہنا تھا ’شاید یوتھ سپیک فورم کے منتظمین اس وقت ان کے خیالات یا ان کے بارے میں پوری طرح معلومات نہیں رکھتے ہوں گے جب انھیں مدعو کیا گیا تھا۔‘
ایسا کیوں کیا گیا؟
عمار علی جان اس سے قبل بھی اس قسم کی صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں۔ گزشتہ برس لاہور ہی کے الحمرا ہال میں منعقد ہونے والے فیض میلے میں انھیں مقرر کے طور پر بولنے سے روک دیا گیا تھا۔ اس تقریب کے منتظمین نے بھی انھیں وجہ ’بیرونی دباؤ‘ ہی بتائی تھی۔
رواں برس پروفیسر عمار علی جان کو پولیس نے ریاستی اداروں کے خلاف احتجاج کرنے پر ان کے گھر پر چھاپہ مار کر علی الصبح گرفتار کیا تھا۔ تاہم بعد ازاں عدالت نے انھیں ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔
اس وقت پولیس نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ مظاہرے میں عمار علی جان پر فوج کے خلاف نعرے بازی کروانے کے الزام میں شکایت موصول ہوئی تھی جس پر انھیں گرفتار کیا گیا تھا۔‘
لمز کی معلمہ ندا کرمانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں نہیں معلوم کہ ان کے مقرر کے طور پر بولنے سے کسی کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے ’میرا ارادہ تو محض صنفی امتیاز کے عنوان پر بات کرنے کا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل انھوں نے ٹویٹر پر پشتون تخفظ موومنٹ کے حوالے سے ایک تصویر شیئر کی تھی۔
عمار علی جان سماجی حلقوں میں اپنے بائیں بازو کے حامی خیالات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ایک سماجی کارکن کے طور پر وہ مظاہروں اور تقاریب میں شرکت کرتے رہتے ہیں۔
رواں برس فروری میں جب انھیں گرفتار کیا گیا تھا تو اس سے قبل انھوں نے پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن ارمان لونی کی ہلاکت کے خلاف لاہور میں منعقدہ ایک مظاہرے میں شرکت کی تھی۔
تقریب میں شامل دیگر مقررین اور شرکا میں وکیل اور سماجی کارکن جبران ناصر، مشہور شاعر فیض احمد فیض کے نواسے عدیل ہاشمی، گلوکارہ زوئی وکاجی اور معلم اور مزاحمتی موسیقی کے علمبردار بینڈ لال کے بانی تیمور رحمٰن شامل ہیں۔
بشکریہ بی بی سی