تحریر: عمرشاہد
مودی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلاف ہندوستان میں مورخہ 8 جنوری کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ملک گیرعام ہڑتال ہوئی جس میں 25کروڑ سے زائد مزدوروں اورکسانوں نے حصہ لیا۔ ہڑتال کی کال سنٹر آف انڈین ٹریڈ یونین میں شامل 10مرکزی ٹریڈ یونینز کی جانب سے دی گئی تھی، اس ہڑتال میں ٹریڈ یونینز کے ساتھ 200 سے زائد سول سوسائٹی گروپ، کسان تنظیموں کے اتحاد اور طلبہ تنظیمیں بھی شامل ہوئیں۔ اس ہڑتال کے مطالبات میں کم ازکم تنخواہ میں اضافہ، مہنگائی کا خاتمہ(گذشتہ ایک سال میں گندم کی قیمت 56 فیصد جبکہ آٹے اور چاول کی قیمتوں میں 26 فیصد اور 14 فیصد اضافہ ہوا)، بے روزگاری کا خاتمہ(ملک میں 7.3 کروڑ بے روزگار ہیں۔ بے روزگاری کی شرح 7.7 فیصد ہے)، پبلک سیکٹرکی کمپنیوں کی فروخت (2014ء سے اب تک مودی سرکار 2.97 لاکھ کروڑ کی سرکاری املاک بیچ چکی ہے اورریلوے، دفاع، کوئلہ سمیت دیگر شعبوں میں 100 فیصد ایف ڈی آئی اور 44مزدور قوانین کو کوڈیفائڈ کرنا شامل ہے۔ اسی طرح کسانوں کا مطالبہ ہے کہ زرعی مزدوروں کی تنخواہ میں اضافہ کیا جائے، ان کے قرضے معاف کئے جائیں اور مہنگائی کم کی جائے۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر مانگوں میں سبھی کے لئے 6000 روپے کم از کم پنشن، کسانوں کے لئے کم از کم امدادی رقم (ایم ایس پی)اورلوگوں کو راشن کی فراہمی شامل ہے۔
محنت کشوں کی یہ عظیم الشان ہڑتال ہندوستان کی تاریخ کے اہم موڑ پر ہوئی جب مودی سرکار کے متنازعہ شہریت قوانین CAA اور NRCکے خلاف طلبہ اورعوام بڑی تعداد میں سڑکوں پر ہیں۔ حکمران جماعتBJP کے ساتھ منسلک ہندوبنیاد پرست گروہوں کی جانب سے احتجاجی طلبہ پر تشدد اور فاشٹ حملے کئے جا رہے ہیں جبکہ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ اس ہڑتال کے دوران پورے ملک کے صنعتی مزدور ہڑتال پر رہے، کسانوں اور زرعی کارکنوں نے ’دیہی بند‘ کے پکار پر بڑے پیمانے پر ردعمل کا مظاہرہ کیا, سڑک اور ریل کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔ کیرالا، تریپورہ، آسام، بہار، پنجاب، اڈیسہ، تامل ناڈو، تلنگانہ، گوا اور متعدد دیگر ریاستوں میں تمام معاشی سرگرمیاں بند رہیں۔ تریپورہ میں BJP کےغنڈوں کے حملے کی دھمکی کے پیش نظر دکانیں اورآمدورفت مکمل طور پر بند کر دی گئی۔ مغربی بنگال، جھارکھنڈ، کرناٹک وغیرہ کے متعدد اضلاع میں بند جیسے حالات تھے۔ غیر ملکی کمپنیوں سمیت نجی منظم شعبے میں کارکنوں نے بھی ہڑتال کی کال پر شاندار ردعمل کا اظہار کیا۔ کرناٹک میں ہڑتال کے دوران بڑی صنعتیں ٹویوٹا، وولوو بسیں اور وولوو ٹرک، بوش، آئی ٹی سی اور وکرنت ٹائر وغیرہ میں کام مکمل طور پر بند رہا۔ کرناٹک، تمل ناڈو، تلنگانہ، مہاراشٹرا، دہلی این سی آراور جھارکھنڈ میں زیادہ تر صنعتی مراکز بند ہوگئے تھے۔ ملک بھر میں پٹرولیم سیکٹر کی تنصیبات میں بھی ہڑتال رہی۔ پاور گرڈ کارپوریشن کے بہت سے یونٹوں نے بھی بڑے پیمانے پر ہڑتال کی اطلاع دی۔ کاکینڈا، توتیکورین، کوچین، پارادپ اور مزگاؤں گودی میں موجود بندرگاہوں میں تقریبا مکمل ہڑتال کی اطلاع ملی جبکہ کلکتہ میں بندرگاہ میں جزوی ہڑتال ہوئی۔ ہڑتال کے دوران ریاستی بجلی بورڈ کے ملازمین کی بڑی تعداد میں شرکت کی وجہ سے ملک میں بجلی کی تقسیم اور کھپت میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ مغربی بنگال میں چلنے والی زیادہ تر بسیں خالی تھیں۔ ملک بھر میں ہڑتال میں ساڑھے 3 کروڑ روڈ ٹرانسپورٹ کارکنوں نے حصہ لیا۔ملک بھر میں اسکیم کارکنان خصوصا آنگن واڑی ملازمین، دوپہر کے کھانے کے کارکنان اور ASHAs سمیت میڈیکل اور سیلز کے نمائندوں نے بھی حصہ لیا۔ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کے ملازمین نے حکومتوں کے انتباہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس ہڑتال میں حصہ لیا۔ پوسٹل، انکم ٹیکس، آڈٹ اور اکاؤنٹس وغیرہ میں تقریبا 13 لاکھ مرکزی حکومت کے ملازمین نے حصہ لیا۔ بینکاری کے شعبے میں ہڑتال کل قریب تھی جبکہ یہ بیمہ کے شعبے میں کل تھی۔ ہڑتال میں ٹیلی کام کے ملازمین نے بھی حصہ لیا۔ ریزور بنک آف بھی ہڑتال کے باعث بند رہا۔اس کے علاوہ، غیر منظم شعبے سے تعلق رکھنے والے محنت کش جیسے تعمیرات، اینٹوں کے بھٹے، گاؤں چوکیدار، گھریلو ملازمین، گھریلو ملازمین، آٹورکشا ڈرائیوروں وغیرہ نے بھی اس ہڑتال میں حصہ لیا۔
ہڑتال کو عام لوگوں کی زبردست حمایت حاصل ہوئی جس میں مودی سرکار کی تباہ کن پالیسیوں کے خلاف زبردست غم وغصہ ظاہر کیا گیا۔ ٹریڈ یونینوں نے 12 مطالبات کے علاوہ مودی سرکار کے ذریعہ CAA، NRC اور NPR وغیرہ کے ذریعہ جمہوری حقوق اور آئین کے بنیادی اصولوں پر اشتعال انگیز حملوں کی بھی مخالفت کی۔ 1990ء میں ہندوستان میں نیو لبرل پالیسیوں کا نفاذ شروع کیا گیا اوراس وقت سے اب تک یہ 19ویں عام ہڑتال ہے۔ ہرسال ہڑتال میں حصہ لینے والے محنت کشوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، 2016ء میں 18 کروڑ محنت کشوں نے عام ہڑتال میں حصہ لیا جبکہ پچھلے سال جنوری میں دو روزہ عام ہڑتال میں 20کروڑ اور اس دفعہ 25کروڑمحنت کش یعنی دنیا کی آبادی کا تقریباً 3فیصد حصہ ایک روز ہڑتال پر تھا۔ بلاشبہ یہ تاریخ کا غیر معمولی واقعہ تھا جس نے نہ صرف ہندوستان کے حکمران طبقہ بلکہ پوری دنیا کے حکمران طبقہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تا ہم قیادت کی کمزوریاں اس بار بھی عیاں تھیں۔ 2016ء سے ٹریڈ یونینز کم ازکم اجرت میں اضافے اور نجکاری پالیسی کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہیں تاہم دیکھا جائے تو مودی سرکار مزید وحشی انداز میں محنت کشوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس ہڑتال کے دوران ہی مرکزی حکومت نے نیلاچل آئرن کارپوریشن لمیٹڈ(NINL) کی فروخت کومنظوری دے دی ہے۔اس کے تحت چھ پبلک سیکٹر کو کمپنی میں اپنی حصہ داری بیچنے کی اجازت دی گئی ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات وزیر پرکاش جاویڈکر نے بتایا کہ وزیراعظم نریندرمودی کی صدارت میں بدھ کو ہوئے کابینہ کی اقتصادی امورکی کمیٹی (سی سی ای اے) کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا۔
پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین PTUDC ہندوستان کے محنت کشوں کے ساتھ مکمل اظہاریکجہتی کرتے ہوئے مودی سرکار کی درندگی کی بھر پور الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہڑتال برصغیر کے محنت کشوں کی جدوجہد میں اہم سنگ میل ثابت ہو گااور آنے والے دنوں میں یہ تحریک مزید مضبوط ہو گی۔ پاکستانی محنت کشوں کے مسائل بھی ہندوستانی محنت کشوں سے زیادہ مختلف نہیں، ہمارا تعلق کسی نسل، رنگ، فرقے یا مذہب کی بجائے طبقاتی بنیادوں پر ہے۔ ہم محنت کش ہیں اور جیت ہماری ہو گی!