Baam-e-Jahan

سانحہ علی آباد: ریاستی اور مذ ہبی اداروں کا کردار؟؟؟

نو سال گزرنے کے باوجود اسیران ہنزہ اور مقتولین انصاف کے طلبگار؛ عدالتی تحقیقاتی رپورٹ ابھی تک منظر عام پہ نہیں آسکا.

تحریر: ارسلان علی

نو سال قبل آج ہی کے دن ہنزہ کی تاریخ کا وہ اندوہناک سانحہ پیش آیا تھا جس میں قانون کے رکھوالوں نے بد ترین ریاستی جبر اور دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو باپ بیٹوں کو شہد اور سینکڑوں نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا. ان میں سے 16 نوجوان آج بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان کے لواحقین ریاست مدینہ کے حکمرانوں سے سوال کرتے ہیں کہ انہیں انصاف کب ملے گا؟

11 اگست 2011ء کو جب عطاء آباد سانحہ کے متاثرین علی آباد میں اس وقت کے وزیر اعلی کے متوقوع دورہ کے دوران اپنے بنیادی ضروریات اور بحالی کےلئے قراقرم ہائی وے پر امن احتجاج کر رہے تھے تو پولیس کے اہلکاروں نے براہ راست مظاہرین پر گولیاں برسائی جس کے نتیجے میں شیر افضل اور اس کا بیٹا شیراللہ پولیس کی بربریت کا نشانہ بنے اور موقع پر دم توڑ گئے۔ اس واقعہ پر لوگوں کا مشتعل ہونا ایک فطری بات تھی۔ مشتعل لوگوں اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے علی آباد تھانہ اور دیگر سرکاری عمارتوں کو جلایا ۔

سانحہ علی آباد کے فوراْ بعد ہی ریاستی ادارے جو تاک میں بیٹھے ہوئے تھے ہنزہ بھر میں مخالف سیاسی کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارنا شروع کیا اور کئی کو گرفتار کیا گیا تو کئی بے گناہ نوجوان پاکستان کے مختلف شہروں کی طرف بھاگ نکلے۔ انقلابی رہنماء باباجان جو بایاں بازو کے عوامی ورکرز پارٹی کے نائب صدر بھی تھے سمیت 400 سے زیادہ نوجوانوں پر انسداد دہشت گردی کے دفعات کےتحت مقدمات قائم کئے گئے ۔ حالانکہ بابا جان واقعہ کے روز علی اباد میں موجود ہی نہیں تھے بلکہ نگر کے گاؤں تھول میں تھے.
پورے ہنزہ میں شدید خوف و ہراس کی فضا قائم کیا گیا۔

https://www.facebook.com/hunzanews/videos/737352143728903/?t=0

ایک جوائینٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دیا گیا جس نے اپنے عقوبت خانوں میں سینکڑوں نوجوانوں کو بد ترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس غیر انسانی سلوک نے بھارت کے زیر انتظام مقبوضہ وادی میں مسلمانوں کے ساتھ جاری ریاستی تشدد اور بہمانہ سلوک کو بھی مات دیا۔

اسی دوران پیپلزپارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے چند ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے ایک ایک کرکے اس سانحہ سے قبل ہونے والی احتجاج میں شامل لوگوں کے گھروں کی نشاندہی کی اور گرفتاریاں کروانے میں اہم کردار ادا کیا. جبکہ منتخب ممبر اسی دوران ہنزہ کے عوام کے ساتھ کھڑے رہنے کی بجائے گلگت میں بیٹھ کر سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کےلئے ریاستی اداروں کے لئے ایک سہولت کار کا کام سر انجام دیتے رہےا۔

یہ غالبا ً دنیا کا انوکھا انصاف تھا کہ جس میں قاتل کو نہ صرف کھلی چھوٹ دی گئی بلکہ بعد میں ترقی بھی دیا گیا۔ جبکہ مقتولین کے لواحقین اور رشتہ داروں پر جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات درج کرکے انسداد دہشت گردی کے ایک جج نے سزا سنائی۔ ان اسیروں میں کامریڈ بابا جان سمیت 16 افراد اب بھی غذر کے دماس جیل میں گزشتہ نو سالوں سے عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں اور صعبتیں برداشت کررہے ہیں۔

یاد رہے علی آباد کا بلوہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں کوئی انہونی واقعہ نہیں تھا، کیوں کہ اس سے قبل گلگت تحصیل کی عمارت جہاں تاریخی دستاویزات اور زمینوں کے ریکارڈ محفوظ تھے کو بھی اسی طرح جلا کر خاکستر کیا گیا تھا ۔ جبکہ 2004 میں گلگت پولیس ریکروٹس ٹریننگ سنٹر (آرٹی سی) بھی اسی طرح مشتعل مظاہرین نے جلایا تھا۔ ان واقعات میں کسی ایک شخص کو بھی انسداد دہشت گردی کے دفعات کے تحت یا عمر قید کی کوئی سزا نہیں دی گئی تھی۔

واضح رہے سانحہ ہنزہ کو مذکورہ بالا واقعات سے موازنہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان واقعات کے بعد سیاسی و مذہبی قیادت نے ریاستی اداروں پر دباؤ ڈال کر اپنے گرفتار جوانوں کو جیلوں سے نکالنے اور مقدمات ختم کرنے میں بھرپورکردار ادا کیا اور ہر پل ان کے ساتھ کھڑے رہے. جبکہ ہنزہ کی سیاسی و مذہبی قیادت نے لوگوں کا ساتھ دینے کی بجائے ریاستی اداروں کے لئے سہولت کاری کا کردار ادا کرتے رہے۔ اس سانحہ کے دوران باپ بیٹے کو قتل کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کروانے کی بجائے ان کو ترقیاں دے دی گئی۔

اہم ذرائع کے مطابق اس واقعہ کے فوراً بعد ہی ہنزہ سے تعلق رکھنے والے اہم شخصیات جن میں سے اس وقت ہنزہ سے گلگت بلتستان اسمبلی کے رکن اور اسپیکر وزیر بیگ، سابق صدر اسماعیلی ریجنل کونسل گلگت کرنل (ر) عبیدا للہ بیگ اور دیگر ریٹائرڈ و حاضر سروس فوجی و سول آفیسروں نے اس وقت کے فورس کمانڈر ، وزیراعلیٰ ، آئی جی پی اور دیگر اداروں کے سربراہان کو سرینہ ہوٹل میں عشایہ دیا اور مطالبہ کیا کہ ان نوجوانوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے کیونکہ "وہ پاکستان مخالف ہیں اور براہ راست اس واقعہ میں ملوث ہیں” ۔ان میں سے کئی شخصیات نے بعد میں اس بارے میں نجی محفلوں میں اعتراف کیا کہ ان نوجوانوں کے خلاف کاروائی اور مقدمات ان کے کہنے پر ہوئی۔

اس سانحہ کی عدالتی تحقیقات اس وقت کے ڈسٹرکٹ و سیشن جج جناب محمد عالم خان نے کی تھیں لیکن یہ رپورٹ آج نو سال گزرنے کے بعد بھی سرکاری طور پر شائع نہیں کیا گیا البتہ غیر سرکاری طور پر مقامی اخبارات میں اس رپورٹ کے بارے میں چھپنے والے خبروں میں اس وقت کے وزیراعلیٰ مہدی شاہ ، اسمبلی سپیکر ، وزیر قانون سمیت ضلعی انتظامیہ کو ذمہ دارٹھرایا گیا تھا ۔ بعد میں جسٹس عالم جب ترقی پاکر چیف کورٹ کے جج مقرر ہوئے تو انہوں نے کامریڈ بابا جان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ بے گناہ ہے.
بعد میں بابا جان کو الیکشن سے باہر رکھنے کے لئے انہیں پہلے ایک متنازعہ عدالتی فیصلہ کے ذریعے پہلے چیوف کورٹ کے فیصلے کو رد کرکے ان کو دو بار عمر قید کی سزا سنائی اور انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے نا اہل قرار دیا.

ریاست پاکستان نے ہمیشہ گلگت بلتستان میں ان سیاسی کارکنوں اور عوام کو دبانے یا دیوار سے لگانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جنہوں نے اس خطہ سمیت پاکستان کے لئے خون بہایا ہے، قربانیاں دی ہیں اور بچوں ، ماؤں اور بہنوں کے واحد سہارے قربان کئے ہیں۔ اس کے مقابلے ریاست پاکستان نے ان عناصر سے بات چیت کیں او ان کے ساتھ معاہدے کئے جنہوں نے ریاست کے اداروں کو چیلنج کیا اور ہتھیار اٹھائے ۔

ہیہ وجہ ہے کہ اس دوغلی اور امتیازی سلوک کی وجہ سے آج بھی ہنزہ میں ایک معمولی نوکرشاہی کا کارندہ ڈی سی اور ایس پی فرعون بنے ہوئے ہیں ۔ وہ جس طرح چاہیں ہنزہ کے عوام کے ساتھ ناروا سلوک کرتے ہیں اور ہر وہ غلط احکامات جاری کرتے ہیں جو کسی اور جگہ قابل قبول نہیں اور اپنے نمن مانی احکامات اور حکم ناموں پر عمل درآمد کروتے ہیں۔
اس صورتحال میں وہ نام نہاد اعلی سرکاری سول و فوجی افسر یہ سب دیکھتے ہوئے خاموش رہتے ہیں اور صرف اپنے زاتی فائدے کا سوچتے ہیں۔ جو ترقی پسند وطن دوست سیاسی کارکن اور جماعتیں مظلوم عوام کے حق میں بات کرتے ہیں تو انہیں بھی ڈرا دھمکاکے یا مقدمات و شیڈول فورتھ لگانے کی دھمکیاں دے کر چپ کرواتے ہیں۔
ہنزہ جیسے اہم ضلع میں اس امتیازی سلوک اور ریاستی جبر کے خطرناک نتا ئج نکل سکتے ہیں ۔ اسلئے حکمرانوں اور مقتدر اداروں کو چاہئے کہ وہ حوش کے ناخن لیں اور جلد از جلد بابا جان اور 16 دیگر نوجوانوں کو فل فور رہا کر دیں اور سب کو پر امن جمہوری عمل میں حصہ لینے کا موقع فراہم کریں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے