Baam-e-Jahan

غذر میں مقامی لوگ گھروں میں بند اور باہر سے آنے والے آزاد

تحریر: عنایت ابدالی

26 فروری وہ دن تھا جس دن ہمیں کہا گیا کہ کل سے کوئی کسی تعلیمی ادارے میں قدم نہیں رکھے گا۔سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو تالا لگایا گیا۔ اس کی نوبت کیوں آئی؟ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے حکومت نے احتیاطی تدابیر کے طور پر ان اداروں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایک ہفتہ، دو ہفتے اور مہینے اور ممکن ہے ان تالوں کو کھولنے میں ایک سال بھی لگے، کیونکہ کرونا وائرس سے حالات روز بروز ابتر ہوتے جا رہے ہیں- بعض طبی ماہرین کا خیال ہے کہ وباء ابھی تک اپنے منتہا کو نہیں پہنچا ہے بعض کا خیال ہے کہ جولائی میں اپنے انتہا کو پہنچ کے اس کی شدت میں کمی شروع ہوگی۔

تمام شبعہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے لاک ڈاؤن کا خیر مقدم کیا ہے اور حتی الوسع کوشیش کر رہے ہیں کی اس پر عمدر آمد کریں۔ کاروباری مراکز بند ہوگئے۔عارضی طور پر سرکاری دفاتر بھی بند کئیے گئے ما سوائے چند انتہائی ضروری اداروں کے۔

اس دوران ایک دن خبر ملی کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کےلیے گلگت بلتستان اسمبلی کےاراکین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو صورتحال کا جائزہ لے کر اقدامات تجویز کرینگے۔
ایک دن بعد کمیٹی نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کردیا مگر راتگئے فیصلہ تبدیل کیا گیا۔ اگلے دن گلگت بلتستان کے وزیر تعمیرات ڈاکٹر اقبال نے اس فیصلے پر سبکی محسوس کیا اور اس فیصلے کو بیوروکریسی کیجانب سے اپنے اختیارات سے تجاوز قرار دے کر احتجاجا مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔

اس دوران کسی نے ڈاکٹر اقبال کی حمایت کی تو بہت سارے افراد نے بیوروکریسی کی اس وجہ سے حمایت کی کہ لاک ڈاؤن برقرار رکھنا وقت کی ضرورت ہے۔

میرے چند ڈاکٹردوستوں نے جو کرونا وائرس کے خلاف صف اول میں خدمات انجام دے رہے ہیں، نے لاک ڈاؤن کو جاری رکھنے کے فیصلے کی تائد کیں.

اس فیصلے کے چند دن بعد گلگت بلتستان کابینہ نے یہ فیصلہ کیا کہ صرف اشیاء خوردونوش اور چند دیگر ضروری کاروبار کے مراکز کھلے رہیں گے۔

حکومت نے یہ بھی فیصلہ کرلیا کہ گلگت بلتستان میں آنے والے افراد کو قرنطینہ کرکے ٹیسٹ کے بعد گھروں کو جانے کی اجازت ہوگی جو کہ خوش آئند اقدام تھا۔

پیر کی صبح نیم خوابدگی کے عالم میں کمرے میں پڑا ہوا تھا کہ پھنڈر سے صحافی دوست فدا علی شاہ کا کال آ رہا تھامگر سگنل کی خرابی کی وجہ سے کال بار بار کٹ جاتا. مسلسل کوشش کے بعد فدا سے رابطہ ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ پھنڈر میں دیر سے چار ٹھیکیدار آلو کاشت کرنے کےلیے وارد ہو چکے ہیں۔ اس گفتگو سے کچھ دن پہلے فدا ہی نے اس مسئلہ کو سوشل میڈیا اور بعد ازاں ڈی سی غذر کے نوٹس میں لایا تھا کہ پھنڈر میں آلو کاشت کےلیے غیر مقامی افراد آنے کی تیاری کر رہے ہیں. انہوں نے ڈی سی کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ نو ٹرک آلو پھنڈر پہنچا دئیے گئے ہیں۔ اس پر ڈی سی نے کہا کہ اس مسئلہ کی ہم تحقیقات کریں گے کہ کیسے نو ٹرک آلو وہاں پہنچا دیئے گیے ہیں۔ڈی سی کی یقین دہانی کے بعد سب مطمئن ہوگئے تھے کہ وہ کرونا کے مسئلہ پہ سنجیدہ ہے اور غذر میں مثالی لاک ڈاؤن ہے۔ جس کی تعریف سب کر رہے تھے- گلگت بلتستان میں غذر اور ہنزہ کے لاک ڈاؤن کو مثالی قرار دے رہے تھے۔

آج جب فدا نے کہا کہ کاشت کرنے والے ٹھیکیدار گلگت سے پھنڈر پہنچ چکے ہیں ایک اور جھونکا دینے والی یہ تھی کہ دیر کے ٹھیکیدار حضرت گلگت بلتستان کے ایک سیکرٹری کے گھر رات کو قیام کیے تھے موصوف نے ان کے مطالبات وزیر اعلیٰ سمیت دیگر حکام تک پہنچانے کی کوشش بھی کی ہے شائد اس کی کوشش نے دیر کے ٹھیکیداروں کو پھنڈر پہنچ جانے میں مدد دی۔
ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ نے ان کو یہ کہا تھا کہ مقامی کمیونٹی کی جانب سے مزاحمت ہے تو اجازت نہیں دی جاسکتی ہے مگر آج معلوم ہوگیا کہ ٹھیکیداروں نے ہوم ڈیپارٹمنٹ سے این و سی لے کر پھنڈر آلو کاشت کے لیے روانہ ہوگیے ہیں۔جواز یہ بنایا جا رہا ہے کہ ان ٹھیکیداروں نے پشاور سے کرونا وائرس ٹیسٹ کے بعد رپورٹ ہوم ڈیپارٹمنٹ کو پیش کی ہے جس کے بعد ان کو اجازات نامہ دیا گیا ہے۔

دیر کے ان ٹھیکیداروں کو این او سی دینے سے پہلے میں سوچ رہا تھا کہ لاک ڈاؤن میں سختی کے حق میں یوروکریسی نے اہم کردار ادا کی ہے مگر آج میں اس نتیجے پہ پہنچ گیا ہوں کہ وہ بھی ایک خاص طبقے کی طرف داری کرتے ہیں. اگر آپ پشاور میں ٹیسٹ کرکےعازم سفر ہونگے تو یہ اس بات کی ضمانت ہے کہ آپ گلگت بلتستان کے کسی بھی کونے تک بلا روک ٹو ک سفر کر سکتے ہیں اور کرونا وائرس آپ کےنزدیک نہیں آئے گا۔

پشاور سے آپ راولپنڈی جتنے دن قیام کریں لیکن کوئی بات نہیں پنڈی کے تمام ہوٹلوں میں گلگت بلتستان انتظامیہ نے یہ لکھ کے رکھا ہے کہ کورونا دیر سے آنے والے ٹھیکیداروں کے قریب تک نہیں جائے گا بشام ،پٹن، چیلاس وہ جہاں بھی رکے کرونا کی ہمت نہیں کہ ان کے قریب آجائیں۔

گلگت بلتستان حکومت کی اب تک کے تمام انتظامات سے ہم کافی حد تک مطمئن تھے مگر پچھلے دنوں استور میں قرنطینہ سنٹرز میں ناقص انتظامات کے خلاف مسافروں اور طلبا کا احتجاج نےان کی کارکردگی پہ سوال پیدا کی ہے۔ابھی ہم اس پہ سوچ رہے تھے کہ کیوں وزیر اعلیٰ صاحب کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قرنطینہ کے افراد کو سہولیات نہیں دی جارہی ہے، اتنےمیں دیر کے ٹھیکیداروں کو ہوم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے این او سی دینے کی خبر سن کر ہم حیران رہ گئے کہ کاش وزیر اعلیٰ استور میں قرنطینہ سنٹر میں سہولیات اور پھنڈر میں غیر مقامی افراد کو کاشت کی اجازات دینے کی سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے فوری طور پر ان زمہ داران کے خلاف کارروائی کے احکامات جاری کرتا۔۔۔

جب مجھے یہ معلوم ہوگیا کہ ٹھیکیدار پھنڈر پہنچے ہیں تو اس وقت ہی عوامی خدشات سے وزیر اعلی کے عوامی شکایات سیل کے ساتھ ساتھ ان کے معاون خصوصی فاروق میر اور حکومت کے ترجمان فیض اللّٰہ فراق کو بھی بذریعہ واٹس ایپ آگاہ کیا۔

پچھلے دنوں یاسین کے ایک شخص کی ٹیسٹ رپورٹ پہ تاخیر پہ میں نے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کو کھلا خط لکھا تھا اور وہی خط وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی فاروق میر کو بھی واٹس ایپ کیا تھا جس پہ اس نے یقین دہانی کی اور اگلے دن اس شخص کا ٹیسٹ رپورٹ دیا گیا جو کہ منفی تھا۔ اب بھی امید ہے کہ وزیر اعلیٰ پھنڈر میں غیر مقامی افراد کی جانب سے آلو کاشت کو روکے اور ان افراد کوگلگت لے جاکر دوبارہ کرونا ٹیسٹ کرانے کے احکامات صادر کریں اور ان کو پاپند کریں کہ وہ مزدور مقامی افراد کو ہی رکھیں تاکہ غیر مقامی اس وبا کے ساتھ علاقے میں داخل نہ ہو اگر اس مسئلہ کو سنجیدہ نہیں لیا گیا تو ہم یہ سمجھنے پہ مجبور ہوں گے کہ جب تک کرونا سے کوئی متاثر نہ ہو ہم کوئی اقدامات نہیں اٹھاتے ہیں۔

عوامی حلقوں کی جانب سے اطلاعات ہے کہ غذر کے انٹری پوائنٹ پہ سفارشی بنیادوں پہ لوگوں کو ضلع میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے اور لوگ معمول کی طرح دریاؤں میں مچھلیاں پکڑتے ہوئے نظر آتے ہیں جو کہ ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی پہ سوالیہ نشان ہے. اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو بہت جلد غذر بھی اس وبا کے لپیٹ میں آئے گا اس وقت رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا. ہم سب کو مل کر اس وقت تمام تر تعصبات اور مصلحتوں سے بالاتر ہو غذر کو کرونا سے بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اگر اس کے باوجود بھی دیر کے ان افراد کو اس طرح سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تو ہم یہ مطالبہ کرنے پہ مجبور ہونگے کہ غذر کے پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز کو بھی گلگت سفر کرنے کی اجازت دی جائے.

جبکہ پشاور میں کرونا ٹیسٹ رپورٹ لےکر دیر کا ایک با اثر شخص انتظامیہ کی اجازت سے غذر میں داخل ہوکر اپنے مزدوروں کو لے کر کاروبار کرسکتا ہے تو غذر کے افراد محنت مزدوری کیوں نہیں کرسکتے ہیں؟ کاروباری حضرات اپنے کاروبار کیوں نہیں چلاسکتے ہیں؟

اگر یہ احتیاطی تدابیر ہے اور ایس او پیز میں یہی لکھا ہوا ہے تو غذر بھر کے تمام کاروباری مراکز کو کھلا ہونا چاہیے کیونکہ لوگ کاروبار اس وباء سے بچنے کےلیے بند کیے ہوئے ہیں نہ کہ پشاور، پنجاب اور کراچی سے لوگ ٹیسٹ سرٹیفیکیٹ ہاتھ میں تھامے دندناتے ہوئے یہاں آکر کاروبار سنبھالے۔

اس کالم کی وساطت سے میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ مقامی آبادی میں شدید تشویش پائی جاتی ہے اگر یہ مسلہ حل نہیں ہوا تو لوگ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرینگے اور اس کی تمام تر زمہ داری ان پہ عائد ہوگی جو خیبر پختون خواء کے افراد کی پشت پناہی کرکے پھنڈر پہنچانے میں ملوث ہیں یقینا اس وقت سب سے زیادہ تنقید آپ کی حکومت پہ ہوگی۔


عنائت ابدالی درس و تدریس سے وابستہ ہیں اور گلگت بلتستان کے لئے ہائی ایشیاء میڈیا گروپ کے بیورچیف ہیں.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے