Baam-e-Jahan

کورونا، کیپٹلزم کا بحران اور عوامی ذمے داری

تحریر: ڈاکٹر شاہ محمد مری

 

 

 

 

 

ہم کپٹلزم کے آخری بحرانوں میں سے ایک کے گواہ بن رہے ہیں۔ آخری بحرانوں کا یہ سلسلہ کتنی دیر چلتا ہے، یہ تو معلوم نہیں لیکن یہ بات حتمی ہے کہ سماج کا یہ دردِ زہ بہت دردناک ہوگا۔ انسان بڑی فتح تک پہنچتے پہنچتے بہت دکھ جھیل چکا ہوگا۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آخری بحرانوں کے سلسلے کے اِس بحران میں ”ہم“ ہی ہار جائیں۔ تب بھی یہ عبوری عرصہ عوام الناس کے لیے بہت ہی کرب ناک ہوگا۔
مگر ایک بات طے ہے کہ یہ بحران اس کرہ اِرض پر انسانی حیات کا آخر نہیں ہے۔ انسانی حیات کے بارے میں ”آخری“ کا لفظ لغت میں ہے ہی نہیں۔ بقا کے امکانات کو حاصل کرنے کی اِنسان کی ہنرکاری لامحدود ہے۔
یہ بات تو زندہ بچنے والے لوگ ہسٹری میں لکھ ہی دیں گے کہ 2019 کے اواخر میں ایک ناپاک درندہ، انسانی ریوڑ میں گھس آیا تھا۔ اس انجان اور ناگمان بلا کے خلاف کوئی ہتھیار موجود نہ تھا۔ قلعہ بند ہونا ہی واحد راستہ تھا اور انسان نے اپنی حملہ آور نفسیات کے برعکس جنگی حکمت عملی کے تحت پانچ ماہ بطور نوع (سپیشیز) گھر کی چار دیواری کے اندر گزار دیے۔ کہیں ہمارا یہ ردعمل سبک رفتار تھا، کہیں ہم نے نیم دلی سے ایسا کیا اور کہیں تو بالکل بددلی کے ہاتھ دشمن کو کوستے ہوئے ایسا کیا تھا۔
یہ پانچ ماہ نہ تھے، یہ تو غصہ میں بپھرے شیودیوتا کے رقص کی طرح دنیا کو الٹ پلٹ کرنے والا زلزلہ تھا۔ اِس پانچ ماہ میں پانچ لاکھ انسانوں کی موت ہوئی۔ پانچ لاکھ انسان جوکہ تیسری دنیا کے نہ تھے بلکہ مغربی صنعتی دنیا کے بچے تھے۔ سب کے سب کپٹلزم کے لیے کام کرنے والے لوگ تھے۔ کپٹلزم کے پانچ لاکھ صنعتی ہائی ٹیک ماہر لوگوں کا یک دم مرجانا بذاتِ خود ایک بحران ہے۔
آئندہ تو کیا، بہت بڑی تبدیلیاں تو ہم اِنھی پانچ مہینوں میں ہی دیکھ چکے ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ دنیا پیسے کا اتنا بڑا حصہ ہسپتالوں، دوائیوں، حفاظتی وردیوں اور ونٹی لیٹرز پہ لگا دے گی، ریسرچ اور ویکسین کی تیاری پہ بہت بڑا پیسہ وقف کر دے گی۔ اس کے علاوہ اِن پانچ ماہ میں ممالک کی ”ساری “سیاسی معاشی اور سماجی زندگی سائنس کے ماتحت رہی۔ سفر، قیام گاہوں، طعام خانوں، عبادت گاہوں، کلبوں، ساحلوں، تفریحی مقامات، شراب خانوں اور مارکیٹوں کی ساری دنیا میڈیکل سائنس کی اطاعت میں رہی۔
سائنس پہ بجٹ کا یہ اضافہ اور یہ طرزِ زندگی ویکسین کی تیاری تک یونہی رہے گی۔ بعد میں بھی اب ماحولیات اور میڈیکل سائنس پر بہت زور رہے گا۔ اور یہ چھوٹی تبدیلی ہر گز نہیں، اس لیے کہ ابھی حال تک تو ریاست تعلیم اور صحت کی فراہمی کی اپنی بنیادی ذمہ داری سے ہی ہٹ گئی تھی۔
اور پھر، ہم نے دیکھا کہ وبا کے دو تین ماہ کے اندر اندر کپٹلسٹوں، بزنس مینوں اور تجوری داروں نے میڈیکل سائنس کا تختہ الٹنا چاہا۔ اُن کی عادی انگلیوں نے نوٹ دوبارہ گنتے رہنے کے اپنے نشے کی تسکین کا مطالبہ کرنا شروع کیا۔ اُن کی زندگی کی شاہ رگ بلاک ہو چکی تھی۔ پانچ ماہ قبل اُس کے کپٹلزم کے سر پر ڈانگ لگ چکی تھی۔ وہ یوں کہ منافع کمانے کے ہر معلوم راستے پر کورونا کھڑا ہوگیا۔ انفرادی سیٹھ سے لے کر کارپوریٹ تک سب کا مشغلہ چھن گیا تھا؛ پیسہ گنتے رہنے کا مشغلہ۔ نقد، روکڑا اور ڈالر گننے کا نشہ بہت برباد کرنے والا نشہ ہوتا ہے۔ اگر آپ کو معلوم کرنا ہو کہ پیسہ گنتے رہنے کا یہ نشہ کتنا تڑپانے والاہوتا ہے تو گورکی کی کتاب The City Of Yellow Devils پڑھیے۔
چنانچہ کارپوریٹ سیٹھ بے قراری پہ قابو پانے کے قابل نہ رہے، کپٹلزم کا بدن ذہن کی چڑ چڑاہٹ کی تاب لانا چھوڑتا چلاگیا۔ تب اس نے ریاست کو طلائی سکوں کی چھن چھن کی محفل دوبارہ سجانے کا حکم دیا۔ چنانچہ ہر جگہ ریاست کی طرف سے لاک ڈاؤن ختم کرنے کے لیے فقرے بنانے اور نعرے ڈھالنے کے نیلام گھر سجنے لگے۔
اُسی دم شعور والوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ منافع عوام کے خلاف وائرس کے ساتھ مل جائے گا۔اور ریاست انسان کو نہ صرف اکیلا چھوڑ دے گی بلکہ اُسے ایک جمِ غفیر کی صورت وائرس کو پیش کرے گی۔
آناً فا ناً رقص ِزندگی پہ تھر کنے کے نام پر انسان کو اجتماع گاہوں کی طرف ہانک دیا گیا۔ مارکیٹ اور مندر والی روایتی اجتماع گاہیں (قتل گاہیں) بھرپور طور پر سج گئیں۔ کپٹلزم نے دوبارہ تجوری بھرائی کا اپنا کام سنبھال لیا اور خلق ِخدا اُسی کی بنوائی ہوئی لمبی لائنوں میں مفت کھانا لینے کھڑی ہوگئی۔ وائرس سے مرنے والے یا تو چلتے چلاتے میں خدا کا مال بنتے جا رہے ہیں یا پھر ہسپتالوں میں ہارتی جنگ کے کمانڈر ڈاکٹروں سے آکسیجن کی کمک لے رہے ہیں۔۔۔۔ پرافِٹ جیتا، پیپل ہارے۔
لگتا ہے کہ انسان کو کپٹلزم اور وائرس کے الائنس کے حضور اپنی جانوں کا یہ بلیدان چند اور ماہ تک دیتے رہنا ہوگا۔ تب تک بشر کا مددگار و سنگت یعنی میڈیکل سائنس کچھ بندوبست کر ہی ڈالے گی۔ اور وائرس نہ رہنے کی حد تک قابو ہو جائے گا۔
تب پھر وہی پرانے دو فریق ہی رہ جائیں گے: کپٹلزم اور انسان۔ صدیوں سے برسرِ پیکار یہی دو فریق ۔۔۔ اور حالیہ ساری صدیاں کپٹلزم کی بالادستی ہی کی صدیاں تو تھیں۔ انسان ہمیشہ سے نیچے گرا ہوا پہلوان تھا۔ یہ ساری صدیاں انسان پیداوار کرتا رہا اور کپٹلزم راج کرتا رہا۔ انسان کمزور رہا، بے شعور، بے اتفاق اور غیرمنظم رہا۔ اور کپٹلزم ایک منظم ریاست کے ساتھ اُسے مارتا رہا۔
البتہ کپٹلزم کے خلاف اُس کی یہ لڑائی ختم کبھی نہ ہوئی۔ لڑائی اب بھی جاری ہے اور چار ماہ بعد بھی جاری رہے گی۔ ہاں، فرق یہ آیا ہوگا کہ اب کپٹلزم اونچی چٹان پہ بوڑھے آدمی کے دانت کی طرح ہل رہا ہوگا۔ زخمی مرغی کی طرح تڑپ رہا ہوگا۔ اس کے پیروں تلے آنگن ٹیڑھا ہو چکا ہوگا۔ منافع کے اس کے روایتی ذریعے سٹھیا چکے ہوں گے۔
جب وائرس کو انسانی آبادیوں پر چھوڑ دیا گیا تو وہ ہمیشہ کی طرح کپٹلزم کی ایک سبک رفتار پہل کاری تھی۔ اس نے ”بعد از کورونا“ دنیا کا جو نقشہ بنایا ہے، اس کا پہلا اور بڑا حصہ لاک ڈاؤن کو توڑنا تھا۔ انسان کو برباد کیے رکھنے والا بقیہ حصہ ابھی باقی ہے۔
مگر اب اُس کا ڈیٹ ایکسپائر ہو چکا۔ اس کے پاؤں اکھڑ چکے ہیں۔ تیل کی قیمتوں نے گر کر کپٹلزم کی دونوں ٹانگیں توڑ ڈالی ہیں، فنانشل کپٹل مارکیٹ collapse کر گئی۔
ایک اور افتاد اس پہ یہ پڑی کہ وبا میں انٹرنیشنل سپلائی چین میں ناقابلِ تصور رکاوٹیں پیدا ہوگئیں۔ چنانچہ اب انٹرنیشنل کی بجائے بہت سی چیزوں کی مقامی پیداوار ضروری ہوگئی ہے۔ یعنی اب گلوبلائزیشن کو یوٹرن ملے گا اور پیداوار واپس ملک میں لائی جائےگی۔
اس ضرورت سے کپٹلسٹ ریاستیں ڈومیسٹک مینو فکچرنگ تو شاید شروع کر لیں گی مگر اس سے روزگار کے مواقع تو بحال نہیں ہو سکیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ جو نئے یونٹ لگیں گے وہ تو ہائی ٹیک پہ ہوں گے۔ کون پاگل سرمایہ دار اب مزدوروں (انسانوں) سے کام لے گا۔ وہاں تو سارا کام روبوٹ کریں گے۔
یہی روبوٹ گیری معیشت کے بقیہ شعبوں کو بھی بڑے پیمانے پر تبدیل کر دے گی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت کچھ، سب کچھ کی حد تک فیس بک، ٹوئیٹر اور مائیکرو سوفٹ پہ چلایا جا رہا ہے۔ لفظ ”آن لائن“ اب محض اپر مڈل کلاس کی شوبازی کا لفظ نہ رہا، یہ اب زندگی کے کاروبار کا سب سے اہم ذریعہ بن رہا ہے۔ ابھی اِن پانچ مہینوں میں ہماری آنکھوں کے سامنے بہت سارے شعبے اسی درخت کے تنے کا سہارا لینے پہ مجبور ہوگئے ہیں۔
لہٰذا اب بڑی بے روزگاری جنم لے گی۔ اور یہی بے روزگاری کپٹلزم کی جان لے کر ہی رہے گی۔ کپٹلزم جو آج تک ڈاؤن سائزنگ پہ اپنے مراثی دانشوروں سے ہزار ہزار توجیہات گھڑواتا تھا، آج بغیر پیسہ خرچ کیے بدترین ڈاؤن سائزنگ کا شکار ہو چلا ہے۔ باہر گلی میں بے روزگاروں کی پوری فوج وجود میں آ گئی۔ ایسی بے روزگاری جس کے خاتمے یا کمی کرنے کا تو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔

چنانچہ اس سات زمین گہرا گر جانے والے معاشی بحران سے ابھرنے میں کئی حکمران کھپ جائیں گے۔ کئی ریاستیں اپنی حکومتوں کے چہرے بدلیں گی۔ کپٹلزم کرائے کے مزید دانشور بھرتی کرے گا۔ اور ان سے اپنے کالے منہ کو چھپانے کی ہزار لیپاپوتیاں کروائے گا۔
چنانچہ لاک ڈاؤن ختم کرتے ہی اُس کا دانشور، اس کے ٹی وی چینل اور اس کے سوشل میڈیا بریگیڈ چکنے الفاظ کی ٹوکریاں بھر بھر کر کر چیخنے لگے ہیں:
* ڈائنامک، اِنّووے ٹو اور اوپن مارکیٹ کی طاقت
* جاب کری ایشن کے لیے پرائیویٹ سیکٹر
اوپن مارکیٹ کے ” ڈائنامک اور انّووے ٹو” ہونے کے ورد کا مطلب ہی یہ ہے کہ حکومتیں اب مزید زور شور سے پرائیویٹائزیشن کے گیٹ کھول دیں گی۔ سوشل سیکیورٹی اور دیگر عوامی بہبود کی سکیموں پہ کٹ لگائیں گی۔ اب صرف پبلک سیکٹر ہی پسپا نہ ہوگا بلکہ ریاست خود میدان ہی سے بھاگ کھڑی ہوگی۔ ٹیکس صفر کر کے سب کچھ کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے ہوگا۔
ایک اور تاریک نتیجہ یہ نکلے گا کہ روزگار دینے والا یہ ”ڈائنامک اور اِنوویٹو“ پرائیویٹ سیکٹر بے روزگاروں کے جم غفیر میں سے صرف اسی کو روز گار دے گا جو سب سے زیادہ پریشان حال ہوگا۔ یہ پریشان حال آدمی کم سے کم اجرت، برے سے برے حالاتِ کار اور سخت مشقت پہ بھی روزگار قبول کر لے گا۔ یوں اُس کے بنیادی انسانی حقوق کچل دیے جائیں گے۔ یعنی اب ”ڈائنامک اور انوویٹو“ اوپن مارکیٹ بنیادی انسانی حقوق کی تباہی پھیر دے گی۔
یوں کپٹلزم کی ” پوسٹ کرونا“ دنیا جمہوریت، آئین، پارلیمنٹ اور آزاد پریس بری طرح کچل کر ایک فاشسٹ زندگانی ہوگی اور مزید منافع کے لیے مزید فاشزم لازمی ہوگا۔
مگر یہ تو کیپٹلزم کی سکیم ہے۔ عوام کی ”پوسٹ کورونا دنیا“ کیسی ہوگی؟ اِس سب کا الٹ کرنے سے۔
عوام کی طرف سے ”فائٹ بیک“ کا طریقِ کار تو وہی پرانا ہی رہے گا ۔ اسے بس نام نہاد ”ڈائنامک اور اِنّو وے ٹِو“پرائیویٹ سیکٹر کے برعکس پبلک سیکٹر پر زور دینا ہے۔ اجرتوں میں کسی طرح کی کٹوتی کے برعکس ان میں اضافے کی بات کرنی ہے۔ عوام الناس کے لیے بالعموم اور کورونا میں بے روزگار شدہ لوگوں کے لیے بالخصوص بے روزگاری الاؤنس کے نعرے لگانے ہوں گے۔ پبلک سیکٹر ہی کی طرف سے ہوائی سروس، ریل اور روڈ ٹرانسپورٹ پہ بھاری سرمایہ کاری ہو۔ ملٹری انڈسٹری سے سولر پینلز، وینٹی لیٹرز اور ٹیوب ویلز تیار کروانے کا مطالبہ ہو تاکہ روزگار کے ساتھ ساتھ شہریوں کو بجلی اور پانی وافر مقدار میں میسر رہے۔ ہیلتھ و ماحولیات کے بجٹ دگنے کرنے کے مطالبے کیے جائیں۔ فاشزم کو مارنے کے لیے اقلیتوں، چھوٹی قوموں، مزدوروں اور عورتوں کی محکومی کے خاتمے کے نعرے لگیں۔
اور یہ کام پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔ کپٹلزم کی موت ہے کہ ٹریڈ یونینیں اوقاتِ کار کم کرانے کے مطالبات لے کر اٹھی ہیں۔ وہ ہاسپٹل نظام کی سوشلائزیشن کا مطالبہ کر رہی ہیں، ملٹری بجٹ میں بڑے پیمانے کی کمی چاہ رہی ہیں۔ وہ قرضوں کے خاتمے پہ مہم چلا رہی ہیں۔ وہ سرکار کی طرف سے ماحولیات کی بحالی پہ سرمایہ کاری کرانا چاہتی ہیں۔
اور اب یہ آوازیں محض ٹریڈ یونینوں کی نہیں رہیں۔ اب کورونا کے قولنجی تھپیڑوں سے بدحال عوام الناس نے بھی اِن مطالبوں کو اپنا لیا ہے۔
حکومتیں اِن آوازوں کو ہنر کاری ، لالچ اور خوف کے ذریعے روکنے کی بہت کوششیں کریں گی۔ مگر 5 لاکھ میتیوں، ماتموں اور عمیق معاشی بحران کی ماری عوامی امنگوں کی یہ آوازیں بازگشت در بازگشت ہی رہیں گی۔ اور بالآخر عوامی غضب کا روپ دھار لیں گی۔
اس عوامی غضب کا مرکز ترقی یافتہ ممالک ہوں گے۔ اور جہاں جہاں کپٹلزم کی زنجیر کمزور ہوگی وہاں عوام اقتدار اپنے ہاتھ میں لیں گے۔ جون کے شروع ہی میں یہ ٹھکاٹھکی شروع ہو بھی چکی ہے۔ یاد رکھیے کہ کہیں سے بھی ایک معمولی چنگاری کپٹلزم کے پوری گیاہستان کو بھسم کر دینے کا سبب بنے گی۔
اپنا اپناحصہ ڈالنے کا وقت آ گیا۔ یہ لڑائی پوری انسانیت کی سانجھی لڑائی ہے۔
یہ لڑائی جیتی جانی چاہیے۔
(یہ مضمون ماہنامہ سنگت کے تازہ شمارہ میں ادارتی صفحہ پر شائع ہوا ہے)


ڈاکٹر شاہ محمد مری بلوچستان کے ممتاز ترقی پسند دانشور، مصنف اور سنگت اکیڈیمی آف سائینس کے بانی ہیں. پیشہ کے لحاظ سے وہ پیتھالوجیسٹ ہیں.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے