Baam-e-Jahan

اسلام آباد ہائی کورٹ کا 23 مظاہرین کی ضمانت پر رہائی کا حکم

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے پڑھے لکھے نوجوانوں پر بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمات بنانے پر اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ پر سخت برہمیکا اظہار کیا.

بام جہان رپورٹ

اسلام اباد: پیر کے روز اسلام اباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکم جاری کیا ہے کہ گذشتہ ہفتے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاج کے دوران گرفتار کیے جانے والے 23 مظاہرین جن میں عوامی ورکرز پارٹی، پختون تحفظ موومنٹ، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے کارکنوں شامل ہیں، کی عبوری ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا.

جسٹس من اللہ نے دوران سماعت آسلام اباد پولیس کے سربراہ اور ڈپٹی کمیشنر پر سخت بر ہمی کا اظہار کرتے ہوئے بار بار ان سے پوچھا کہ ان پڑھے لکھے نوجوانوں پر بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمات کیوں اور کس کے کہنے پر درج کیا گیا؟ ان کے پاس کوئی جواب نہں تھا.

اسلام آباد پولیس نے 28 جنوری کو قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ، عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل عصمت شاہجہان، پینجاب کے صدر عمار رشید، کارکنوں سیف اللہ نصر، نوفیل سلیمی، ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی کارکن ماریہ ملک، پروگریسیو اسٹو ڈینٹس فیڈریشن کے کارکنوں منیبہ اور شاہ رکن عالم سمیت 29 کارکنوں کو پی ٹی ایم کے رہنمماء منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف نیشنل پریس کلب کے سامنے ایک پرامن احتجاج کرنے پر گرفتار کیا تھا.

ان میں سے ایم این اے داوڑ، عصمت شاہجہان، ماریہ ملک اور منیبہ ابراہم کو رات گئے رہا کیا تھا مگر باقی 23 مظاہرین کو آڈیالہ جیل بھیجدیا گیا.

29 جنوری کو سیشن جج محمد سہیل خان نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوے ان کے اوپر انسداد دہشت گردی اور بغاوت کے دفعات بھی لگوائے.

گرفتار شدہ کارکنوں نے یکم فروری کو سیشن جج کے حکم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کی جسے چیف جسٹس من اللہ نے منظور کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد اور ڈپٹی کمشنر کو پیر کے روز طلب کیا تھا.

آج جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت کا کمرہ سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور رہنماوجن میں سابق سینیٹرز افراسیاب خٹک اور فرحت اللہ بابر، سینیٹر عثمان کاکڑ، ڈاکٹر پرویز ہودبھائی، ڈاکٹراے ایچ نیر، عوامی ورکرز پارٹی کی رہنماء عصمت شاہجہان، طوبہ سید، صحافی اور کالم نگار حامد میر، مشرف زیدی اور کارکنوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھے.

پیر کے روز ڈپٹی کشمنرحمزہ شفقات عدالتی حکم پر پیش ہوئے.جبکہ آئی جی پولیس کی جگہ ڈی آئی جی آپریشنز وقار الدین سید عدالت میں حاضر تھے۔انھوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آئی جی چھٹی پر ہیں جس کی وجہ سے وہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکے ۔

چیف جسٹس نے ڈی سی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: ’ڈی سی صاحب آپ سے اور موجودہ حکومت سے یہ توقع نہیں تھی۔‘

انہوں سے استفسار کیا: ’کیا آپ نے ایف آئی آر پڑھی ہے، دہشت گردی کی دفعات کس قانون کے تحت لگائی گئی ہیں؟‘

چیف جسٹس نے ڈی سی سے سوال کیا کہ آیا انہوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا ہوا ہے جس میں دہشت گردی کی تعریف بیان کی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا: ’آپ کسی کے محب وطن ہونے پر کیسے شک کر سکتے ہیں؟ آپ ریاست کی نمائندگی کر رہے ہیں اور اس کا کام لوگوں کی حفاظت کرنا ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ آئینی عدالتیں اس معاملے پر آنکھیں بند کر لیں گی؟‘

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’اس مقدمے کی تہہ تک جائیں گئے، اور اگر حکومت نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کو تسلیم کرے۔‘
ورنہ ہم اس کیس کو آئینی پیٹیشن میں تبدیل کریں گے.

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس حکام پر برہمی ظاہر کی اور کہا کہ تعلیم یافتہ لوگوں پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا۔یہ نوجواں بیرون ملک سے پڑھ کے واپس اپنے ملک کی خدمت کئے آتے ہیں اپ ان پر بغاوت کا مقدمہ بناتے ہیں؟

چیف جسٹس نے پوچھا کہ آخری دفعہ اسلام آباد کب بغاوت کا مقدمہ درج ہوا؟

انہوں نے پولیس حکام سے پوچھا کہ کس قانون کے تحت دہشت گردی کا مقدمہ بنایا گیا کیا آپ سریم کورٹ کا فیصلہ بھول گئے؟
ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ مجسٹریٹ کی شکایت آئی تھی۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ دہشت گردی کے دفعات کیسے لگائے گئے؟ریاست کو اپنے شہریوں کا تحفظ کرنا چاہیے۔ کیا کوئی کسی کی حب الوطنی پر شک کر سکتا ہے؟ یہ اداروں اور حکومت کے لیے باعث شرمندگی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جن لوگوں نے 60 ہزار پاکستانیوں کو شہد کیا ان سے بھی مذاکرات کیے گئے، ان سے گفتگو کیوں نہیں ہو سکتی.

انھوں نے کہا کہ اگر یہ نوجوان ناراض ہیں تو ان کو سمجھایا جا سکتا ہے.

جسٹس من اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیکشن 124ایک نو آبادیاتی دور کی باقیات کال قانون ہے ان کالے قوانین کے تحت آپ کیسے لوگوں پر مقمات بنا سکتے ہیں.
گرفتار شدگان کیجانب سے سینیر وکیل بابر ستار، اسد جمال، عمر گیلانی، نثار شاہ، ھیدر امتیاز اسد علی خان اور دیگر پہش ہوئے.

ہائیکورٹ نے تمام گرفتار ملزمان کو شخصی ضمانتوں پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کر دی جبکہ اسلام آباد پولیس اور نتظامیہ سے ایک ہفتے کے اندر رپورٹ طلب کی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے