366

قوم پرستی اور وطن فروشی میں فرق کیا ہے؟

تحریر. اشفاق احمد ایڈوکیٹ.

Ashfaq Ahmed Advocate

جدید دور کی تاریخ قوم پرستی کی تاریخ ہے.

قوموں کی جدوجہد اور لڑائیوں کی آگ میں قومیت کی آزمائش ہوچکی ہے اور غیر ملکی حکمرانی، نو آبادیات اور جدید استعمار کے خلاف یہ واحد موثر تریاق ثابت ہوا ہے.
قوم پرستی ایک نظریہ اور تحریک ہے جو ایک خاص قوم (جیسے لوگوں کے ایک گروہ جو صدیوں سے ایک علاقے میں مستقل طور پر آباد ہوں) کے مشترکہ مفادات کو فروغ دیتی ہے، خاص طور پر اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے وطن اور قوم کی خود مختاری ( نظم و نسق) کو حاصل کرے اور برقرار رکھے۔ قوم پرستی کا مؤقف ہے کہ ہر قوم بیرونی مداخلت سے آزاد ہوکر اپنے وطن پر خود حکومت کرے, ایک قوم ایک جمہوریہ کے لئے یہ فطری اور مثالی بنیاد ہے اور ایک قوم ہی سیاسی طاقت کا مقبول حق ہے.
اس کا مقصد ثقافت، نسل، جغرافیائی محل وقوع ، زبان ، سیاست (یا حکومت) ، مذہب ، روایات اور مشترکہ تاریخ پر اعتقاد کی مشترکہ سماجی خصوصیات پر مبنی ایک واحد قومی شناخت کی تشکیل اور اسے برقرار رکھنا اور قومی اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینا ہے۔ قوم پرستی کسی قوم کے روایتی ثقافتوں کے تحفظ اور فروغ کی کوشش کرتی ہے اور ثقافتی احیاء قوم پرست تحریکوں سے وابستہ ایک اہم عنصر ہے۔ یہ قومی کامیابیوں پر فخر کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور یہ تصور حب الوطنی کے ساتھ قریب سے جڑا ہوا ہے۔ قوم پرستی اکثر دوسرے نظریات جیسے کہ استعماری فکر اور نو آبادیاتی پالیسی کے خلاف ایک نظریاتی جدوجہد کرتی ہے.
پوری انسانی تاریخ میں لوگوں کو اپنے خاندانی گروہوں اور روایات ، علاقائی سالیمت اور اپنے آبائی وطن سے فطری لگاو رہا ہے .
قوم پرستی کو علاقائی طور پر منظم سیاسی اجتماعیت کے ساتھ خود کو سمجھی جانے والی شناخت کے طور پر تعبیر کیا جاسکتا ہے۔کسی مخصوص برادری میں رکنیت کے لحاظ سے اپنے آپ کو بیان کرنے کی نفسیاتی ضرورت قوم پرست جذبات کی جڑ ہے۔
قوم پرستی کی پہچان علاقائیت کا ایک احساس ہے جو ، اپنے وطن ، تحریری یا بولی جانے والی زبان ، ایک داستان گو تاریخ اور نسل در نسل بیرونی دشمن کے خوف سے عداوت کا اظہار کرتی ہے
انسانی نوع کی ریکارڈ شدہ تاریخ تقریبا دس ہزار سال پرانی ہے جس میں قومی شناخت مرکزی کردار کی حامل رہی ہے. قدیم لوگوں اور ان کی ثقافتوں کے عروج و زوال کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ قومیت کا نصب العین بہت گہرا اور قوی ہےاور یہ کوئی فرسودہ چیز نہیں جس کی مستقبل کے لیے کچھ اہمیت نہ ہو- قومیت کا جو دائمی اثر انسانی طبیعت پر ہے اسے تسلیم کرنا چاہئے .
یونانی شہری ریاستوں سے لیکر قدیم سمیرین تک قوم پرستی کا رحجان ( we versus they)’ہم بمقابلہ وہ’ کی بنیاد پر قائم تھی.
ایک قوم ایک ملک کا فلسفہ درحقیقت معاہدہ ویسٹ فلیلیا کے بعد پروان چڑھا. جب تیس سال کی خونی لڑائی کے بعد یورپی ممالک نے امن کے اس معاہدے کے تحت قوموں کی خودمختاری کو تسلیم کیا .
جبکہ جدید قوم پرستی کی ترقی میں 1776 میں امریکی انقلاب اور 1789 میں انقلاب فرانس نے کلیدی کردار ادا کیا.
قومی حق خود ارادیت فرانسیسی انقلاب سے جنم لینے والا ایک مثالیت پسند اعتقاد ہے کہ اگر ہر قوم اپنی سیاسی منزل مقصود کا خود تعین کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ تصور امن کی راہ میں اچھا اقدام ہوگا

برطانیہ کی غلامی سے امریکی آزادی کا اعلامیہ

1776 میں یہ اعلان کیا گیا کہ تمام انسانوں کو یکساں طور پر پیدا کیا گیا ہے ، اور یہ کہ انہیں اپنے خالق کی طرف سے کچھ غیر منقسم حقوق دیئے گئے ہیں جن میں میں سے زندگی , آزادی اور خوشی کا حصول کا حق شامل ہے.
لیکن 18 ویں صدی کے آخر تک قوم پرستی عالمی سطح پر ایک وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ تصور نہیں بن سکی۔
مگر انقلاب فرانس کے بعد پورے پورپ میں قوم پرست تحریکوں کا احیا ہوا اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے نے تیسری دنیا میں قومی حق خود ارادیت کے حصول کی طرف سامراج اور نوآبادیات مخالف تحریکوں کو جنم دیا ۔
قوم پرستی کی اصل اساس یہ ہے کہ وطن سے الفت ایک فطری رجحان ہے۔ سیاسی مفکروں نے نیشنلزم کو ایک متحرک ، ارتقائی رجحان کے طور پر بیان کیا ہے اور قوموں اور قوم پرستی کی نشوونما میں علامتوں ، اور روایات کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
جدیدیت کا نظریہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ قوم پرستی ایک حالیہ معاشرتی واقعہ ہے جسے جدید معاشرے کے معاشرتی و معاشی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔

ایک "قوم” کی مختلف تعریفیں ہیں جو مختلف قسم کی قوم پرستی کا باعث بنتی ہیں۔ نسلی قوم پرستی مشترکہ نسل ، ورثہ اور ثقافت کے لحاظ سے قوم کی تعریف کرتی ہے. جبکہ شہری قوم پرستی مشترکہ شہریت ، اقدار اور اداروں کے لحاظ سے قوم کی تعریف کرتی ہے اور اسے آئینی حب الوطنی سے منسلک کیا جاتا ہے۔ تاریخی ترقی کے لحاظ سے قومی شناخت کو اپنانا قومی مشترکہ بقا کی علامت ہے.
مشہور تاریخ دان "Yuval Noah Harari اپنی کتاب
21 Lessons for the 21st Century
میں قوم پرستی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ قوم پرستی آپ کو بتاتی ہے کہ آپ کی قوم انفرادیت رکھتی ہے اور آپ کی قوم کے ساتھ آپ کی خصوصی ذمہ داری ہے۔ قوم پرستی اگر تنگ نظری کی طرف نہیں جاتی ہے تو یہ انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ فائدہ مند خیال ہے۔ کیونکہ قوم پرستی بنیادی طور پر اجنبیوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنے کے قابل بناتی ہے اور اس طرح کسی علاقے کے اندر صدیوں سے مستقل طور پر آباد لوگوں کی یہ برادری ایک قوم کی تشکیل کرتی ہےجو واقعتا ایک دوسرے کو نہیں جانتی لیکن وہ ایک دوسرے کو بھائی سمجھ کر خود کو ایک قوم تصور کرتی ہیں.وہ اپنے آپ کو قومی خاندان میں بھائی اور دوست سمجھتے ہیں۔ قوم پرستی ان کے مشترکہ اہداف کے لیے تعاون کوممکن بناتا ہے
جب آپ دنیا کو دیکھتے ہیں تو آپ عام طور پر یہ دیکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ مضبوط اور خوشحال ممالک قوم پرستی کے بہت مضبوط احساس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اگر سویڈن ، سوئٹزرلینڈ اور جاپان جیسے ممالک کو دیکھیں تو ان کے پاس قومیت کا بہت مضبوط احساس ہے ، اس کے برعکس سومالیہ, افغانستان اور کانگو جیسے ممالک جہاں قوم پرستی کا احساس مصْبوط نہیں ہے وہاں تشدد اور غربت زیادہ ہے.
پولیٹیکل سائینس کے مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی قوم کی تشکیل کے لیے ایک علاقے کے اندر صدیوں سے مستقل آبادی اور ان افراد کا مشترکہ مفاد ایک اہم عنصر ہوتا ہے.
بین الاقوامی قانون کی روح سے قومی ریاست کی تشکیل کے لیے چار اہم عنصر درکار ہوتے ہیں جن میں ایک مخصوص علاقہ, مستقل آبادی, ان کی ایک نمایندہ حکومت اور خودمختاری شامل ہے.
دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں نو ابادیاتی نظام سے چھٹکارہ کا عمل شروع ہوا. قومی آزادی کی تحریکوں نے نوآبادیاتی طاقتوں کو چیلنج کرنے اور ان کی نوآبادیات میں قائم استعماری نظام کو ختم کرنے کے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس طرح استعمار کے خاتمے کو پوری دنیا میں نئی خودمختار قومی ریاستوں کے ظہور کی علامت بنایا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 1 (2) ممبر ممالک سے لوگوں کے حق خود ارادیت کے حق کا احترام کرنے کا عہد لیتا ہے اور یہ غیر مشروط حق ہے.
یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی استعماری طاقتیں قوت سے اپنی غیر ملکی رعایا میں قوم پرستانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی یا ان کی صفایا کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہیں- اس مقصد کے لئے نیشنلزم کے خلاف پروپیگنڈے پر بھاری رقوم دل کھول کر خرچ کی جارہی ہیں اور نیشنلزم کے حامی محب وطن افراد کو اکثر تنگ نظر ‘ وحشیانہ غیر مہذب اور شیطانی اور بیرونی ممالک کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت اس کی برعکس ہوتی ہے.

عام طور پر غلامی جسم پر تصرف جمانے سے پہلے ذہن پر قبضہ کرتی ہے جس کی وجہ سے غیر ملکی رعایا کے بعض لوگ اس گھناؤنے پروپیگنڈے سے مسحور ہوتے ہیں اور یوں استعمار کے آلہ کار بن جاتے ہیں اور وطن فروشی کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے ہیں اور وطن سے محبت کرنے والے افراد کو غیرملکی ایجنٹ قرار دینے کا ٹھیکہ لیتے ہیں اور اس طرح یہ وظیفہ خوار اپنی روح کا سودا کرکے حقیر مفادات کی خاطر اعلی ترین قومی فرایصْ سے غفلت برتنے لگتے ہیں.
اس عظیم خدمت کے باعث استعماری طاقت ان کی بڑی تعریف اور توصیف کرتی ہے اور ان پر مہذب ,لبرل, اور روشن دماغ جیسی اصطلاحات کی بارش کرتی ہے .
مشہور فلسفی ژاں ژاک روسو اپنی شہرہ آفاق تصنیف معاہدہ عمرانی میں لکھتے ہیں کہ ذلیل ذہنیت رکھنے والے غلام لفظ آزادی کا مزاق اڑاتے ہیں. جب کہ جو قوم ہمیشہ اچھی طرح حکمرانی کرے گی اسے محکوم ہونے کی کھبی نوبت نہیں آۓ گی.
قوم پرستی درحقیقت ایک قوم کی ترقی اور مشترکہ بقا کی صْامن ہوتی ہے قوم پرستی کا مطلب تنگ نظری نہیں نہ ہی فسطائیت ہے عام طور پر لوگ اس بات میں فرق نہیں کرتے ہیں اور غلطی سے قوم پرستی اور فسطائیت کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں.
قوم پرستی کے متعلق عام طور پر دو طرح کی راۓ پائی جاتی ہے ایک مکتبہ فکر کا ماننا ہے کہ قوم پرستی تنازعات کو فروغ دینے اور دوسرے قوموں سے نفرت کا باعث بنتی ہے .ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ قومی سوال اور طبقاتی سول کو جوڑے بغیر قوم پرستی فسطائیت کی طرف جاتی ہے اور اس قوم کے حکمران طبقہ کے مفادات کو تحفظ دہنے میں معاون و مددگار ہوتا ہے.

جبکہ دوسرے مکتبہ فکر کا ماننا ہے کہ یہ قومی وحدت اور یکجحتی کے لیے ایک قوت کا کام کرتی ہے اور جب یہ فرد کو شناخت اور اس سے تعلق کا احساس فراہم کرے تو قوم پرستی ایک مفید قوت ثابت ہوسکتی ہے اس لیے ہر محکوم ملک کے لیے قومی آزادی کی لگن سب چیزوں پر مقدم ہونی چاہیے. اس سے فرد کو مشترکہ بھلائی کے حصول میں ساتھی شہریوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ اور اس طرز عمل سے انفرادیت اور بیگانگی کو کم کیا جاسکتا ہے۔ نیشنلزم ریاست کے اتحاد کے لئے ایک طاقت ہے جرمنی کے چانسلر بسمارک نے قومی حب لاوطنی کو بنیاد بنا کر دو سو چھوٹے ٹکڑوں میں منقسم جرمنی کو منظم کرکے ایک ملک بنایا.
بین الاقومی سطح پر قومی پرستی کی عروج کی مثال یہ ہے کہ 1945 میں اقوام متحدہ کی تشکیل کے بعد سے اقوام متحدہ کی ممبرشپ تین گنا بڑھ گئی ہے اور کچھ ریاستیں اب بھی داخلے کے منتظر ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد اقوام متحدہ کے قیام سے اب تک ایک سو سے زاید نئی قومی ریاسیتں قوم پرستی کی فتح کے ذریعے آزادی حاصل کر چکی ہیں، تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف قوم پرست تحریکیں وجود میں آنا ایک فطری عمل ہے.
حالیہ تاریخ میں ہم امریکہ سے روس تک قوم پرستی کی تشہیر اور عروج کو دیکھتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے نامور وکیل اور بائیں بازو کے دانشور احسان علی ایڈوکیٹ کے بقول نوآبادیات میں قومی حقوق کے لیےجدوجہد کرنے والوں قوم پرستوں اور ترقی پسند کارکنوں کے خلاف منصوبہ بندی کے ساتھ جعلی قوم پرستوں کا ایک ٹولا پیدا کیا جاتا ہے جو درحقیقت قوم پرست اور ترقی پسند نہیں بلکہ استعمار کے آلہ کار اور اجرتی مزدور ہوتے ہیں جو ذاتی مفادات کے لیے قومی مفادات کا سودا کرتے ہیں.
ایسے افراد کے لئے پاکستان کے مشہور انقلابی شاعر حبیب جالب نے کیا خوب کہا ہے کہ.

وطن سے الفت ہے جرم اپنا یہ جرم تا زندگی کریں گے
ہے کس کی گردن پہ خونِ ناحق یہ فیصلہ لوگ ہی کریں گے

وطن پرستوں کو کہہ رہے ہو وطن کا دشمن ڈرو خدا سے
جو آج ہم سے خطا ہوئی ہے ، یہی خطا کل سبھی کریں گے

وظیفہ خواروں سے کیا شکایت ہزار دیں شاہ کو دعائیں
مدار جن کا ہے نوکری پر وہ لوگ تو نوکری کریں گے

لئے جو پھرتے ہیں تمغہء فن ، رہے ہیں جو ہم خیالِ رہزن
ہماری آزادیوں کے دشمن ہماری کیا رہبری کریں گے.

اشفاق احمد کالم نگار اور سیاسی تبصر نگار ہیں. ان کے کالم بام جہاں سمیت گلگت بلتستان کے مختلیف اخبارات میں شائع ہوتے ہیں. وہ پیشہ کے لحاظ سے وکیل ہیں اور گلگت بلتستان چیف کورٹ میں وکالت کرتے ہیں اوعر ساتھ ساتھ ایک مقامی کالج میں بین الاقوامی قوانین پر لیکچر بھی دیتے ہیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں