480

‘چوہدری فتح محمد کسانوں ، مزدوروں اور محکوم طبقات کی تحریکوں کے سالار تھے’

عوامی ورکرز پارٹی اوردیگر سیاسی تنظیموں کے رہنماؤں اور سماجی شخصیات کی کسان تحریک کے بانی کو خراج تحسین؛ مقررین اور شرکاء کی ایک متحدہ بایاں بازو کی جماعت کی تشکیل اور جدوجہد کےعزم کا اظہار۔

بام جہان رپورٹ

چوہدری فتح محمد پاکستان میں کسانوں، مزدوروں، مظلوم و محکوم اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی تحریک کے سالار تھے۔ وہ زندگی بھر اپنے آدرشوں اور نظریات کے ساتھ عملی طور پر وابستہ رہے۔ آج چوہدری فتح محمد کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے مشن کو آگے بڑھائیں اور تمام ترقی پسند، انسان دوست اور جمہوریت پسند قوتوں کو اکھٹا کریں اور اس جدید نو آبادیاتی نیو لبرل سرمایہ دارانہ ستحصالی نظام کے خلاف جدجوجہد کو تیز کریں۔
ان خیالات کا اظہار چوہدری فتح محمد کے دیرینہ ساتھی،عوامی ورکرز پارٹی کے بانی صدر، نامور دانشور اور قانون دان عابد حسن منٹو اور دئگر مقررین نے گزشتہ روز کسان تحریککے بانی کی یاد میں منعقدہ تعزیتی پروگرام سے زوم کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

تعزیتی پروگرام کا اہتمام عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ نے کیا تھا۔چوہدری فتح محمد کا انتقال گزشتہ مہنے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 97 سال کی عمر مین ہوا تھا.

عابد منٹو کے علاوہ عوامی ورکرز پارٹی کے صدر یوسف مستی خان، سیکریٹری جنرل اختر حسین ایڈووکیٹ، مزدور کسان پارٹی کے صدر افضل خاموش، سینئر صحافی اور انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کے چیئرمین آئی اے رحمنٰ، اے ڈبلیو پی پنجاب کے صدر عمار رشید، پنجاب کے جنرل سیکریٹری عابدہ چوہدری، کمونسٹ پارٹی آف ا نڈیا مارکسسٹ کے رہنماء ہرسیو بینں، عالیہ امیر علی، اے ڈبلیو پی برطانیہ کے رہنماء اور قانون دان مزمل مختار، نیشنل پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر حسن ناصرنےاپنے تاثرات اور یادیں ویبنار کے ذریعے بیان کیا.

پروگرام کی میزبانی اے ڈبلیو پی برطانیہ کے رہنماء ڈاکٹر افتخارمحمود، اے ڈبلیو پی یو کے کے جنرل سیکریٹری امرام یوسف اور علینہ یوسف نے انجام دیں۔

عابد منٹو نے کہا کہ میرے اور چوہدری صاحب کے درمیان ستر سالہ طویل رفاقت اور جدوجہد پر بات کے لئے کئی گنٹھے درکار ہیں۔

چوہدری فتح نے 1948ء میں کمونسٹ پارٹی پاکستان کی رکنیت حاصیل کیں اور کسانوں کو منظم کرنے میں لگ گئے.

انہوں نے کہا کہ یہ کہنا بہت آسان لگتا ہے کہ کسانوں کو منظم کیا جائے۔ ذرا اس دور کا سوچئےجب چند شہروں کے علاوہ دہاتوں میں سڑک تک نہیں ہوا کرتے تھے۔ چوہدری فتح محمد نے اس دور میں سائیکل اور ایک ٹوٹے پھوٹے موٹر سائکل پر گاؤں گاؤں دن رات گھومتے رہے اور ان کی محنت کا وجہ سے 1970 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے تاریخی کسان کانفرنس ممکن ہوسکا۔ اس کے بعد انہوں نے رحیم یارخان، خانیوال سے لے کے خانپور تک کسانوں کو منظم کیا اور کئی کانفرنسیں منعقد کیں.

آج شہروں میں مال روڈ پر مظاہرہ کرنا تو بہت آسان ہے جسے میڈیا پہ بھی دکھایا جاتا ہے. لیکن دہاتوں میں جن ساتھیوں نے کام کیا وہ میڈیا میں اس طرح نظر نہیں آتا تھا۔
انھوں نے کہا کہ چوہدری فتح محمد بہت پڑھے لکھے، باہوش اور باکردار انسان تھے۔ انھوں نے صرف کتابی علم حاصیل نہیں کیا بلکہ عملی طور پر زمیں کے ساتھ جڑت پیدا کرکے لوگوں کے درمیاں رہتے ہوئے اپنے علم کو استعمال کیا۔ انہوں نے نہ صرف دہاتوں میں کسانوں ، مزارعین، اور کھیت مزدوروں کی تربیت کرکے ایک مضبوط اور دیرپا تحریک کو منظم کیا بلکہ شہروں کے نچلے درمیانہ طبقہ، دانشوروں، خواتین، طلباء اور نوجوانوں کو بھی منظم کیا. کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مظلوم و محکوم اور استحصال کے شکار طبقات کو منظم کئےبغیر سماجی تبدیلیی ممکن نہیں۔

آئی اے رحمنٰ نے کہا کہ چوہدری فتح پاکستان میں کسان تحریک، زرعی مسائل اور زرعی معیشت کے انسائکلو پیڈیا تھے۔ آج اعداد وشمار کا کمپیوٹر کے ذریعےملنا بہت آسان ہوگیا ہے لیکن ان دنوں جب کی صرف انسانی یاد داشت پر انحصار کرنا پڑتا ٖتھا فتح محمد کو پاکستان کے جاگیرداروں، کسانوں، اور زرعی معیشت کے بارے میں تمام معلومات حاصیل تھیں۔ انھوں نے ذکر کیا کہ ایک دفعہ پاکستان ٹائمز اخبار نے زرعی معیشت پر ایک خصوصی مضمون کی اشاعت کا اہتمام کیا تو اعداد وشمار کہیں دستایب نہیں تھے۔ تب چوہدرئ فتح محمد کو بلایا گیا انھوں نے تفصیل کے ساتھ معلومات فراہم کیں۔

عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی صدر یوسف مستی خان نے کہا کہ چوہدری فتح پاکستان میں کسانوں، مزدوروں اور ترقی پسند جماعتوں کو متحد کرکے ایک وسیع تر انقلابی تحریک پیدا کرنے کے لئے زندگی بھر کوشان رہے۔ آج بھی ہماری پارٹی انہی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔اور مزدور کسان پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ساتھ ایک متحدہ پارٹی کی جانب پیش رفت ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج پاکستان جس بحران سے دوچار ہے اور جس دوراہے پر کھڑی ہے اس میں تمام ترقی پسند، سامراج دشمن اور جمہوریت پسند قوتوں کو اکھٹا ہو کر جدوجہد کرنےکی ضرورت ہے۔

مزدور کسان پارٹی کے صدر افضل خاموش نے کہا کہ چوہدری فتح محمد تمام ترقی پسند پارٹیوں اور قوتوں کے مشترکہ اثاثہ تھے۔انہوں نے ہشت نگر اور دیگر علاقوں میں کسانوں کی تاریخی جدوجہد اور ان کو زمیں کے مالک بنانے اور چوہدری فتح محمد کی جدوجہد پر روشنی ڈالی. انہھوں نے اس بات پر زور دیا کہ تمام ترقی پسند قوتوں کو متحد ہو کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

عوامی ورکرز پارٹی کے سیکریٹری جنرل اختر حسین ایڈووکیٹ نے چوہدری فتح محمد کے ساتھ 1980ء کی دہائی سے تعلق، سوشلسٹ پارٹی اور کمونسٹ لیگ کے انضمام اور دیگر پارٹیوں کے ادغام اور عوامی جمہوری پارٹی اور نیشنل ورکرز پارٹی اور عوامی ورکرز پارٹی کے قیام کے سلسلے میں چوہدری فتح محمد کی کوششوں کا ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم ملک میں کسانوں، مزدوروں، طالنب علموں، نوجوانوں اور پسے ہوئے طبقات کے ایک وسیع تر جدوجہد کے ذریعے ایک سوشلسٹ انقلاب کے لئے تمام ترقی پسند قوتوں کو اکٹھا کرکے پاکستان میں رجعت پسند، فاشسٹ قوتوں اور حکمران طبقوں، فوجی و سول بیوروکریسی کے چنگل سے کروڑوں محنت کسشوں اور محنت کار عوام کو نجات دلانے کے لئے جدوجہد کرنے کا عزم کرتے ہیںا۔

کمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ برطانیہ کے رہنماء ہرسیو بینس نے کہا کی چوہدری فتح برصغیر کے تمام ترقی پسند قوتوں کے مشترکہ اثاثہ تھے۔ان کی جدوجہد ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے. ان کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پورے جنوبی ایشاء کے خطے میں رجعت پسند سامراجی قوتوں کے خلاف وسیع تر ترقی پسند تحریک کو منظم کیا جا ئیے۔

اے ڈبلیو پی پنجاب کے صدر عمار رشید نے کہا کی چوہدری فتح محمد کی زندگی اور جدوجہد نوجوان انقلابیوں کے لئے ایک مشعل راہ ہے آج ہمیں ان کی جدوجہد سے سیکھنے اور نئے حالات میں پارٹی کو منظم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ آج اس عالمی وباء نے نیولبرل سرمایہ داری نظام کی گھناؤنی چہرہ کو بری طرح بے نقاب کیا ہے جس کی بدولت پوری دنیا خطرے میں پڑ گئی ہے اور لوگ اس کے خلاف اواز بلند کرنے لگے ہیں ۔ اس صورتحال میں ہمیں پارٹی کو نئے خطوط پر منظم کرنے اور ایک متبادل پروگرام دینے اور چوہدری فتح محمد کے مشن کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے ایک انقلابی نظم "مت سمجھو ہم نے بلا دیا” گا کر چوہدرئ فتح محمد کو خراج تحسین پیش کیا۔

عوامی ورکرز پارٹی پنجاب کےسیکریٹری عابدہ چوہدری نے کہا کہ فتح محمد صاحب آخری عمر تک پرعزم رہے اور ہر اجتماع میں شرکت کرتے تھے اور نوجوانوں کو حو صلہ دیتے تھے وہ کبھی بھی مایوسی کے شکار نہیں ہوئے. یہی وجہ تھئ کہ وہ ہر الیکشن میں حصہ لیتے تھے تاکہ لوگوں کو ایک متبادل بیانیہ دے سکیں۔ عابدہ نے کہا کہ ان کی گفتگو ہمیشہ مدبرانہ ہوتے تھے اور کارکنوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت سے پیش آتے تھے۔ ان کی انکھوں میں ہمیشہ چمک ہوتی تھی۔

عوامی ورکرز پارٹی کے سرگرم کارکن عالیہ امیر علی نے چوہدری فتح محمد کے ساتھ اپنے ملاقاتوں کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ان سے جدوجہد کے بارے میں اور کسانوں میں کام کرنے کے طریقوں کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

انھوں نے کہا کہ آج پارٹی میں نئے خون اور نئے سوچ و فکر خاص طور پر نوجوانوں اور خواتین کو موقع دینے کی ضرورت ہے۔

عوامی ورکرز پارٹی کراچی کے سیکریٹری خرم علی نیئر نے کہا کی چوہدری فتح محمد نوجوانوں کے لئے بھی اتنا اہم رول ماڈل تھے جتنا وہ کسانوں اور مزدوروں کے لئے تھے۔

اے ڈبلیو پی کے رہنماء ڈاکٹر افتخار محمود نے کہا کہ چوہدری فتح محمد نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پیچائیت کا ایک ایسا نظام قائم کیا تھا جس کی وجہ سے کوئی پولیس آفیسر وہاں کے تھانوں میں آنے کے لئے تیار نہیں ہوتےتھے کیونکہ وہ سارے تنازعات پنچائیت کے ذریعے حل کرتے تھے۔

چوہدری ٖفتح محمد کے صاحبزادے اور عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے رہنما پرویز فتح نے کہا کہ ان کے والد صاحب بہت بردبار اور وسیع القلب انسان تھے وہ مخالفین اور خاص طور پر مذہبی لوگوں کے ساتھ مذہب پر بحث میں الجھنے کی بجائے ان کو سماجی ناانصافی، معاشی استحصال، ظلم و جبر کے موضوعات پر ان سے بحث کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ سب ان کی عزت کرتے تھے۔

انہوں نے ان کی زندگی کے دلچسپ گوشوں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی۔

حالات زندگی اور جدوجہد

چوہدرئ فتح محمد نے متحدہ ہندوستان مین جالندھر کے ایک غریب کسان گھرانے میں آنکھ کھولی۔ بی اے کا امتحان دیا تو دوسری جنگ عظیم زوروں پر تھی۔ شروع میں وہ کانگریس سے متاثر تھے اسلئے برطانوی فوج میں بھرتی ہو کر فسطائیت کے خلاف لڑنے گئے۔ جنگ ختم ہوئی تو فوج کی نوکری چھوڑ کر واپس اپنے گاؤں آگئے اور وہاں ایک لائبریری بنا کر لوگوں کو پڑھانے میں لگ گئے۔ اور خود اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا۔

جب آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو سامراج نے چال چلی اور مذہبی منافرت کو پھیلایا۔ جس سے پورے ہندوستان میں آگ لگ گئی۔ چوہدری فتح محمد کے والد چوہدری امیر الدین کو مذہبی انتہا پسندوں نے قتل کیا۔ وہ اپنی ماں تین بہنوں اور چھوٹے بھائی کو لے کر پاکستا ن آ گئے اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں چک نمبر 305 گ-ب میں آباد ہوگئے اور انہں 25ایکڑ زمیں الاٹ ہوگئی۔

انھوں نے ہندوستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی دیکھ بھا ل کے لئے تنظیم قائیم کیں اور سماجی کاموں میں لگ گئے۔

ان کا چھوٹا بھائی کاشتکاری کرنے لگ گیا۔ ابھی آباد ہوئے پانچ ماہ ہوگئےتھے کہ چھوٹے بھائی محمد شفیع کا انتقال ہوگیا۔ چوہدری صاحب اپنے تین بہنوں اور بیوہ ماں کا واحد سہارہ رہ گئے۔

سرکار نے انہیں گاوں کا نمبردار مقرر کیا اور وہ کسانوں اور بے زمین مزارعین کے حقوق کی جدوجہد میں مصروف ہو گئے۔ حکومت نے انہیں قانون کے مطابق نمبرداری کے عوض ساڑھے بارہ ایکڑ زمیں الاٹ کرنا چاہا تو انھوں نے زمین لینے سے انکار کیا کیونکہ وہ ایک سچے انقلابی تھے ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ان کی تنظیم کسان کمیٹی کے منشور کے مطابق حد ملکیت یعنی 25 ایکڑ زمیں پہلے سے ہے۔ اسلئے وہ اس حد سے زیادہ زمیں نہیں رکھ سکتے۔

سال 1951ء میں ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوا، تو اس وقت وہ کمونسٹ پارٹی کے رکن بن چکے تھے۔پارٹی نے گرفتاری نہ دینے اور زیر زمین رہ کر کام جاری رکھنے کا حکم دیا۔ اس عرصہ میں انہوں نے کمونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑا اور صرف 26 ووٹوں سے ہار گئے۔ بعد ازاں گرفتاری دے دی۔

سنہ 1953ء میں راولپنڈی سازش کیس بنا تو انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگا دیا۔ پہلے انہیں لائلپور جو اب فیصل آباد کہلاتا ہے جیل منتقل کیا گیا۔ اور پھر شاہی قلعہ لاھور کے عقوبت خانے میں تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد لاہورجیل میں بھی رہے اور آخیر میں دو سال تین ماہ گھر پر نظر بند کیا گیا۔

اس عرصہ میں پاکستان کے نامور سیاسی رہنماء اور چوہدری فتح محمد کے دوست قسور گردیزی نے انہیں کھتوں میں پھل دار درخت لگانے کی ترغیب دی اور ملتان سے نر سری کے پودے بھیجنا شروع کیا۔تاکہ بچوں کے تعلیم اور گھر کے اخراجات کا بندوبست ہو۔ وہ کل وقتی کارکن کی حیثیت سے کام کرتے تھے لیکن کبھی بھی پارٹی سے پیسے نہیں لئے۔

رہائی کے بعد دس برس تک انھوں نے ملک بھر میں کسان کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی کی بدولت 1970ء کی تاریخی کسان کانفرنس ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ممکن ہوسکا۔

سال 1969 میں ان کی پہلی کتاب ‘پاکستان کے زرعی مسائل’ شائع ہوئی جو پاکستان میں زرعی ڈھانچہ کی ایک ڈکشنری سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بعد ‘زرعی مسائل اور کسان تحریک’ چھپی اور زرعی رپورٹوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جو 2012 تک جاری رہا۔ اسی لئے پاکستان میں دانشوروں اور صحافیوں میں انہیں زرعی معیشت پر انسائیکلو پیڈیا سمجھا جاتا ہے۔ جس کا تفصیلی اظہار آئی اے رحمن صاحب نے اپنے تقریر میں اس دور کے بارے میں کیا جب وہ ٖفیض احمد فیض کی ادارت میں شائع ہونے والی پاکستان ٹائمز کے سب ایڈیٹر تھے اور وہ اپنے مضامین کے لئے اعداد و شمار چوہدری فتح محمد سے ہی لیتے تھے۔

ضیاء الحق کے مارشل لاء کے سیاہ دور میں جب چوہدری فتح محمد جیل گئے تو تمام ترقی پسندوں کو قائل کیا کہ سب مل کر ایک متحدہ پارٹی کا قیام عمل میں لائیں۔

رہائی کے بعد مزدور کسان پارٹی کے رہنماؤں میجر اسحاق، غلام نبی کلو اور لطیف چوہدری ان کے گاؤں جا کر تمام معاملات طے کئے۔ لیکن بد قسمتی سے ایک ہفتہ کے بعد ہی میجر اسحاق محمد کا انتقال ہو گیا۔

پرویز فتح نے کہا چوہدری فتح محمد کی یہ خوبی تھی کہ تمام ترقی پسند انہیں اپنا مشترکہ اثاثہ گردانتے تھے۔

پاکستان سوشلسٹ پارٹی اختلافات کا شکار ہوئی اور دو حصوں میں بٹ گئی تو چند برسوں میں ہی انھوں نے سی آر اسلم کو قائل کر کے دوبارہ انضمام کرکے پارٹی بنانے پر قائل کیا۔

انہوں نے کہا کہ چوہدری فتح محمد اپنی غلطیوں کو ہمیشہ کھلے دل سے تسلیم کرتے تھے اور اپنے سے عمر میں چھوٹے سے بھی بڑے خلوص کے ساتھ معافی مانگ لیتے۔ اس کی ایک جھلک ان کے خود نوشت سوانح عمری "جو ہم پہ گزری” میں بھی ملتی ہے۔ جس میں انھوں نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ عمر کے اس حصے میں انھیں پارٹی کی پنجاب کی صدارت قبول نہیں کرنا چاہئے تھا۔

وہ سمجھتے تھے کہ اگر ان کی زندگی میں متبادل قیادت ابھر کر سامنے نہیں آئی تو یہ ان کی ناکامی ہوگی۔ وہ ذات اور شخصیت پرستی، گروہ بندی دوہرے چہرے اور دوہرے معیار کے قئل نہ تھے اور خود پرستی کو فلسفیانہ موشگافیوں میں الجھا کر نظریاتی رنگ دینے کے خلاف تھے۔ بلکہ اسے جاگیردارانہ سوچ کے اثرات اور تحریک کے لئے نقصان دہ سمجھتے تھے ۔

آج ہمیں اپنی سیاسی جدوجہد کا دوبارہ جائزہ لے کر اور خود پرستی کے خول سے نکل کر ایک وسیع تر ترقی پسند سیاست کی بنیاد رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں؟ سب ساتھیوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ تمام ترقی پسند قوتوں کو یکجا کرنے کی کھلے دل سے کوششیں کریں گے۔

عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے سینئر رہنماء ڈاکٹر احمد توحید چٹھہ نے اپنے اختتامی کلمات مین تجویز پیش کیا کہ پارٹی سپریم کورٹ میں دائر زرعی اصلاحات کے مقدمے کو دوبارہ زندہ کرنے پر زور دیا۔

تعزیتیی ریفرنس کورونا وائرس اور لاک ڈاون کی وجہ سے زوم پر منعقد کیا گیا جس میں دنیا بھر سے کسانوں، مزدوروں، ترقی پسند سیاسی و سماجی کارکنوں، شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے شرکت کیں اور چوہدری فتح محمد کے ساتھ ذاتی تعلق اور جدوجہد کے حوالے سے گفتگو کیں۔انہوں نے موجودہ سیاسی و معاشی بحران، ترقی پسند قوتوں کے اتحاد اور متحدہ پارٹی کے قیام پر زور دیا اور سوالات بھی پوچھے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں