Baam-e-Jahan

کالم قطرہ قطرہ: گلگت بلتستان اور قانون کرایہ داری

تحریر۔ اسرارالدین اسرار


نائلہ جعفری کیس میں بظاہر جو پہلو توجہ طلب تھا وہ قانون کرایہ داری پر عملدآمد کا تھا مگر اس کی طرف کسی نے دہیان نہیں دیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گلگت بلتستان کے لوگ قانون کرایہ داری سے نابلد ہیں۔ گلگت بلتستان قانون کرایہ داری ایکٹ 2010 موجود ہے مگر لوگ اس کو نہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی اہمیت دیتے ہیں۔ انتظامیہ نے بھی اس ضمن میں آنکھیں بند کر رکھی ہے۔
گلگت شہر سمیت تمام اضلاع میں کرایہ پر دینے کی غرض سے بڑی تعداد میں عمارتیں، مارکیٹس، دکانیں، پلازے، مکانات اور دفاتر تعمیر ہورہے ہیں۔ کیونکہ مقامی طور پر روزگار کے محدود مواقعوں کی وجہ سے مکان یا دکان بنا کر کرایہ پر دینا پیسہ کمانے کا اچھا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ کرایہ پر دفاتر، مکانات یا دکانیں لینے اور دینے کا رواج ساری دنیا میں ہے مگر وہاں یہ کام ایک قانون اور ضوابط کے تحت عمل میں آتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے قوانین کو جوتی کی نوک پر رکھ کر معاملات چلائے جاتے ہیں۔ قانون کرایہ داری پر عملدآمد نہ ہونے کی وجہ سے آجکل سنگین نوعیت کے تنازعات جنم لے رہے ہیں۔ ایک کرایہ دار نے راقم کو بتایا کہ ان کا مکان مالک کا رویہ شروع میں بہت اچھا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے بلاوجہ کرایہ بڑھانا شروع کیا۔ کرایہ دار نے مجبوری میں اس کی بات مان لی مگر مالک مکان نے اس وقت تو حد کردی جب کرایہ دار نے مکان خالی کرنے کا عندیہ دیا ۔ مالک مکان کہنے لگا کہ کرایہ دار پابند ہے کہ وہ ان کے گھر کی مکمل سفیدی اور مرمت کرادے۔ جس کا خرچہ کرایہ دار کی استطاعت سے باہرتھا۔ کرایہ دار سر پکڑ کر بیٹھ گیا مگر مالک مکان کو رحم نہیں آیا اس نے پھر بھی اس سے رقم بٹورنے میں شرم محسوس نہیں کی۔ کرایہ دار کا کہنا تھا کہ اگر مکان کو کوئی نقصان پہنچ چکا ہوتا تو اس کا ازالہ میری زمہ داری تھی لیکن ایک ناقص میٹریل کے بنے ہوئے مکان کی مکمل مرمت کرانے کا تقاضا کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں تھا مگر میں مجبور اور بے بس تھا۔
گلگت شہر اور دیگر ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں اکثر عام ملازمین، مزدور، طالبعلم چھوٹے کاروباری، متوسط اور غریب طبقہ کے لوگ روزگار کی غرض سے کرایوں کے مکانات میں مقیم ہوتے ہیں۔ مالکان ان کو مکان دیتے وقت قانون کرایہ داری کی رو سے کوئی تحریری معاہدہ نہیں کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مالکان کا رویہ تبدیل ہو جاتا ہے اور لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے۔ سوائے چند باضمیر اور با اصول مالکان کے اکثر مالکان کا رویہ بعد ازاں انتہائی ہتک آمیز ہوتا ہے۔ اس لئے اکثر مالکان اور کرایہ داروں میں تنازعات پولیس، تحصیل اور عدالتوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
گلگت شہر سمیت دیگر ضلعی ہیڈ کواٹرز میں عمارتوں کا کرایہ طے کرنے کا کوئی اصول اور ضابطہ طے نہیں ہے اس لئے ہر جگہ من مانی کی جاتی ہے۔ اگر گلگت شہرکا صرف ایک ایریا یعنی ہیلی چوک سے پبلک سکول چوک تک کی مثال لی جائے تو نہایت گھمبیر صورتحال ہے۔ مکانات اور دکانوں کے کرایے کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے گنجان آباد شہروں سے کئ گنا زیادہ ہیں۔ دکانوں میں کاروبار نہیں مگر مالکان لاکھوں کی پگڑی لیتے ہیں اور کرائے آسمان پر ہوتے ہیں۔
کسی قانون کی عدم موجودگی کی وجہ سے بعض جگہوں پر کرایہ دار مالکان کی ناک میں دم کرتے ہیں مگر ایسی شکایات کی شرح کم ہوتی ہے۔ کیونکہ اکثر کرایہ دار ہی مار کھا جاتا ہے۔ کرایہ دار ایک مجبور انسان ہوتا ہے ورنہ اگر وہ مجبور نہ ہوتاتو اپنا ہی گھر یا دکان بنانا کس کو برا لگتا ہے؟
اس ساری صورتحال میں انتظامیہ دور بین میں بھی نظر نہیں آتی ہے۔ قانون کی رو سے ایک رینٹ کنٹرولر کی تعیناتی ضروری ہے مگر یہاں ایسا کوٸی کنٹرولر دیکھنے کو نہیں ملتا اور نہ ایسی شکایات کے اندراج کے لۓ کوٸی مخصوص جگہ ہے۔ اس نفسا نفسی میں غریب پس رہا ہوتا ہے۔ مجبور اور بے بس لوگ خاموشی سے اس سارے ظلم کو سہتے ہیں۔ دوسری طرف لوگوں کا اخلاق بھی تنزلی کا شکار ہے۔ مادیت پرستی میں وہ تمام حدود کو پار کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ ہر ایک کو جیسے تیسے کسی کی بھی مجبوری سے فاٸدہ اٹھاتے ہوئے راتوں رات امیر بننے کی فکر ہے۔ ایسے میں قانون بھی خرگوش کی نیند سوجاۓ تو معاشرہ استحصالی طبقہ کے ہاتھوں یر غمال بن جاتا ہے۔ مذہبی رہنما بھی لوگوں کو اپنے ان انسان دشمن رویوں کو ترک کرنے کی کھبی تلقین نہیں کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں ناٸلہ جعفری جیسے واقعات کا رونما ہونا فطری بات ہے کیونکہ قانون کرایہ داری سے لوگ جب تک آگاہ نہیں ہونگے اور انتظامیہ اس پر عملدرآمد کو یقینی نہیں بناۓ گی ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ قانون کرایہ داری پر عملدآمد کے علاہ کرایہ مقرر کرنے کا بھی ایک پیمانہ اور ایک حد مقرر کرے۔ کس ایریا میں کس ساٸز کی عمارت کا کرایہ کیا ہونا چاہئے اس کا کوئی معیار مقرر کرنے کے علاوہ کرایہ دار اور مالک مکان میں لازمی تحریری معاہدہ میں کن بنیادی نکات کا ذکر لازمی ہے اس حوالے سے سختی سے ہدایات جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ عمل نہ کرنے والوں پر شکایات کی روشنی میں بھاری جرمانہ کیا جانا چاہئے۔ایسی شکایات کے فوری حل کے لئے ہیلپ لائن بھی ہونی چاہئے۔ قانون کرایہ داری پر عملدرآمد نہ کرانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو نہیں پایا گیا تو خدشہ ہے کہ مستقبل میں زیادہ پر تشدد واقعات جنم لیں گے۔

نوٹ۔ قارٸین کی دلچسپی کے لئے قانون کرایہ داری کے اہم نکات کا ذکر اگلے کالم میں کیا جائےگا۔
اسرارالدین اسرار سینئر صحافی، اور حقوق انسانی کمیشن پاکستان کے کوآرڈینیٹر برائے گکگت بلتستان ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے