Baam-e-Jahan

چینی اور آٹے کے بحران پر ایف آئی اے کی رپورٹ: ہوگا کیا؟


تحریر: اثر امام

 


ماضی قریب میں ملک کے اندر آٹے اور چینی کی شدید قلت نے بحران کی شکل اختیار کرلی تھی. جس کے اسباب و علل معلوم کرنے کے لیے فروری 2020 میں وزیراعظم عمران خان کے حکم پر ملک کی وفاقی تفتیشی ایجنسی (ایف. آئی. اے) کو معاملے کی تفتیش کرنے اور تفصیلی رپورٹ تیار کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ مشہورِ زمانہ پنامہ پیپرز اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیاء ہی کی سربراہی میں چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی, جسے بعد ازاں کمیشن میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اس کمیشن کی رپورٹ کے منظرِ عام پر آتے ہی ایوانِ اقتدار میں کھلبلی مچ گئی ہے. وفاقی وزراء اور مشیروں کی وزارتوں کے قلمدان تبدیل کیے جا رہے ہیں, استعفے دیے اور دلائے جا رہے ہیں اور حتیٰ کہ بقول شیخ رشید احمد کے کپتان اور ترین کے درمیان تُند و تیز مکالمات کا تبادلہ بھی ہوا ہے.

سوال یہ ہے کہ کیا اِس وقت اِس رپورٹ کا منظرِ عام پر آنا معمول کی کاروائی ہے؟ ایک خیال یہ ہے کہ یہ رپورٹ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہونے والی ہے۔ جبکہ دوسرا خیال اس کے بالکل برعکس ہے یعنی یہ کہ رپورٹ خان صاحب کی تیزی سے گِرتی مقبولیت کو سہارا دینے کیلیے سامنے لائی گئی ہے. ان کے ہاتھوں عدلِ جہانگیری کی مثالیں قائم کرا کے اُن کی مقبولیت کا گراف اونچا کیا جائے گا. تیسرا خیال پہلے والے دو خیالوں کے مقابلے قدرے کمزور بھی ہے کہ پاکستان کے حکمران ہمیشہ کی طرح ایک مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لیے دوسرا مسئلہ پیدا کرنے کی روایت پر عمل کررہے ہیں۔ یعنی کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ رپورٹ سامنے لائی گئی ہے۔ حالانکہ کرونا وائرس کوئی مفروضہ نہیں ہے جس سے  توجہ ہٹانے سے اس کا وجود ہی ختم ہو جائے گا یا مصیبت ٹل جائے گی۔ تاہم اتنا ضرور ہوا ہے کہ میڈیا میں اِس رپورٹ اور اس کے نتائج نے اچھی خاصی جگہ گھیرنا شروع کردی ہے.

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آٹے اور چینی کا بحران خود پیدا کیا گیا ہے اس سے حکومتی جماعت کے کچھ رہنماؤں کے ساتھ حکومت کے اتحادی جماعتوں کے وزیروں، کاروباری دنیا کے سرکردوں اور بیوروکریٹس نے فائدہ لیا ہے۔ تحریک انصاف  کے رہنماء جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار کو سب سے زیادہ فائدہ لینے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جبکہ پنجاب کے سابقہ وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی کا نام بھی بحران سے کمانے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

رپورٹ کی مطابق جہانگیر ترین کی شکر کے کارخانے نے 7،52،271 ٹن چینی پیدا کی۔ جس سے 1،21،621 ٹن برآمد ہوئی۔ جو ملک کی چینی کی کل برآمد کا 15 فیصد ہے۔

جب کہ 56 کروڑ سبسڈی لے کر اس نے کل سبسڈی کا 23 فیصد حاصل کیا۔ جب کہ وفاقی وزیر خسرو بختیار کے ایک قریبی رشتے دار کی کارخانہ نے 31 فیصد چینی برآمد کی اور 18 فیصد سبسڈی حاصل کی۔ جیسے رپورٹ میں بتایا گیا ہے یہ بحران خود اپنے ہاتھوں کا پیدا کردہ تھا۔

 

 

اصل میں چینی کی زیادہ پیداوار کا بحران پیدا ہوا تھا جو حل کرنے کے لیے کارخانہ داروں نے سرکار سے سبسڈی لی تھی. تاکہ گوداموں میں پڑی چینی بیرون ملک بیجی جا سکے.

چینی برآمد کرتے وقت جان بوجھ کر اس بات کو نظر انداز کر دیا گیا کہ اپنے ملک میں چینی کی کتنی ضرورت ہے? سو جب چینی ملک سے باہر چلی گئی تب ملکی ضرورتوں کے بارے میں سوچا گیا. اور پھر جب چینی کی طلب بڑہ گئی تو جن کارخانہ داروں نے چینی کی ذخیرہ اندوزی کی تھی انہیں زیادہ قیمتوں میں بیچنے کے امکان واضح ہو گئے.

اسی طرح سرمائہ داروں نے کسانوں اور آبادگاروں سے گنے کی فصل سستے داموں میں لی تو دوسری طرف بحراں کی آہین کر کے حکومت سے سبسﮈی لی اور ﺫخیرہ اندازی کا فائدہ لیتے ہوئے چینی بڑی قیمتوں میں بہیچ کر بہت زیادہ منافعہ حاصل کیا. جھانگیر ترین اپنی ایک ٹوئیٹ میں فرماتے ہیں کہ انہیں ٹوٹل 3 ارب روپے کی سبسﮈی ملی ہے جس سے ﮈائی ارب روپے نواز لیگ کی گزشتہ حکومت میں ملے تھے جب وہ اپوزیشن میں تھے. اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکمران کس طرح آپس میں ملے ہوئے ہیں. سیاسی حریف ہونے کہ باوجود نجی ملکیت ان لوگوں کے لیے ایسی مقدس گائے ہے جو اپنی ہو یا پرائی, اس سے چہیڑ چہاڑ نہیں کرنی. کیوں کے اگر آج مخالفوں کے ساتھ ایسا کیا جائے گا تو کل خود بھی اس کا شکار ہونگے.

حکمرانوں کے پاس کورونا متاثریں کے لیے پیسے نہیں ہیں لیکن ایک دوسرے کی سیلری اور مراعتیں بڑانے کے لیے پیسوں کی کوئی کمی نہیں ہے.کورونا رلیف طور مستحق لوگوں کو چار ہزار روپے فی خاندان کو دینے کے لیے گزشتہ دو ہفتوں سے مشورے جاری ہیں  لیکن سرمائیداروں کوں سبسﮈی دینے میں کوئی دیر نہیں لگتی. جیسا کہ حکومت بھی انہی سرمائیداروں کی ہے اس لیے گنا سستا خریدنا, چینی برآمد کرنا اور اس پر سبسﮈی لینے کا ساتھ چینی کے ﺫخیرے بڑی قیمتوں میں بہیجنے کی اجازت ملتی رہتی ہے.

دنیا کو خبر ہے کہ 2018 ء کی عام انتخابات کے بعد جھانگیر ترین ہی وہ شحص تھا جس نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے آزاد نمائندگان کو اپنے خود کے جہاز میں بٹا کر بنی گالا لیکر آیا تھا اور اس سارے خرید و فروخت کے دہندھے میں اچھی طرح سے ملوث تھا.

 

 

جبکہ خسرو بختیار خوراک کے تحفظ اور تحقیق کے وفاقی وزیر ہونے کے ساتھ وزیر اعظم کی ہر میﮈیا بریفنگ کے دوران ان کے ساتھ دیکھائی دیتے ہیں. جبکہ اس کا دوسرا بھائی مخدوم ھاشم جوان بخت پنجاب کی صوبائی حکومت میں وزیر خزانہ ہیں.

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب حکومت پر سبسﮈی دینے کے ساتھ چینی اور گندم برآمد کرنے کی اجازت دینے کے حوالے سے دباؤ تھا, لیکن رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ دباؤ ﮈالنے والا باآخر کون تھا.? قارئین کو سمجھنا چاہیے کہ ملک کی طاقتور انویسٹیگیشن ایجنسی بھی جو نام لینے سے قطرا رہی ہے وہ نام ضرور کسی طاقتور شخص یا کسی طاقتور گروہ کا ہوگا.

منڈی کا اصول ہے کہ اگر ملک میں ضرورت جتنی  چینی  پیدا ہوجائے   تو پھر اس کی مانگ میں کوئی تیزی نہیں آتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان میں چینی کی کل فروخت دس ٹن سالانہ ہے اور پیداوار بھی دس ٹن سالانہ ہے تو پھر چینی کی قیمت نہیں بڑھے گی۔ اس لیے دلال میدان میں اترتے ہیں، وہ پہلے تو سستے دام میں تمام بڑا چینی کا اسٹاک لیکر اپنے پاس ذخیرہ کرتے ہیں۔ ( وہ بذاتِ خود چینی پیدا کرنے والے کارخانہ دار بھی ہو سکتے ہیں۔) جس وجہ سے منڈی میں چینی کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ نتیجتاً اس کی ضرورت بڑھ جاتی ہے اور جس کے پاس ذخیرہ ہوتا ہے، قیمت بھی اس کی مرضی کے مطابق وصول کی جاتی ہے۔  چینی کے علاوہ  گندم، چاول اور خوراک خواہ استعمال کی دیگر ساری اشیاء پر بھی اسی طرح یے فارمولہ لاگو ہوتا ہے۔

انکوائری رپورٹ سامنے آنے کے بعد اس پر حکومت کی جانب سے دو قسم کا ردِعمل آنا چاہیے تھا۔ ایک تو انتظامی طور پر بعض کارروائیاں  کرنی ضروری تھیں دوسرا قانونی حوالے سے۔ اب تک انتظامی حوالے سے کاروائیاں ہوئی ہیں مثال کے طور پر جہانگیر ترین کو زرعی ٹاسک فورس کی چیئرمین شپ کے عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔ خسرو بختیار سمیت تین وزراء کے شعبہ جات تبدیل کیے گئے ہیں۔ ایم کیو ایم سے وابستہ ٹیلی کام کے وفاقی وزیر خالد  مقبول صدیقی اور پنجاب فوڈ وزیر مستعفی ہوچکے ہیں۔ اسی طرح شہزاد ارباب نامی مشیر سے بھی کھاتہ واپس لیا گیا ہے لیکن کیا اس مسئلے کا حل اس طرح کا ٹانکو ٹکو ہی ہے۔ یعنی کیا ایک کرپٹ وزیر سے وزارت لیکر اس کی جگہ پر کوئی دوسری وزارت دے دینے سے سب ٹھیک ہوجائے گا؟ اگر کوئی وزیر خوراک کی وزارت سے اس وجہ سے ہٹایا جاتا ہے کہ اس پر کرپشن کے الزامات ہیں تو پھر اس کو  دوسری وزارت دینے کا کیا مطلب  ہوا؟ دوسری بات یے کہ اس رپورٹ میں جو بھی سرکاری باشندہ اور سیاسی شخصیتیں ملوث قرار دی گئی ہیں ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی بھی ہوگی یا نہیں؟ کیا لوٹے گئے قومی خزانے کے پیسے واپس کرائے جائیں گے؟ کیا اس اسکینڈل کو بھی نیب کے حوالے کیا جائے گا؟ کیا نیب اس معاملے میں از خود کود پڑےگی جیسے وہ مخالف حلقے کے معاملات میں ہمیشہ نکل پڑتی رہی ہے؟ اس کے علاوہ وزیراعظم کے ایسے نزدیکی ساتھیوں کا کرپشن میں ملوث ہونے کے بعد خود وزیراعظم کا سر کس طرح بچایا جاسکےگا؟خصوصاً جب اقتصادی رابطہ کمیٹی کا چیئرمین بھی وہ خود ہے اور جب اس کی وہ پرانی تقریریں بھی رکارڈ پر موجود ہیں کہ اگر اوپر وزیراعظم اچھا ہو تو نیچے اس کی کابینہ کو کرپشن کرنے کی جرئت ہی نہیں ہوتی ہے اور اگر اوپر وزیراعظم کی کرسی پر کوئی کرپٹ شخص بیٹھا ہوا ہو تو پھر نیچے بھی سارے کرپشن میں ملوث ہوجاتے ہیں وغیرہ؟ وہ اور اس طرح کے دیگر بہت سارے سوالات شاید ہمیشہ جوابات کا راستہ تکتے رہیں گے۔

ہمیں اس رپورٹ پر کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں رکھنی چاہیے کیوںکہ اس ملک میں اس طرح کی کوئی بھی روایت موجود نہیں رہی ہے۔ لیکن ہمیں بلکل ناامید بھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ عمران خان نے،  بہرحال، نیا  کچھ ضرور کیا ہے یعنی تحریک انصاف کی حکومت میں ہی تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف کسی انکوائری رپورٹ کا منظر عام پر آنا اور اس کے بعد نتیجتاً وزیروں مشیروں میں  افراتفری اور کھلبلی مچنا۔ آخری تجزیے میں یے رپورٹ خان صاحب کی گرے ہوئے گراف کو سہارا دینے میں ہی کام  آئے گی۔


اثر امام ایک کالم نگار اور سیاسی کارکن ہیں۔ ان کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سندھ سے ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے