سات ماہ سے ان کو تنخواہیں نہیں ملی۔ اگر تنخواہیں نہیں ملی تو تا دم مرگ بھوک ہڑتال کرنے کی دھمکی
رپورٹ: گل حماد فاروقی
چترال: محکمہ صحت کے 108 ملازمین جو گزشتہ سات دنوں سے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر چترال کے دفتر کے سامنے دھرنا دیئے ہوئے ہیں، اور علامتی بھوک ہڑتال شروع کیا ہے۔ ان ملازمین میں خواتین بھی شامل ہیں جو دائی یعنی مڈ وایف کے طور پر بھرتی ہوئی تھیں۔
ان ملازمین کا کہنا ہے کہ انہیں دسمبر 2019 میں کلاس فور کے آسامیوں پر بھرتی کروائے گئے تھے.جن کا باقاعدہ اخبارمیں اشتہار اور ٹیسٹ انٹرویو کے بعد محتلف ڈسپنسریوں میں تعنات کیا گیا. اس وقت سے ہم باقاعدہ ڈیوٹی کررہے ہیں مگر ابھی تک ہمیں تنخواہیں نہیں ملی۔
شجا ع الدین نے میڈیا کو بتایا کہ وہ 12 دسمبر 2019 کو بھرتی ہوا۔ آٹھ مہینے گزر نے کے باوجود انہیں تنخواہیں نہیں ملی۔
محب اللہ بھی درجہ چہارم ملازم ہے ان کا کہنا ہے کہ ان ملازمین نے کرونا وائریس کے دوران قرنطینہ مراکز میں بھی ڈیوٹی دی ہے۔
"ہم ایم پی اے مولوی ہدا یت الرحمان سے بھی ملے. انہوں نے یقین دہانی کرائی مگر ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا”۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان ہیلتھ ورکروں میں سے کئی کورونا وائرس کے شکار ہوئے۔
مڈ وایف بی بی حاجرہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بچوں کو بھی ساتھ لیکر ڈیوٹی کررہے ہیں مگر ابھی تک تنخواہ نہیں ملی۔
خوش بی بی جو اپنے چار ماہ کا بیٹا گود میں لئے کھڑی تھی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کوگھر چھوڑ کر بھی ڈیوٹی کررہی تھی مگر اس کے باوجود تنخواہ سے محروم ہے۔
فدا الرحمن جن کا تعلق دروش سے ہے، نے ڈائریکٹر جنرل محکمہ صحت سے اپیل کیا، کہ غریب ملازمین پر رحم کرے اور ہماری تنخواہیں دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ممبر صابائی اسمبلی نے وعدہ کیا تھا کہ دو دنوں میں کا کام ہوگا مگر ابھی ہمیں بتایا جارہا ہے کہ ہمیں ملازمت سے فارغ کیا گیا ہے۔
محمد شاکر کا کہنا ہے کہ ہم باقاعدگی سے ڈیوٹی کررہے ہیں اور ہمیں تنخواہیں نہیں دی جارہی ہے۔ ہم یہاں سات دنوں سے دھرنا اور اب علامتی بھوک ہڑتال کر رہے ہیں مگر ہماری فریاد کوئی بھی سننے کو تیار نہیں ہے۔
ایک اور مڈ وایف خاتون نے کہا کہ ہم نہایت مشکل حالات میں ڈیوٹی کرچکے ہیں کرونا وائریس کے دوران نہ تو ہمیں ماسک ملتا تھا نہ دستانے اور نہ سینٹائزر مگر اس کے باوجود ہم ڈیوٹی دے رہے تھے مگر اس کے باوجود ہمیں تنخواہ نہیں دی جارہی ہیں. اتنا ظلم تو کسی اور ملک میں نہیں ہوتا ہوگا جتنا ریاست مدینہ میں ہم پر ڈھایا جارہا ہے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ جلد سے جلد ہماری تنخواہیں جاری کی جائے۔
اس سلسلے میں ہمارے نمائندے نے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر شہزادہ حیدر الملک سے بھی ان کا موقف معلوم کیا. ان کا کہنا ہے کہ یہ بھرتیاں دسمبر 2019 کو ہوئی تھی جس پر رکن صوبائی اسمبلی اور سیاسی حلقوں نے اعتراض کیا تھا اور سیکرٹری ہیلتھ کو درخواست دی جس پر محکمہ صحت نے ڈائریکٹوریٹ جنرل صحت خیبر پختونخواہ کے دفتر سے ایک تحریری ہدایت نامہ کے مطابق ڈی ایچ او دیر بالا اور پائین کی نگرانی میں انکوائیری شروع ہوئی جس پر ان بھرتیوں کو معطل کیا گیا. جس کا نقل تمام ہیلتھ یونٹوں کو بھیجا تھا کہ فی الحال یہ لوگ ڈیوٹی نہ کرے تاکہ بعد میں ان کو مشکلات کا سامنا نہ ہوا۔
اس میں 105 خالی آسامیوں پر 115 لوگ بھرتی کئے گئے تھے. جس میں جن لوگوں نے ڈسپنسری کیلئے زمین دی تھی، مرحوم ملازمین کے بچوں کا کوٹہ، اقلیتی اور معزور اشخاص کا کوٹہ کا بھی خیال نہیں رکھا گیا. ان میں مردان اور دیگر اضلاع سے بھی لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے. جس پر محکمہ صحت نے کاروائی کی۔
انہوں نے ایک سوال پر یہ تسلیم کیا کی ان 105 میں سب غلط تو نہیں ہوسکتے جن کو جائز طریقے سے بھرتی کیا گیا اور جن کی تعیناتی جہاں ہوچکی ہے اور جو ملازمین اپنے تعیناتی کے جگہ میں ڈیوٹی کررہے ہیں وہ جائز ہے. مگر بعض لوگ دوسرے جگوں میں جاکر ڈیوٹی دے رہے ہیں جو غلط ہے۔ اب انکوائری رپورٹ آچکی ہے تو یہ محکمہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل کے اختیار میں ہے کہ وہ اس پر حتمی فیصلہ دے ۔
ان ملازمین نے وزیر اعلی خیبر پختونخواہ اور محکمہ صحت کے ارباب اختیار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کو ستمبر 2019 سے تنخواہ دلوادے اور ان ملازمین کو مناسب جگہوں میں تعینات کرے کیونکہ یہ لوگ کام کرنے کو تیار ہیں مگر تنخواہ کے بغیر کیسے اپنے فرایض انجام دے سکتے ہیں۔