تحریر: اشفاق احمد ایڈوکیٹ
گلگت بلتستان پر برٹش انڈیا کے قبضے کی کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب برطانوی نو آبادیاتی حکمرانوں اور سکھوں کے درمیان جنگ میں پنجاب کے سکھوں کو شکست ہوئی اور اس کے نتیجے میں 1846ء میں معاہدہ امرتسر کے زریعے جدید ڈوگرہ شاہی ریاست جموں وکشمیر نے جنم لیا۔
معاہدہ امرتسر پر گورنر جنرل آف انڈیا Sir Henry Hardinge اور مہاراجہ گلاب سنگھ آف جموں نے دستخط کئے۔ معاہدے کے آرٹیکل 1 کے تحت گلاب سنگھ کو دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر واقع کوہستانی ملک اور ان کے ماتحت علاقوں پر حکمرانی کا اختیار دیا گیا۔
معاہدہ امرتسر کے تحت برٹش انڈیا نے ان مفتوحہ علاقوں کو75 لاکھ نانک شاہی روپے میں گلاب سنگھ کو فروخت کیا۔ای ایف نائٹ اپنی مشہور تصنیف Where Three Empires Meet میں لکھتے ہیں کہ "بجائے اس کے کہ ہم اس دور دراز ملک کو جس کی اہمیت کا اندازہ اس وقت تک ہم نہیں لگا سکے تھے، کو اپنے پاس رکھتے، ہم نے 16 مارچ 1848ء کو ایک معاہدے کے تحت اسے جموں کے مہاراجہ گلاب سنگھ کے حوالے اس لئے کردیا کہ یہاں ہمیں بہت زیادہ خدمات سرانجام دینا پڑیں گی اور اس غیر معمولی علاقے میں اس کی بلاشرکت غیرے حکومت تسلیم کرنے کے عوض اس نے ہمیں 75 لاکھ روپے اس شرط پر ادا کیے تھے کہ اگر اس کی سرحدوں کے قریب ہم کسی سے برسر پیکار ہوجاتے ہیں تو وہ اپنی پوری فوج کے ساتھ ہماری مدد کرتا ، وہ ہماری برتری اور تفوق کو بھی تسلیم کرتا تھا اور وہ ہماری حکومت کو سالانہ تھوڑا بہت خراج بھی ادا کرتا تھا۔
نہ صرف وادی کشمیر بلکہ وہ تمام علاقے بھی جو اس وقت سکھوں نے اپنے زیر نگیں کیے تھے، جن میں لداخ، بلتستان، استور اور گلگت کے اضلاع شامل تھے، ملا کر پورا علاقہ مہاراجہ کی ایک بہت بڑی جاگیر کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ بلتستان پر سکھوں نے 1840ء میں قبضہ کیا تھا اس سے پیشتر یہ سکردو کے راجہ اور دیگر راجاؤں کے زیر تسلط رہ چکا تھا۔”
شاہی ریاست جموں اینڈ کشمیر کے قیام کے ساتھ ہی سنٹرل ایشیا میں داخل ہونے کے لئے گلگت بلتستان میں واقع پہاڑی دروازے تاج برطانیہ کے تخیل میں سما گئے۔
معاہدہ امرتسر کے تحت گلگت، ہنزہ نگر، چترال و دیگر چھوٹی ریاستیں دریائے سندھ کے مغرب میں واقع تھیں۔
ابتدا میں برطانیہ کے مفادات ہنزہ اور نگر کی وادیوں سے وابسطہ نہیں تھے بلکہ ان کی دلچسپی مغربی وادیوں یعنی یاسین، چترال کی مغربی اطراف میں تھی جن کی سرحدیں افغانستان کے فرنٹیر میں واقع تھیں۔
بقول ای ایف نائٹ، ” کشمیر کو ہندوستان کی شمالی فصیل اور گلگت کو ہندوستان کی سرحدی چوکی کہا جاسکتا ہے. جبکہ گلگت سے ملحقہ علاقہ جس کی تصریح نہیں کی گئی وہ بام دنیا ہے جو وہاں کا ایک بہت ہی موزوں مقام ہے، جہاں دنیا کی تین عظیم سلطنتیں — برطانیہ، روس اور چین — کی سرحدیں ملتی ہیں۔ حال ہی میں گلگت کے علاقے کی اہمیت برطانوی سلطنت کی نظر میں بڑھ گئی ہے چونکہ روسی فوج شمالی جانب سلسلہ کوہ ہندوکش کے دروں کو کھنگال رہی ہے۔ روسی اس علاقے کو کئی جگہوں سے عبور کرکے ہمارے اتحادیوں کے علاقوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ تاہم اب ہم نے ہندوکش کے اس پار ، مسائل سے بھرپور اس سرزمین کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے مگر اپنی سلطنت کے تحفظ اور دوام کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی پہاڑی اطراف کے دروازوں کو نظر میں رکھے ۔”
اگرچہ تاج برطانیہ نے مہاراجہ کی ریاست جموں و کشمیر پر کنٹرول کو تسلیم کیا مگر وسط ایشیاء میں بڑھتی ہوئی زار شاہی روسی اثرو رسوخ نے برطانیہ کو ریاست جموں و کشمیر میں براہ راست مداخلت کا جواز فراہم کیا. سال 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد 1860ء میں برطانیہ وسط ایشیاء میں بڑھتی ہوئی روسی مداخلت سے خوفزدہ ہو گئے اس لئے گلگت ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا اور بعد ازاں 1935ء کے گلگت لیز ایگریمنٹ تحت اس میں شامل تمام علاقے مہاراجہ ہری سنگھ سے 60 سال کے لئے پٹے پر لیا اور ان علاقوں میں اپنی سول اور ملٹری ایڈمنسٹریشن قائم کیا۔
معاہدہ امرتسر کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے عزیز علی داد پاکستان کےانگریزی اخبار The News میں مورخہ 13مارچ 2016 کو شائع ہونے والےاپنے مضمون بعنوان: Colonial Transactions in Gilgit-Baltistan میں لکھتے ہیں ک، ” معاہدہ امرتسر کے دو اہم خصوصیات ہیں: جن میں ایک تو مقامی لوگوں کی اس فیصلے میں عدم موجودگیاور دوسری غیر مقامی حکمرانوں کیاس خطے کے بارے میں لاعلمی. یہ حقیقر بلکل اظہر من شمس ہئ کہ نس خطے کی سرحدوں کا تعین کرتے قوت نہ برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے اور نہ ہی کشمیری مہاراجہ نے مقمی حکمرانوں سے کوئی مشورہ کیا. ِ
The Amritsar Treaty had two salient features: the absence of local stakeholders in the decision-making process and the lack of knowledge of foreign rulers” about the region. It is obvious that in defining the boundaries, no local ruler was consulted by either the British or the Kashmiri rulers.
مہاراجہ نے درحقیقت اس خطے کو کنٹرول کرنے میں بحثیت ایک مہرہ تاج برطانیہ کی مدد کی جہنوں نے مہاراجہ کو یاسین اور چترال فتح کرنے کے لئے ترغیب دی اور حوصلہ بھی دیا۔
تاج برطانیہ نے گلگت ٹاؤن میں ڈوگرہ افواج کی پوزیشن مضبوط بنانے کے بعد ریاست ہنزہ اور نگر کے ساتھ پرامن تعلقات قائم کئے اور برطانوی ہند کے لئے 1886ء کے لاک ہارٹ مشن کے وقت سے اپنا اثر یاسین اور چترال تک بڑھا دیا۔
ڈوگرہ افواج کی جارحیت کے خلاف کوہ قراقرم، ہمالیہ اور کوہ ہندوکش کے دامن میں صدیوں سے آباد بہادر لوگوں نے سخت مقابلہ کیا.
سال 1877ء میں تاج برطانیہ نے پہلی بار لفٹننٹ کرنل جان بڈلف کو بطور افسر برائے خصوصی خدمات گلگت میں تعینات کیا – پولیٹیکل ڈپارٹمنٹ آف برٹش انڈیا نے جان بڈلف کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ خطے میں کاروبار کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ سیاسی واقعات پر بھی نظر رکھے۔ چونکہ 1870ء میں برطانوی ہند اور کشمیر کے درمیان تجارتی معاہدہ ہوا تھا، مگر درحقیقت اس خطے میں سیاسی معاملات پر نظر رکھنے کے لئے کچھ خاص نہیں تھا اس لئے جان بڈلف کی اصل ذمہ داری اس خطے کو فتح کرنے میں ڈوگرہ فوج کی رہنمائی کرنی تھی۔
ریاست جموں و کشمیر کی افواج جان بڈلف کے کنٹرول سے باہر تھیں اس لئے جان بڈلف نے اپنی رپورٹ میں ڈوگرہ فوج کی گلگت کے عوام پر ظلم اور استحصال پر اپنے تحفظات کے بارے میں تاج برطانیہ کو آگاہ کیا، اس کی مفصل رپورٹنگ نے اس خطے پر بعد میں برطانیہ کی براہ راست دعویٰ کی بنیاد رکھی۔
جان بڈولف نے اس خطے پر گریٹ گیم کے تناظر میں مفصل تحقیق کی اور Tribes of the Hindoo Koosh نامی اہم کتاب بھی لکھی جوکہ نوآبادیادتی نقط نظر کے تحت گلگت بلتستان کے بارے میں برظانوی نوآبادیاتی دور میں لکھی گئی اولین کتابوں میں سے ایک ہے۔
جان بڈلف اپنی اس مشہور کتاب میں لکھتے ہیں کہ ڈوگروں نے مقامی مسلم آبادی کو فتح کرنے کے بعد انہیں سزائیں دی۔ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ مہاراجہ آف جموں و کشمیر کی حکومت اس خطے میں افسر شاہی طرز کی ایڈمنسٹریشن قائم کرنے میں بھی ناکام ہوگئی ہے. چونکہ مہاراجہ نے یہاں مقامی روایتی اتحادیوں اور مقامی مراعات یافتہ طبقے کی سماجی اور سیاسی طرف داری پر ہی اکتفاء کیا جبکہ ریاستی منصوبے بڑے پیمانے پر کرپشن کی وجہ سے ناکام ہوگئے۔ نتیجتاً مہاراجہ برطانیہ کے اصل سٹرٹیجک مفادات یعنی سٹرکوں کی تعمیر ٹھیک طرح نہیں کرسکے جہاں سے تاج برطانیہ اپنی فوج کو گلگت بلتستان کے سرحدی علاقوں میں تعینات کرسکے اور بروقت ان کو سامان محفوظ طریقے سے پہنچا سکے۔
امریکن Arizona State University کے پروفیسر Chat Haines اپنی کتاب Pakistan Territories and Globalization میں لکھتے ہیں کہ عام طور پر جان بڈلف کے مشن کو ایک ناکام مشن تصور کیا جاتا ہے مگر جان بڈلف کی سدا قائم رہنے والی ایک کامیابی یہ بھی تھی کہ انہوں نے چترال کی دو وادیوں کو یکجا کیا تھا جو افغانستان کے سرحدی علاقوں سے ملحقہ تھیں جن پر 1880ء میں امان الملک کا اثر تھا. اسی دوران مہتر چترال نے مہاراجہ کشمیر کو کی مدد کیں پھر برطانوی حکمرانوں کے ساتھ اتحاد کیا نتیجتاً برٹش انڈیا نے امیر افغانستان کو اطلاع دی کہ اس کو اجازت نہیں ہے کہ وہ چترال کے معاملات میں مداخلت کرے۔
اس سے قبل چترال اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں سرحدیں واضح نہیں تھی اس لئے کئی سالوں تک برطانیہ اپنے شمالی سرحدوں کے متعلق پالیسی کو زیادہ مؤثر طریقے سے لاگو کرنے میں ناکام رہی، چونکہ اس دور میں جان بڈلف گلگت میں برطانیہ کا واحد ایجنٹ تھا اس لئے ڈوگروں پر اس کا اثر بہت کم تھا مگر جان بڈلف کو دوسرے یارقند مشن کا چمپیئن مانا جاتا ہے. انہیں برطانوی ہند کی سرکار نے اس سفر کے دوران 1887ء میں گلگت تعینات کیا تھا ۔اس نے 1881 تک یہاں ڈیوٹی سرانجام دی ۔
برطانوی ہند کو اس خطے میں اپنا اثر بڑھانے کا ایک اہم موقع اس وقت ہاتھ آیا جب 1885ء میں مہاراجہ ریاست جموں و کشمیر رنبیر سنگھ کا انتقال ہوا۔ اس کی وفات کے بعد جموں و کشمیر میں کئی اصلاحات متعارف کروائی گئیں جن پر نوآبادیاتی ریاستی حلقوں میں ایک عرصے سے بحث جاری تھی۔ ان نوآبادیاتی اصلاحات میں ایک مطالبہ تاج برطانیہ کے تزویراتی مفادات کے تحفظ کے لئے گلگت ایجنسی کا قیام بھی تھا، لہذا یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جان بڈلف کی تفصیلی رپورٹنگ کے نتیجے میں ہی برٹش انڈیا نے 1889ٰء میں گلگت ایجنسی کا باقاعدہ قیام عمل میں لایا اور کرنل ڈیورنڈ کو مٹھی بھر انگریز افسروں کے ساتھ بحثیت برطانوی ایجنٹ گلگت ایجنسی کا پہلا پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا گیا۔
برطانوی ہند نے نئی سڑکیں تعمیر کرکے گلگت ایجنسی کو اپنے ذیر تسلط لایا, مگر اس کے باوجود نو آبادیاتی ریاست نے اس خطے کے جیو پالیٹیکل کنٹکسٹ کو کبھی بھی متعین نہیں کیا۔
مثلاً 1889ء میں برطانوی نو ابدیاتی حکمرانوں نے چترال کو گلگت ایجنسی کے حصے کے طور پر نقشے پر دکھایا بعد میں انہوں نے 1895ء میں دوبارہ اسے مالاکنڈ ایجنسی کا حصہ دکھایا. بعد ازاں چترال کی وادیاں اور داریل، تانگیر کو فتح کرنے کے بعد انہیں انتظامی آسانی کے لئے گلگت ایجنسی میں شامل کیا۔ اس سے قبل چترال اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں باؤنڈری واضح نہیں تھی اس لئے اس فرنٹیئر علاقے کو پرامن اور محفوظ بنانا برطانوی سلطنت کے لئے لازمی تھا. لہذا انہوں نے اس خطے کو نوآبادیاتی پالیسی کے تحت آہستہ آہستہ تبدیل کر دیا جبکہ خطے کے کچھ علاقوں مثلاً گلگت وزارت کو بشمول استور کی وادی براہ راست مہاراجہ کی شاہی ریاست کے ذریعے انتظامی کنٹرول کے ذریعےچلایا گیا جبکہ کچھ علاقوں میں مہاراجہ اور برطانوی حکمرانوں دونوں نے مل کر انتظامی امور چلاتے تھے جیسا کہ ٹاؤن آف گلگت۔ جبکہ دیگر علاقوں مثلاً نگر اور ہنزہ کے میروں کو برطانیہ نے براہ راست اپنے ساتھ جوڑا.
1933ءمیں پولیٹیکل ایجنٹ Gillan نے اپنی رپورٹ میں اس علاقے کے انتظامی نظام کی وضاحت کرتے ہوئے ریاست ہنزہ، نگر، چلاس، یاسین، کوہ غذر، اشکومن اور پونیال کو Unsettled علاقے قرار دیا۔
گلگت ایجنسی پر اپنے قبضہ کو قانونی حیثیت دینے کے لئے برطانوی ہند نے اس دور میں تین اہم بین الاقوامی معاہدے کیے جن میں (١) اینگلو افغان ایگریمنٹ 1893ء
(٢) اینگلو رشین ایگریمنٹ 1895ء بہت مشہور ہیں. ان کے علاوہ ایک تیسری اہم بین الاقوامی معاہدے کے تحت ڈیورنڈ لائن کی Delimitation کی جس سے عام طور پر
Delimiting the Durand Line Across the Hindu Kush mountains کہا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے قیام کے وقت مقامی لوگوں کا اجلاس بھی بلایا گیا جس میں میر آف ہنزہ، راجہ آف پونیال، یاسین, اشکومن اور چترال کے مہتر اور دیگر کی موجودگی میں ڈیورنڈ لائن بنائی گئی اور ایک حکمت عملی کے تحت چترال کا بدخشاں کے ساتھ تعلق کو کاٹ دیا گیا اور 1890ء میں برٹش انڈیا نے سرحدی معاہدہ پر دستخط کئے۔
اس بین الاقوامی معاہدے کے تحت تاج برطانیہ نے چترال اور افغانستان کے بارڈر کو محفوظ بنانے کے بعد ریاست ہنزہ اور نگر پر نظر رکھا اور ہنزہ نگر سے چین کے کاشغر والے روٹ پر توجہ دی چونکہ 1880ء میں ریاست ہنزہ اور بدخشان میں دوستانہ تعلقات قائم تھے جبکہ چین کے ساتھ بھی ریاست ہنزہ کے سفارتی تعلقات تھے جو گلگت لیز ایگریمنٹ ١٩٣٥ تک قائم رہے اس لئے برٹش انڈیا نے گلگت ایجنسی کے قیام کے بعد ہی ریاست ہنزہ و نگر پر حملے کا منصوبہ بنایا اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے برٹش انڈیا نے برطانوی پارلیمنٹ کی اجازت سے 1891ء میں ریاست ہنزہ و نگر پر حملہ کیا.
بقول ای ایف نائٹ ریاست ہنزہ کے بہترین جنگجو کبھی مغلوب نہیں ہوۓ اور کئی بار ایسا ہو چکا ہے کہ انہوں نے برٹش انڈیا کے بہترین سپاہیوں کو شکست فاش سے دوچار کیا ہے۔ مثلاً 1848ء میں گلگت کے پہلے سکھ گورنر نتھو شاہ نے ان پر حملہ کیا اور ایک گھات میں پھنس کر خود بھی مارا گیا اور اس کی تمام فوج بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی۔ مگر بالاخر برطانوی سپاہیوں نے 1891ء میں ایک خونی جنگ کے نتیجے میں ریاست ہنزہ و نگر کو فتح کرکے اپنا خواب پورا کیا۔
قصہ مختصر تاریخ کے مطالعے سے اس تلخ حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ معاہدہ امرتسر ہی وہ بنیادی دستاویز ہے جس نے اس خطے پر بیرونی جارحیت اور قبضے کو قانونی جواز فراہم کیا اور اسی بنیاد پر آج بھی کشمیریوں کا اس علاقے پر دعویٰ ہے .
اشفاق احمد ایڈووکیٹ چیف کورٹ گلگت بلتستان میں وکالت کرتے ہیں اور ایک مقامی کالج میں بین الاقوامی قوانین پڑھاتے ہیں.بام جہان کے علاوہ مقامی اخبارات میں کالم لکھتے ہیں