446

‘مذاکرات اور برداشت سے سماجی تضادات کو حل کیا جا سکتا ہے’

رپورٹ: گل حماد فاروقی

مذاکرات، برداشت، تحمل اور باہم گفتگو کے ذریعے سماجی مسائل کو حل کرنے اور طلباء کے اندر تجسس اور سوالات کی حوصلہ افزائی سے سماج کو نئے زاوئے سے دیکھنے اور پیچدہ مسائل کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے.

ان خیالات کا اظہار جامعہ چترال میں منعقدہ دو روزہ ورکشاپ اور مذاکرہ کے شرکاء نے کیا دوران کیا گیا جو بدھ کے روز اختتام پذیر ہوا۔

ورکشاپ کا انعقاد جامعہ چترال نے پاکستان سنٹر آف ایکسلینس اور مرکز برائے تحقیق و سیکورٹی اسٹدیز کے شراکت و تعاون سے کیا گیا تھا جس کا بنیادی مقصد طلباء و طالبات میں برداشت، سوالات، اور بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا تھا۔

پروگرام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے پراجیکٹ منیجر فرحانہ کنول نے کہا کہ اس طرح کے سرگرمیوں کےانعقاد کا بنیادی مقصد نوجوانوں میں تنقیدی سوچ کو فروغ دینا، سوال کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا.

انہوں نے کہا کہ طلباء کو یہ سمجھنا چاہئے کہ سوال پوچھنے سے ان کو کیا مل سکتا ہے؟ کیونکہ سوال ہی کے ذریعے ان کے لئے سوچ کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔”

ادارے کے بارے میں مقامی صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان سنٹر آف ایکسلینس ایک خود مختار ادارہ ہے جو پچھلے دس سالوں سے مختلف موضوعات پر کام کررہی ہے۔ اس منصوبے کے تحت مختلف جامعات کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کر رہی ہے.

فرحانہ کنول کا کہنا ہے کہ انہوں نے دو دنوں میں چار نشستیں کروائے. پہلا سیشن کوالٹی، تنوع، اور برداشت کے بارے میں تھا. دوسری نشست سماجی ہم آہنگی پر تھا، تیسری نشست قیادت اور اور تحریک پر تھا جس پر صدام حسین نے شرکاء کو بریفنگ دی۔ جبکہ آخری نشست پیش بندی اور اعتماد کے موضوعات پر تھا.

جامعہ کی ایک طالبہ نگینہ حکیم نے کہا اس سیشن سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا کیونکہ ہمیں سماجی ٹکراو اور تضادات کے بارے میں پہلے کوئی معلومات نہیں تھی. علاوہ ازیں اس پروگرام کے زریعے سماجی زندگی میں ہمیں ایک دوسرے کو برداشت اور رویوں کو مثبت بنانے کے بارے میں بہت معلومات حاصل ہوئی۔

ایک اور طالبہ نازش نے کہا کہ یہ پروگرام ہمارے لئے نہایت مفید تھا اور نوجوان نسل کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا. انہوں نے مزید کہا کہ اس قسم کے پروگرام وقتا فوقتا ہوتے رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا خواتین میں خودکشی کی بڑھتے ہوئے رحجان بھی عدم برداشت کا نتیجہ ہے۔

شعبئہ معاشیات کی طالبہ کاملہ بی بی نے کہا کہ پہلے ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ ہمیں کس قسم کے سوالات پوچھنا چاہئے؟ ہم سماجی مسائل کو کیسے حل کریں؟ اس نشست سے ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ بڑھا۔

کمپیوٹر سائنس کی طالبہ حافظہ نذار نے کہا کہ سیشن کے بعد میرے اندر کمیونیکیشن کی مہارت بہت بڑھ گیا. اب مجھے امید ہے کہ ہم اپنی بات آسان طریقے سے ایک دوسرے کو بتا سکتے ہیں. ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ "میں نے جو کچھ یہاں سے سیکھا اسے میں اپنے گھر والوں کو بھی بتاؤں گی”۔
ایسے سیشن ضرور ہوتے رہنا چاہئے تاکہ طلباء وطالبات اپنے مسائل کے بارے میں ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کر سکیں۔
پروگرام کے اختتام پر پرو جیکٹ ڈائریکٹر پروفیسر بادشاہ منیر بخاری نے طلباء و طالبات پر زور دیا کہ وہ ایک دوسرے کے رسم ورواج اور عقائد کا احترام کریں.
انہوں نے کہا کہ "اگرہم ایک دوسرے کو برداشت کرنا سکھیں گے تو دنیا میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا.”

فرحانہ کنول نے طلباء و طالبات کے ساتھ سوال و جواب کا خصوصی نشست بھی رکھا جس میں محختلف سماجی اقدار پر شرکاء سے سوالات پوچھے گئے۔

دو روزہ سیمنار کے اختتام پر شرکاء میں اسناد تقسیم کئے گئے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں