محمد علی مسافر اور فرمان بیگ
یہ 1960 کی دہایی کی بات ہے کہ ایک دن گوجال کے عوام کو ہنزہ کے میر کی جانب سے اطلاع دی جاتی ہے کہ وہ فورا ہنزہ پہنچ جائیں اور فوجیوں کے سامان اٹھا کر سوست پہنچا دیں۔
حکم کی تعمیل ہوتی ہے عوام ہنزہ سے سامان اٹھا کر سوست پہنچ جاتے ہیں،
واپسی کی تیاری تھی کہ فوجی کپتان لوگوں سے پوچھتا ہے کہ "ان کو ایک دن کے اجرت کتنی ملتی ہے”۔
خاموشی چھا جاتی ہے !کسی میں جواب دینے کی ہمت نہیں ہوتی ۔
کپتان دوسری بار پوچھتاہے تو ایک نوجوان کھڑا ہوتا ہے اور جواب دیتا ہے۔
” جناب آٹھ آنے”۔
کپتان کہتا ہے، "بے وقوف تمھاری اجرت تو ڈھائی روپے ہے تم یہ کیا بات کر رہے ہو”۔
نوجوان جواب دیتا ہے: ” جناب اجرت تو اٹھ آنے ہے۔ میں بے وقوف نہیں ہوں جو ہمارے حق کھاتا ہے وہ بے وقوف ہے”(یاد رہے کھانے والا میر آف ہنزہ تھے) ۔
کپتان میر کے نمائیندے کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ "ان کو پوری اجرت ادا کی جائے”۔
وہ نوجوان ابھی اپنے گاوں، خیبر پہنچ ہی جاتا ہے کہ میر کی جانب سے پیغام ملتا ہے کہ وہ فورا میر کے دربار میں حاضرہو جائے۔
نوجوان دربار میں پہنچ جاتا ہے۔ میر ان سے باز پرس کرتے ہیں۔ نوجوان اپنا موقف بیاں کرتا ہے۔ نوجوان کو واپس گھر بیھج دیا جاتا ہے۔ لیکن جب وہ گھرپہنچ جاتا ہے تو انھیں واپس بلا کر سزا کے طور پر گلمت قلعہ میں قیدی بنالیا جاتاہے۔
وہ کئی دنوں تک قید و بند کی صعوبت برداشت کرتے رہے۔ لیکن اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتے، مجبورا ان کو رہا کیا جاتا ہے۔
لیکن انھوں نے میر کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا نہیں چھوڑا۔
وہ نوجوان کوئی اور نہیں خیبر گوجال کے محمد زیور تھے۔
حالات زندگی
سابقہ ریاست ہنزہ کے میروں اور ان کے حواریوں کےظلم وجبر کے خلاف سینہ سپر رہنے والا شخصیت محمد زیور بروز ہفتہ 27 مارچ 2021 کو صبح سات بجے انتقال کرگئے ان کی عمر 98 برس تھی۔
انھوں نے ایک بھر پور زندگی گزاری. جب ہنزہ میں میروں کا راج تھاہر کوئی ریاست کے حکمرانوں کے استحصال، ظالمانہ و جابرانہ پا لیسیوں سے تنگ آچکے تھے. لیکن خوف کی وجہ سے آواز نہیں نکالتےتھے۔
محمد زیور گوجال میں ہنزہ کے حکمرانوں اور ان کے حواریوں کے ظلم وجبر اور ناانصافیوں کے خلاف ایک توانا مزاحمتی آواز بن کے ابھرا. جس کی وجہ سے وہ میر کے غیض وغضیب کا نشانہ بھی بنےرہے اور قیدوبند کی صحوبتیں بھی برداشت کی. مگرا پنے اصولوں اور سچائی پر کبھی سودے بازی نہییں کی۔
جب ہنزہ گوجال میں میر آف ہنزہ کے خلاف مزاحمتی تحریک کا آغاز ہوا تو وہ اس میں پیش پیش رہے۔ وہ ان ابتدائی چند افراد میں شامل تھے جنھوں نے ہنزہ گوجال میں پیپلزپارٹی کوقآئم کیا تھا اور آخری سانس تک اس سے وابستہ رہے۔ ان کی سیاسی کمیٹمینٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سال الیکشن میں 98 سال اور بیماری کے باوجود اپنی پارٹی کے امیدوار کے لیے نہ صرف مہم چلائی بلکہ الیکشن آفس کے لیے اپنی ذاتی جگہ بھی فراہم کیا۔
محمد زیور ایک مزاحمتی سیاسی کارکن کے ساتھ ساتھ ایک سماجی شخصیت بھی تھے . انھیں تعلیم سے اس قدر لگاؤ تھا کہ انھوں نے اپنی ذاتی زمین بغیر کسی معاوضہ کےتعلیم کے فروغ کے لئے فراہم کیا. جہاں میڈل اسکول کی عمارت تعمیر کی گئی۔ آج گاوں کے بچے ان کی وقف کردہ زمین پر بنے عمارت میں زیور تعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں۔
اس طرح انہوں نے کمونیٹی سینٹر (عبادت خانہ ) کی تعمیر کے لیئے بھی بلا معاوضہ ایک بڑا قطعہ اراضی فراہم کیا۔
گاؤں میں جب بھی کسی اجتماعی فلاحی مقصد کے لیے کسی چیز کی ضرورت پڑ جاتی محمد زیور پہل کرتا۔
محمد زیور اپنے عقل و دانش اور بے لوث سماجی خدمات کی وجہ سے علاقے کے مختلف مذہبی و سماجی اداروں میں خدمات سر انجام دیتے رہے۔ ان کے کئے ہوئے کام اور فیصلوں کو آج بھی علاقے میں یاد کیا جاتا ہے وہ ایک خوش اخلاق اور ملنسار شخصیت کے ملک تھے۔
آج ہم ایک ایک نڈر سیاسی کارکن، کمیونیٹی والنٹیر اور ایک دانشور سے محروم ہوگئے۔