440

کتاب: داستان ہٹلر

کتاب: داستان ہٹلر
مصنف: پروفیسر عبدالرحمن عبد
تبصرہ: گل نایاب شاہ


جنگ عظیم اول میں جرمنی کی شکست کے بعد اتحادیوں نے جرمنی کی نمائندہ حکومت سے مشورہ کیے بغیر معاہدہ ورسیلز کی شرائط طے کیں اور اچانک 7 مئی 1919ء کو بر لن میں شایع کر دیا۔ جرمنی کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا اور اس کے مختلف حصوں کو اتحادیوں میں بانٹا گیا تھا۔ جرمن قوم ان حالات کی وجہ سے بے حد مایوس ہو چکی تھی اور انہیں یہ تذلیل شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔ ایسے میں اس قوم کو ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جو انہیں امید دلائے اور اس قوم کی کھوئی ہوئی توقیر واپس کر دے۔اس کام کے لئے شاید قدرت کا انتخاب ایڈ لف ہٹلر تھا۔

ہٹلر جو تخت پہ فائز ہوتے ہی جرمن قوم کو بلندیوں تک لے گیا اور اسی رفتار سے خاک میں بھی ملا دیا۔ ہٹلر بغیر کسی شک و شبہ کے ایک جنگی جینئس تھے، لیکن انکا غرور اور جرمن نسل کو دنیا کا آقا قوم تصور کرنا اور یہودیوں سے انتہا کی نفرت اس سے وہ کام کرا گئی جس کے بارے میں تصور کرتے ہوئے ایک عام انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہے۔ داستان ہٹلر گو ایک شخصیت کی کہانی ہے، لیکن اگر ہم اسے وحشت، درندگی، قتل و غارت، ہٹ دھرمی، غرور، انسانوں سے نفرت، لہو کے کھیل اور تذلیل انسانیت کی ایک نا ختم ہونے والی کہانی کہے تو بے جا نہ ہو گا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق جنگ عظیم دوم میں قریباً ایک کروڑ آدمی مارے گئے اور اتنے ہی ان لڑائیوں میں جسمانی طور پر معذور ہوگئے۔ یہ وہ جنگ تھی جس کا آغاز تفوق کے علمبردار اور قومیت کے پرچار کے ایک دیوانے یعنی ہٹلر نے کیا تھا۔

اب زرا ہٹلر کی زندگی کا اس کتاب کی روشنی میں مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔ ہٹلر آسٹریا اور جرمنی کی سرحد پر واقع ایک خطہ بویریا میں 20 اپریل 1889ء کو پیدا ہوا۔ شعور آتے ہی ہٹلر کا خیال تھا کہ جرمن زبان بولنے والی ایک ہی قوم کا دو الگ ملکوں میں بٹے رہنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ شروع دن سے ان کے دماغ میں قوم، قومیت، عظیم جرمن سلطنت جیسے خیالات گردش کرتے رہتے تھے۔ ہر باپ کی طرح ہٹلر کے والد کا بھی یہ خیال تھا کہ وہ ان کی طرح کوئی سرکاری نوکری اختیار کرے گا، جو کہ خود محکمہ کسٹم میں ملازم تھا۔ لیکن ہٹلر نے اپنے والد سے اس معاملے میں مخالفت کردی جس کا تذکرہ اس نے خود اپنی کتاب ‘میری جدوجہد’ میں کی ہے۔ 1908ء میں ہٹلر کی ماں مر گئی جن سے والد کے مقابلے، بقول ہٹلر زیادہ محبت تھی۔ اس کے بعد 1913ء تک ہٹلر نے غربت و افلاس میں زندگی گزار دی۔

جنگ عظیم اول میں ہٹلر نے رضاکارانہ حیثیت میں اپنی خدمات پیش کر دیں۔ یہی سے ہٹلر کی زندگی کا صحیح معنوں میں آغاز ہوتا ہے۔ ہٹلر اس جنگ کے دوران دو مرتبہ زخمی بھی ہوا مگر وہ لڑتا رہا اور بہادری کے تمغے بھی حاصل کیں۔ جنگ کے خاتمے پر اتحادیوں کے شرائط پر دستخط کرنے والوں سے ہٹلر کو شدید نفرت ہو گئی تھی اور پوری جرمن قوم اسے اپنی تذلیل سمجھتی تھی۔ ہٹلر ایک وار جینیس ہونے کے ساتھ ساتھ بیسویں صدی کا ایک بہترین مقرر بھی تھا، جس کا اطراف بہت سارے عظیم ادیبوں نے بھی کیا ہیں۔

ہٹلر نے سیاسی زندگی کا با قائدہ آغاز ‘جرمن ورکرز پارٹی’ میں ایک رکن کی حیثیت میں شرکت سے کیا۔ بہترین مقرر ہونے کی وجہ سے ہٹلر جلد ہی جرمن سیاسی حلقے اور عوام میں مقبول ہوگیا۔ ہٹلر کی باتوں میں جرمن دنیا کی آقا قوم اور باقی تمام حقیر قوم کا تصور اور جرمنی کے دشمنوں کو اپنے انجام تک پہنچانے کا زہر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ اس کے علاوہ اتحادیوں کے سخت شرائط کی وجہ سے جرمنی معاشی طور پر بھی تباہی کا شکار تھا جس کا ہٹلر نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اس کی ورسیلز معاہدے پر دستخط کرنے والوں کے خلاف نفرت اور ان سے انتقام کے جزبات بھی دیدنی ہوتے تھے۔

1920ء میں ہٹلر کو جب احساس ہوا کہ ان کی پارٹی کے پاس ایک نشان، ایک جھنڈے اور ایک ایسی علامت کی کمی ہے جو پارٹی کی شناخت ظاہر کریں، تو اس نے اس مسئلے کا حل نکال ہی لیا۔ ایک جھنڈے کا خاکہ بنایا جس کا پس منظر سرخ اور درمیان میں سفید دائرہ تھا۔ اس میں سواستیکا کا نشان تھا اور نیچے لکھا ہوا تھا ‘جرمنی جاگ’۔ اور پھر یہی نشان نازی جرمنی کی طاقتور اور خوفناک علامت بن گیا۔

یکم اپریل 1920ء کو جرمن ورکرز پارٹی کے آغاز میں نیشنل سوشلسٹ کا اضافہ کر دیا گیا اور لفظ نازی جرمن میں اسی نام کا مخفف ہے۔ اسی دن ہٹلر نے فوج کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہا اور پوری طرح سیاست میں مشغول ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد وہ اس پارٹی کے سربراہ بن گئے اور پارٹی کے اندر کلی اختیارات کے مالک بن گئے۔ اتحادیوں سے معاہدہ کرنے والوں سے نفرت، یہودیوں سے نفرت، کمیونسٹوں سے نفرت، پورے یورپ پہ حکومت، جرمن قوم کو بڑھانے کے لئے وسیع زمین پر قبضہ، جرمن قوم کو عالی نسل سمجھنا جیسے تصورات کا اپنی بہترین تقاریر کے ذریعے خوب پرچار کیا۔ حکمرانوں کے خلاف لوگوں کو اکسانے، بغاوت کرنے کی کوشش میں سلاخوں کے پیچھے بھی جانا پڑا۔ اس دوران ہٹلر نے نازی خاکی پوش طوفانی دستے بھی تیار کیں جن کا شروع دنوں میں کام صرف نازی جلسوں، تقریبات کی حفاظت کرنا تھا، جن کا اصلی رخ بعد کے وقتوں میں سامنے آیا۔

ہٹلر جھوٹ بولنے، دھوکہ دینے اور منافقت کرنے میں اپنی مثال آپ تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ کمال ادا کار بھی تھے، جو اپنی حرکتوں اور باتوں کے ذریعے لوگوں کو قائل کرنا جانتاےتھے۔ ہٹلر کو سننے کی عادت نہیں تھی وہ فقط بولتے تھے اور اس کی بات کو نہ کہنے کی کسی میں جراءت نہیں ہوتی تھی۔ اسی عادت کی وجہ سے بعد کے واقعات میں بہت مرتبہ ہٹلر کو منہ کی کھانی پڑی لیکن مرتے دم وہ اپنی عادت سے پیچھے نہیں ہٹے۔
1925ء اور 1926ء میں ہٹلر نے ‘مین کیمف’ یعنی میری جدوجہد کے نام سے کتاب لکھی، جو نازی جرمنی کی سیاسی بائبل بن گئی۔ یہی ہٹلر کا منشور تھا۔ پورپ میں انسانی خون سے ہولی کھیلنے کی پوری تیاری اس کتاب میں موجود تھی، لیکن ہٹلر کی ہوشیاری کی وجہ سے یہ کتاب دنیا کے نظروں سے اوجھل رہی کیونکہ اس نے دوسری زبانوں میں اس کتاب کے ترجمے کی اجازت ہی نہیں دی تھی۔

اس کے علاوہ نازی جہنم اور گیس چیمبرز میں یہودیوں کو قتل کر نے کے واقعات سے کون واقف نہیں۔ جرمنی نے یرغمال بنائے ہوئے 29660 لوگوں کو بازیوں کے بدل قتل کر دیا۔ یوکرین میں دو دن کے اندر 33771 یہودی گولی کا نشانہ بنائے گئے۔ یہودیوں کے جسم کے اعضاء کاٹ کر ان پر مختلف جنگی اور ساِننسی تجربات کئے گئے۔ گیس چمبرز میں زہریلی گیسوں کے زریعے بچوں، عورتوں اور مردوں کا قتل عام کیا گیا۔ لاکھوں کو بھوک اور لاکھوں لوگوں کو کام کی مشقت سے مارا گیا۔ عورتوں کو نازی فوج میں بانٹا گیا جہاں 70 یا 80 سپاہوں میں ایک عورت جنسی تسکین کی خاطر دی جاتی تھی جس کا انجام موت تھا۔ انسانی تاریخ میں اس سے بڑھ کر وحشت نہ آئی ہوگی نہ آسکتی ہے۔ اس کتاب میں سے ایک واقعہ ہٹلر کے ظلم و بربریت کی علامت کے طور پر لکھ دیتا ہوں۔ یہ واقعہ ایک جرمن انجنیئر جو یوکرین میں کام کرتا تھا، نے نیورمبرگ عدالت کو سنایا تو عدالت میں سناٹا طاری ہو گیا۔ جس کا تھوڑا حصہ ذیل ہے

‘جب میں آگے بڑھا تو میں نے ایک بہت بڑی قبر دیکھی پہلے ہلاک ہونے والے ایک دوسرے پر گرے ہوئیے تھے، سب کے سروں سے خون نیچے گر رہا تھا، میرا اندازہ ہے اس وقت اس میں ایک ہزار لاشیں پڑی تھیں۔ ایک نازی جو سگریٹ کے کش لگا رہا تھا نئے آنے والے گروہ کو ان کے درمیان کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ وہ لاشوں سے الجھتے ہوئیے وہاں جا کر کھڑے ہوئیے اور پھر مسلسل گولیوں کے چلنے کی آوازیں آئی میں نے دیکھا لاشیں ایک دوسرے کے اوپر گریں ان کے نیچے پہلے سے لاشیں موجود تھی، نئی لاشوں کے سروں سے خون بہہ رہا تھا اور یہودیوں کا دوسرا گروہ پہنچ رہا تھا’۔

بدلتے سیاسی حالات، خاکی پوشوں کی بد معاشی، مختلف سازشوں اور پراپگنڈہ میں مہارت کی وجہ سے آخر کار ہٹلر 30 جنوری 1933ء کو جرمن قوم کا چانسلر بن گیا یا یوں کہیے کہ یورپ پر انسانی خون کی ہولی کا وقت آن پہنچا۔ ہٹلر کے لئے یہ کافی نہیں تھا، وہ مکمل اختیارات چاہتے تھے۔ ایک مکمل ڈکٹیٹر بننا چاہتے تھے اور 1934 ء تک نازی ازم کی حکومت مکمل ہوگئی تھی۔ ہٹلر نے سوائے جرمن قوم کے باقی سب کی زندگی دوزخ بنانی شروع کر دی تھی۔

اقتدار میں آنے کے بعد اس نے جنگ کی تیاری شروع کر دی تھی اور یہ کام اتحادیوں سے خفیہ رکھ کر کیا جانے لگا تھا۔ ملک کو معاشی طور پر بھی مستحکم کر دیا تھا اور اب جرمن قوم کو بھی ہٹلر کی شخصیت پر بھروسہ ہونے لگا تھا۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اگر اس عہد میں کوئی بازی ازم کی اطاعت نہ کرتا اور ہٹلر سے یہ کہنے کی ہمت کرتا بھی تو ہٹلر کا جواب ہوتا، ‘تمھاری حیثیت کیا ہے، تم تو مارے جاؤگے، میں تمھاری نسلوں کو نازی بناؤں گا، ان کو نازی تعلیمات کے علاوہ کسی چیز کی خبر تک نہیں ہوگی’۔ اور ایسے سوال کرنے والوں کا انجام موت کی سزا تھی۔

اب مختصراًؑ ہٹلر کی فتوحات اور زوال کا اس کتاب کی روشنی میں تذکرہ کرتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد ہٹلر باہر کی دنیا کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ امن کا خواہاں ہے اور اندر کیسا لاوا پک رہا ہے اس سے باہر کی دنیا بے خبر تھی۔ ہٹلر حالات کو پرکھنا جانتے تھے اور وہ فرانس، برطانیہ اور روس کی حالت کا خوب جائزہ بھی لے رہے تھے۔ اب اس نے اپنے سوچ کو عملی شکل دینے کا سوچ لیا اور اس کا ہدف رائین لینڈ پر قبضہ تھا۔ فرانس کی اندرونی حالت کو دیکھتے ہوئیے ہٹلر نے 7 مارچ 1936ء رائین لینڈ پر قبضہ کر لیا اور یہی سے ان کی فتوحات کا سلسلہ جاری ہوا۔ اس قبضے کے بعد اتحادیوں کا کوئی خاطر خواح در عمل سامنے نہیں آیا، جو کہ ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ اگر تب ہٹلر کو روکا جاتا تو شاید نوبت لاکھوں انسانوں کی قتل تک نہیں پہنچتی۔ اس کے بعد ہٹلر نے اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی سے تعلقات بنائے اور جاپان سے بھی معاہدہ کرلیا اور اس طرح محوری طاقت وجود میں آ گئی۔ ہٹلر کا اگلا ہدف اس کا اپنا مسکن اسٹریا بنا جس کو اس نے ایک ملک سے جرمنی کا ایک صوبہ بنایا۔ اسٹریا کے بعد چیکوسلواکیہ کا خاتمہ کر دیا۔ ہٹلر باہر کی دنیا کو مسلسل دھوکے میں رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہاتھا اور اسے روکنے والا کوئی نہیں تھا۔

فرانس اور برطانیہ سے روس کو دور رکھنے کے لئے سخت نفرت کے باوجود اس دوران ہٹلر نے معاہدہ بھی کر لیا اور اپنی بھر پور جنگی حکمت عملی کی وجہ سے آگے بڑھتے گئے۔ ہٹلر نے دنیا کو جھوٹی امن کی تعلیم دیتے ہوئے پورے یورپ کو آگ میں دھکیلا تھا۔ قتل و غارت اور ظلم و بربریت کی داستان کو طول دیتے ہوئے پولینڈ کو بھی جرمنی میں شامل کر دیا گیا تھا۔ اور اگلے باری ڈنمارک اور ناروے کی تھی۔

ہٹلر واقعی وار جینیس تھے، سب کچھ اس کی سوچ کے تحت ہی ہو رہا تھا۔ اپریل 1940ء میں ہٹلر نے ڈنمارک اور ناروے فتح کر لیا اور مئی 1940ء میں ہالینڈ اور بلجیم بھی فتح کر لیا۔ قتل و غارت جاری تھی اور یہ سب کام اسانی سے ہو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ نازی قہر پوری دنیا کو تباہ کر دے گی اور اگلی باری فرانس کی تھی۔

فرانس میں ہٹلر نے اتحادی فوج کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا اور اپنی بھر پور حکمت عملی اور جرمن فوج کی بہادری کی وجہ سے فرانس پر بھی قبضہ کر لیا۔ ہٹلر جب برطانیہ سے لڑنے میں مصروف تھا، ادھر روس کی سرخ فوج نے فائدہ اٹھاتے ہوئیے بالٹک ریاستوں میں قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ برطانیہ میں شدید مزاحمت ک بعد ہٹلر روس سے لڑنے پہنچ گیا جن سے اس کو شدید نفرت تھی۔ برطانیہ نے چرچل کی قیادت اور ‘ریڑار’ جس کے بارے ہٹلر کو خبر نہیں تھی، کی مدد سے جرمنی کو خوب نقصان پہنچایا اور ہٹلر اس حملے کو ملتوی کرنے پر مجبور ہوگیا۔

روس پر حملے سے پہلے جرمنی نے یونان، یوگوسلاویہ اور اٹلی کی مدد کرتے ہوئے افریقہ بھی فتح کر لیا۔

روس کے بھی کئی علاقوں کو فتح کرتی ہوئی جرمن فوج روس کے قریب پہنچ رہی تھی اور پے درپے شکستوں کے باوجود روسی بھی جان کی بازی لگا رہے تھے۔

سٹالن گراڈ سے ہٹلر کے زوال کا زمانہ شروع ہو گیا اور پھر دنیا کے سر سے ایک جنونی قاتل کا خوف ٹل گیا۔ نپولین کی طرح ہٹلر بھی روسی سرد موسم کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا۔ اب اتحادی فوجیں بھی تیار ہو گئی اور ہٹلر سے ان کی فتوحات چھننے شروع ہو گتے۔ اس دوران ہٹلر کے خلاف اندرونی سازشیں بھی ہوئیں لیکن ان کی قسمت میں موت مختلف طرح سے لکھی ہوئی تھی۔

آخری ایام میں جب اتحادی فوج اور روس کی سرخ فوج برلن میں پہنچ گئی، ہٹلر نے برلن سے جانے کو ایک سپاہی کے اصولوں کے خلاف سمجھتے ہوئے اپنی چانسلری میں ہی مرگ کو اہمیت دی۔ ہٹلر نے دشمنوں کے ہاتھوں ذلیل ہونے کے بجائے خود کو گولی مارنا ہی مناسب سمجھا اور اس طرح دنیا پر نازل شدہ ایک قیامت ٹل گئی۔ ایک ہزار سال تک نازل ظالم سلطنت کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ لیکن وحشت کی یہ داستان رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں