418

لال کمرہ

تحریر : عجوہ رشید

آپ سب نے ولاد سوئم عرف ڈریکولا کا نام سنا ہوگا جو انسان کی شکل میں ایک درندہ تھا اور لوگوں کو بے دردی سے قتل کر کے ان کی لاشوں کو سلاخوں پر لٹکا دینا اور ان کے خون کو پی جانا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا. ڈریکولا دراصل 1897 میں شائع ہونے والے آئرلینڈ کے مصنف برام اسٹوکر کا مشہور ناول بھی ہے جس میں اس نے کاؤنٹ ڈریکولا کے کردار کو متعارف کرایا.

ولاد سوئم پندرویں صدی میں ٹرانسلوینیا میں پیدا ہوا تھا اور اسے ڈریکولا کے نام سے جانا جاتا تھا. یہ نام لاطینی لفظ ڈراکو سے اخذ کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے "ڈریگن” ہے۔ جدید رومانیہ میں ، ڈریک کا مطلب "شیطان” ہے۔ ڈریکولا کا کردار مغربی ادب میں زیادہ مشہور ہوا تھا اور اس موضوع پر کئی فلمیں بھی بنی ہیں۔ اس صنف کے ادب سے بعد میں چڑیل یا بھوت کے کردار نے جنم لیا.


آپ سوچ رہے ہوں گے وہ تو دور جہالت تھا اب ایسا کہاں ہوتا ہے. مگر آج کے نام نہاد مہذب اور ترقی یافتہ دور میں ڈرئکولا سے بھی زیادہ بھیانک کردار ملتے ہیں جو آئے دن انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں. آج کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں لال کمرا (Red Rooms) کسی اینیمیشن یا ویڈیو گیم کا نام نہیں ہے بلکہ ایک ایسی پر اسرار شیطانی ویب سائٹ ہے جو ڈارک ویب پر ملتی ہے۔ جس کے نتیجے میں لوگ خود کشی کر لیتے ہیں.

اس کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ یم انٹرنیٹ کے مختلف پرتوں اور طریقئہ کار کو سمجھنے کی کوشیش کریں.
ہمارا انٹرنیٹ تین سطحوں پر بٹا ہوا ہے: سرفیس یا سطحی ویب، ڈیپ یا گہری ویب ، اور ڈارک یا تاریک ویب.

سرفیس ویب وہ انٹرنیٹ ہوتا ہے جو بہت کم ہے. یعنی ایک فیصد سے بھی کم جو گوگل پر دستیاب ہے. جس تک رسائی ایک صارفین کو ہے. یعنی سماجی رابطہ کے پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، ٹوئٹر, انسٹاگرام اور بہت سارے وہ ویب سائٹ جو گوگل پر بہ آسانی مل جاتے ہیں. جبکہ ڈیپ ویب انٹرنیٹ کا وہ حصہ ہے جس میں غیر قانونی کام نہیں ہوتا ہے لیکن وہ گوگل پر تلاش کرنے سے نہیں ملتے ۔اس ویب کا استعمال زیادہ تر سیکوریٹی اور حساس ادارے کرتی ہیں۔

ڈارک ویب انٹرنیٹ کا 96٪ حصہ ہوتا ہے جو چھپا ہوا ہوتا ہے جس کی رسائی مخصوص براؤزر سے ہوتی ہے. جس کو ہم سرچ انجن پر نہیں ڈھونڈ سکتے . ان ویب سائٹس پرہر قسم کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیاں مثلا منشیات کا کاروبار، قتل اور جنسی استحصال اور ہر قسم کے دیگر جرائم شامل ہے، ہوتے ہیں اس ویب سائٹ تک رسائی بھی غیر قانونی ہوتی ہیں.

ریڈ روم (لال کمرا ) کا سرخ رنگ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ انٹرنیٹ کی دنیا میں ایک کمرہ ہوتا ہے جس کا نام ریڈ روم یا خطرے سے تشبیہ دینے کے لئے رکھا ہے. ذہنی بیمار، جرائم پیشہ لوگ یا دہشت گرد ان کے ذریعے پیسہ کماتے ہیں. معصوم بچوں اور بچیوں کو اغوا کر کے ان پر جسمانی اور جنسی تشدد کرتے ہیں اور ان کی ویڈیوز بنا کر بیچا جاتا ہے اس قسم کے گھناونے فلموں کی بولی لگتی ہے۔

2010 میں تین ویڈیوز پر مشتمل ایک سیریز منظرعام پر آئی تھی جس کا نام دیسی ڈسٹرکشن تھا اس ویڈیو میں چھوٹی بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد ا ن کو مارا جاتا ہے اور ان کے اعضاء کاٹے جاتے ہیں۔

مغربی ممالک کے بعد اب ڈارک ویب کا چرچہ پاکستان میں بھی بہت ہورہا ہے. خاص طور پر پنجاب کے شہروں قصور، شیخوپورہ اور دیگر شہروں میں کم سن بچوں اور بچیوں کے ساتھ جسنی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد سپریم کورٹ نے ان کا نوٹس لیا تھا اور حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ذمہ داران کے خلاف کاروائی کریں. لیکن ابھی تک خاطر خوا کاروئی نہیں ہوئی ہے۔

کچھ صحافیوں نے یہ دعوی کیا تھا کہ 2018 میں قصور میں ہونے والے زینب قتل کے واقعے میں بھی ڈارک ویب ملوث ہے تاہم مجرم کا ڈارک ویب سے منسلک ہونے کا کسی قسم کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا۔

تاہم حکومت کو ایسے ٹھوس اقدام اٹھانے چاہیے جس سے ڈارک ویب کے صارفین کا پتہ لگایا جا سکے اور مزید بچوں کو اس گھناونے جرائم سے بچا جا سکے.

عجوہ رشید نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد میں صحافت کی طالب علم ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم سے بھی دلچسپی رکھتی ہیں اور ان موضوعات پر مضامین لکھتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں