بام جہان رپورٹ
اسلام آباد: پاکستان کے نامور صحافی، مارکسسٹ دانشور، اور انسانی حقوق کے علمبردار ابن عبد الرحمان المعروف آئی اے رحمان پیر کی صبح لاہور میں 90 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ ابھی عاصمہ جہانگیر کے رخصت ہونے سے جو خلاء پیدا ہوا تھا پر نہیں ہوئی تھی کہ آئی اے رحمٰن صاحب بھی چل بسے۔
انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز علی گڑھ یونیورسٹی میں ترقی پسند طلباء تحریک سے شروع کیا تھا اور برصغیر کی تقسیم کے فورا بعد پاکستان میں کمونسٹ پارٹی کے رکن بن کر اپنی سیاست شروع کیں۔ ان کی جدوجہد، صحافتی خدمات، سیاسی اور انسانی حقوق اور مزدوروں کے حقوق کی تحریک کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی تھی۔
مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر ردعمل
آئی اے رحمان کی وفات کی خبر کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر صحافیوں، سیاستدانوں، ادیبوں، دانشوروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔
عوامی ورکرز پارٹی
عوامی ورکرز پارٹی کی قیادت نے آئی اے رحمن کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیااوران کی جمہوریت، مظلوم اقوام ، مزدور طبقہ، خواتین، کسانوں، اساتذہ، نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے لئے طویل جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا۔
اے ڈبلیو پی کے رہنماوں عابد حسن منٹو ، یوسف مستی خان ، اختر حسین ، عصمت شاہجہاں ، ڈاکٹر فرزانہ باری ، جاوید اختر، حسن عسکری ، بابا جان، اور دیگر نے ایک بیان میں کہا کہ آئی اے رحمن ایک اصول پسند، باکردار، پرعزم اور اعلٰی پائے کے صحافی تھے. وہ ایک کمیٹڈ مارکس وادی اور پاکستان میں انسانی حقوق کی تحریک کے علمبردار تھے۔
وہ سماجی انصاف اور پاکستان کے تمام شہریوں کے مساوی حقوق اور جنوبی ایشیاء میں امن کی جدوجہد میں ایک توانا آواز اور اہم ستون تھے۔
ان رہنماوں نے کہا کہ رحمٰن صاحب نے نہ صرف اپنے قلم سے بلکہ عملی سیاست اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے ذریعے ظالموں، نوکر شاہی، فوجی آمروں، رجعت پسند اور شدت پسند قوتوں کے خلاف زندگی بھر جدوجہد کرتے رہے۔
رحمن صاحب آمروں اور سامراجی قوتوں کے گماشتوں کے خلاف پاکستان میں ترقی پسند قوتوں، جمہوریت، اظہار رائے کی آزادی، مزدوروں، کسانوں، مظلوم قوموں، نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے جدوجہد کے ساتھ کھڑے رہے۔
یوسف مستی خان نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمٰن جیسے نڈر ، مخلص اور پرعزم ساتھیوں کی موت سے مظلوم قوموں ، کمزور اور استحصال کے شکار لوگوں اور ترقی پسند تحریک کوزبردست دھچکا لگا ہے۔
اختر حسین نے کہا وہ برصغیر میں قیام امن کے لئے بھی ہمیشہ پیش پیش رہے اور جنوبی ایشائی خطے کی تمام ممالک میں جنگی جنونیت کے خلاف اور امن کے حق میں بہادری سے آوازبلند کرتے رہے اور مسلسل لکھتے رہے۔
اے ڈبلیو پی پنجاب کے سابق صدر اور استادعاصم سجاد اختر نے کہا: ” نئی نسل کو شائد یہ معلوم نہ ہو کی رحمٰن صاحب کی اپنے طالب علمی کے دور سے ہی بایاں بازو کی سیاست سے وابستگی تھی۔ انہوں نے تقسیم کے فورا بعد پاکستان آئے اور کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور سماجی انصاف اور جمہوریت کے لئے جدوجہد کو جاری رکھا۔
وہ عظیم انقلابی شاعر فیض احمد فیض کے قریبی ساتھی تھے اور ان کے بعد انگریزی اخبار ”پاکستان ٹائمز“ کے ایڈیٹر ہوئے۔ رحمٰن صاحب مرتے دم تک ڈان اخبار کے لئے کالم لکھتے رہے۔ وہ پی ایف یو جے اور ٹریڈ یونین تحریک سے بھی وابستہ رہے۔
ڈاکٹر فرزانہ باری نے کہا کہ آج جب کہ ملک میں انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کی ابتر صورتحال ہے اور مزدور طبقے کی معاشرتی اور معاشی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ آمرانہ طاقتیں ایک بار پھر لوگوں کے حقوق غصب کرنے اور جمہوری اداروں کو کنٹرول کرنے کے درپے ہیں، رحمٰن صاحب کا رخصت ہونا ایک بہت بڑا نقصان ہے۔
عصمت شاہجہاں نے کہا رحمٰن صاحب ایک پیارے ساتھی، مشفق انسان اور رہنما تھے وہ مظلوموں کے لئے امید کی کرن اور انقلابیوں کے لئے سچائی اور جدوجہد کے نشان تھے جو ہمیشہ جنوبی ایشیاء کے خطے اور دنیا کے مظلوم اور محروم لوگوں کے ساتھ کھڑے رہے۔
نیشنل پارٹی
نیشنل پارٹی پنجاب کے صدر ایوب ملک نے کہا کہ ملک نہ صرف ایک سچے انقلابی سے بلکہ ایک ایسے انسانی حقوق کے کارکن سے بھی محروم ہو گیا ہے، جس نے ہمیشہ جمہوریت پسند قوتوں کی حمایت کی اور آمریت کے خلاف سینہ سپر رہا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی اے رحمان ان دانشوروں کی طرح نہیں تھے جو اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کو صرف قلمی دنیا میں استعمال کرتے ہیں بلکہ وہ آمروں کے خلاف بھی لڑا کرتے تھے۔
نیشنل پارٹی پنجاب کے صدر کا کہنا تھا کہ ان کی وفات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ملک میں آمریت پسند عناصر ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں اور جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہیں لیکن آئی اے رحمان کے جانے کے باوجود ان کا پیغام اور نظریہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔
پی ایف یو جے
صدر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس شہزادہ ذوالفقار اور سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے ایک مشترکہ تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ نظریاتی جدوجہد کی عملی تصویر آ ئی اے رحمن آمریت کے خلاف نبرد آزما کارکنوں کے لئے ہمیشہ ایک سایہ دار درخت تھے، جس کی موجودگی انسانی حقوق کے کارکنوں خاص طور پر صحافیوں کا حوصلہ بنتی تھی۔کیونکہ وہ مظلوم کے حق اور ظالم کے خلاف اٹھنے والی ہر آوازکی حفاظت اور فروغ کے لیے ہر وقت اور ہر جگہ دستیاب رہے۔
انہوں نے نہ صرف قلم سے بلکہ جہاں ضرورت پڑی عملی طور پر بھی ان تمام قوتوں کے خلاف جدوجہد کی جو جمہوریت اور انسانیت کو کچلنے کے لیے میدان میں تھیں۔
پی ایف یو جے قائدین نے کہا کہ پہلے عاصمہ جہانگیر اور اب آئی اے رحمن جیسے نظریاتی لوگوں کی وفات ایسے دور میں ہوئی ہے جب آمرانہ سوچ ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں پر قابض اور ملک میں انسانی حقوق کی حالت روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے، ان کی وفات سے پیدا ہونے والے خلاء کو پُر کرنا آسان نہیں ہوگا، لیکن ہم ان کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
انہوں نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھے گی اور ہم بطور کارکن ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ہر ممکن سعی کرتے رہیں گے۔
پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن نے کہا کہ ان کی پوری زندگی ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ، جمہوریت کی آبیاری اور آمرانہ نظام کے خلاف تھی۔
بی بی سی کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر انسانی حقوق کے کارکن علی دایان حسن نے آئی اے رحمان کی وفات کی خبر دیتے ہوئے کہا کہ وہ ’دور اندیش رہنما‘ تھے اور وہ ان کے لیے ایک رہنما تھے۔
آئی اے رحمان کی وفات پر ایچ آر سی پی نے اپنی تعزیتی ٹویٹ میں لکھا کہ ان کی ایمانداری، ان کا ضمیر اور ان کے جذبہ ہمدردی کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔
نیو یارک ٹائمز سے منسلک اور پاکستان میں طویل عرصے تک صحافت کرنے والے ڈیکلن والش نے بھی اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’آئی اے رحمان کی پاکستان کی ناکامیوں سے ہونے والی مایوسیاں اپنی جگہ لیکن انھیں اپنے ملک سے بے انتہا محبت تھی۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔‘
صحافی زیب النسا برکی نے کہا کہ آئی اے رحمان پاکستان میں ترقی پسند عناصر کے لیے مشعل راہ تھے۔
آئی اے رحمان کے ساتھ طویل عرصے تک کام کرنے والی وکیل عاصمہ جہانگیر، جن کی تین برس قبل وفات ہو گئی تھی، کی بیٹی منیزے جہانگیر نے بھی لکھا کہ وہ اس خبر پر بے حد دلبرداشتہ ہیں اور ان کی وفات پاکستانی صحافت اور انسانی حقوق پر کام کرنے والوں کے لیے بہت افسوسناک ہے۔ ‘آج ہم سب ان کی موت سے یتیم ہو گئے ہیں۔’
وکیل سلمان اکرم راجہ نے لکھا کہ ‘آئی اے رحمان شاعر فیض احمد فیض کے ساتھی تھے اور عاصمہ جہانگیر کے رہنما تھے۔ اور ہم سب کے وہ ضمیر تھے۔’
پاکستان پیپلز پارٹی سے منسلک رہنما نفیسہ شاہ نے بھی ان کی وفات پر ٹویٹ میں اپنے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ انھوں نے پاکستانی صحافت اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی ایک نسل کی تربیت و رہنمائی کی ہے اور ان کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ڈان اخبار سے منسلک صحافی حسن زیدی نے سلسلہ وار ٹویٹس میں آئی اے رحمان کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ اس بات کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کتنی عظیم شخصیت تھے اور پاکستانی صحافت اور انسانی حقوق پر کام کرنے والوں کے لیے وہ کیا معنی رکھتے تھے۔
وہ ان لوگوں میں سے ایک تھے جنھوں نے برصغیر کی تقسیم کے زخم کھائے اور ان کے رشتے دار بھی فسادات میں مارے گئے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے سابق سیکریٹری جنرل اور اعزازی ترجمان کے عہدے کے علاوہ آئی اے رحمان پاکستان ٹائمز کے مدیر بھی رہے اور بنگلہ دیش کی آزادی کے وقت وہ اُردو روزنامے ’آزاد‘ سے منسلک تھے جس کی انھوں نے بنیاد ڈالی تھی۔
اس کے بعد وہ سابق فوجی آمر ضیا الحق کے دور میں ہفتہ وار جریدے ’ویو پوائنٹ‘ کے بھی سربراہ رہے اور اس دوران وہ پاکستان کے دیگر اخبارات کے لیے بھی کالم نویسی کرتے رہے۔
آئی اے رحمان فلموں کے بھی دلدادہ تھے اور پاکستانی جریدے ’ہیرالڈ‘ کے لیے انھوں نے سیاسی مضامین کے علاوہ فلموں پر بھی تبصرے تحریر کیے تھے۔
اعزازات
پاکستان اور جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے آئی اے رحمان کو ان کی خدمات کے نتیجے میں متعدد بین الاقومی اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں سنہ 2003 میں نیورمبرگ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ایوارڈ، سنہ 2004 میں رامون ماگسئسے اور کئی دیگر ایوارڈز شامل ہیں۔
حالات زندگی
’مجھے تو ہندو اور مسلمان کے درمیان فرق کا بھی نہیں پتا تھا‘
آئی اے رحمان کی پیدائش تقسیم سے قبل 1930 میں پنجاب کے ضلعہ گڑ گاؤں کے حسن پور میں ہوئی۔
تین برس قبل لندن سکول آف اکنامکس کی ویب سائٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں آئی اے رحمٰن نے اپنے انسانی حقوق کے سفر کا آغاز کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی پرورش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی تھی جہاں محنت کشوں کے حقوق پر یقین رکھا جاتا تھا اور جب 1949 میں جب انھوں نے اخبارات کے لیے لکھنا شروع کیا تو اس کے بعد انھوں نے سول لبرٹیز یونین میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
اسی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ان کے والد ایک مذہبی انسان تھے لیکن ساتھ سیکولر بھی تھے۔ ’میری زندگی میں مذہبی تعصب کبھی بھی نہیں تھا۔ مجھے تو ہندو اور مسلمان کا فرق بھی نہیں پتا تھا تاوقتیکہ میں ہائی سکول نہیں گیا۔‘
نہیں گیا۔‘
ان کے بھانجے ڈاکٹر توصیف احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت وہ علی گڑھ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے اور ہونے والے فسادات میں ان کے کئی رشتے دار بھی مارے گئے لیکن کیونکہ وہ خود علی گڑھ میں تھے اس لیے بچ گئے۔
آئی اے رحمان کے والد وکیل تھے۔ تقسیم کے بعد وہ انڈیا سے نقل مکانی کرکے ملتان میں شجاع آباد آ گئے اور وہاں سے لاہور منتقل ہوگئے۔
ڈاکٹر توصیف احمد کے مطابق آئی اے رحمان نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی فزکس کیا اور اس کے بعد سی ایس ایس کا امتحان دیا جس میں وہ پاس بھی ہوگئے لیکن کوٹہ میں نشست نہ ہونے کی وجہ سے تقررری نہیں ہوئی۔
ڈاکٹر توصیف بتاتے ہیں کہ بعد میں آئی اے رحمان اس بات پر خوشی کا بھی اظہار کرتے تھے کہ اچھا ہوا کہ وہ سرکاری افسر نہ بنے۔
ڈاکٹر توصیف نے بتایا کہ آئی اے رحمان علی گڑھ میں زمانے طالب علمی سے ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوچکے تھے اور وہ زندگی کے آخری ایام تک مارکسٹ رہے۔
سی ایس ایس کے بعد انھوں نے نامور ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کی زیر ادارت پاکستان ٹائمز میں عملی صحافت کا آغاز کیا جہاں انھیں فلمی صفحے کا انچارج بنایا گیا۔ بعد میں وہ اسی اخبار میں اسٹنٹ ایڈیٹر اور چیف ایڈیٹر بھی رہے۔
ملازمت سے برطرفیاں اور گرفتاری
آئی رحمان نے صحافتی دور میں کئی اتار چڑھاؤ کا سامنے کیا۔ وہ پنجاب یونین آف جرنلسٹس میں بھی سرگرم رہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد، جو پاکستان میں صحافتی تحریک پر پی ایچ ڈی اسکالر بھی ہیں، نے بتایا کہ 1967 میں انھوں نے پی ایف یو جے کا الیکشن بھی لڑا لیکن ہار گئے۔
سنہ 1970 میں میں جب صحافت سے تعلق نہ رکھنے والوں کو ویج ایوارڈ میں شامل کرنے کے لیے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ یعنی پی ایف یو جے نے 12 روز ہڑتال کی تو وہ اس میں متحرک رہے جس کی وجہ سے انھیں پاکستان ٹائمز سے فارغ کردیا گیا۔
بعد میں انھوں نے عبداللہ ملک کے ساتھ ‘آزاد’ اخبار نکالا۔ آئی اے رحمان 1967 میں قیام پانے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے حمایتی تھے لیکن اس وقت کے مشرقی پاکستان (بعد میں بنگلہ دیش) میں آپریشن کے بعد انھوں نے عوامی لیگ کی حمایت کی جس کی وجہ سے آزاد اخبار بند کردیا گیا۔
اس کے بعد پی پی پی کے ذوالفقار علی بھٹو نے حکومت میں آنے کے بعد انھیں روزنامہ پاکستان ٹائمز میں بحال کردیا۔
آئی اے رحمان پاکستان میں فلموں کے نگراں ادارے نیف ڈیک کے انگریزی رسالے کے بھی ایڈیٹر رہے تاہم بعد میں جب جنرل ضیاالحق نے اقتدار سنبھالا تو اس رسالے کو بند کر دیا گیا۔
اس کے بعد انھوں نے صحافی مظہر علی خان کے ساتھ ویو پوائنٹ کے نام سے انگریزی جریدے کا اجرا کیا۔ اس دوران 1981 میں انھیں گرفتار کیا گیا اور وہ چھ ماہ جیل میں رہے۔
سنہ 1988 میں ذوالفقار بھٹو کی صاحبزادی بینظیر بھٹو کی حکومت کے آنے کے بعد انھیں پاکستان ٹائمز میں بحال کیا گیا تاہم اس حکومت کی برطرفی کے ساتھ انھیں ایک بار پھر فارغ کردیا گیا۔
سینیئر صحافی ضیاالدین احمد کا کہنا ہے کہ آئی اے رحمان ایک انڈر صحافی رہے اور لگی لپٹی رکھے بغیر کوئی بات ہوتی تھی وہ کردیتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ‘پاکستان کی صحافت میں جو مزاحمت ہے وہ اس کی عکاسی کرتے رہے ہیں۔’
انسانی حقوق کمیشن کے بنیادی رکن
آئی اے رحمان کا شمار پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے بنیادی اراکین میں ہوتا ہے۔ وہ اس کے ڈائریکٹر اور پھر سیکریٹری جنرل رہے اور اس وقت انھیں ایچ آر سی پی کے اعزازی ترجمان کا اعزاز حاصل تھا۔
اس کے علاوہ وہ روزنامہ ڈان میں باقاعدگی سے ہفتہ وار کالم لکھتے تھے اور آٹھ اپریل کو انھوں نے اپنا آخری کالم تحریر کیا تھا۔
آئی اے رحمان کی وفات پر انسانی حقوق کمیشن کی چیئرپرسن حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ عملی صحافت سے ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے انسانی حقوق کی باگ دوڑ سنبھالی اور نہ صرف تنظیم کی ساکھ کو بہتر بنایا بلکہ انسانی حقوق کی اقدار کو فروغ دیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حنا جیلانی نے مزید کہا کہ وہ کئی انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے سرپرست کا درجہ رکھتے تھے اور یہ اس ادارے کے لیے قابل فخر بات ہے کہ وہ اس سے منسلک رہے۔
‘آئی اے رحمان اور ہماری جدوجہد اور ترقی پسند سوچ مشترکہ تھی۔ وہ ان لوگوں میں شامل رہے جنہوں نے ترقی پسند سوچ کے فروغ کی کوششیں کیں اور اس کے نتائج بھی بھگتے۔ میرا اور عاصمہ (جہانگیر) کا آئی اے رحمان کے ساتھ 40 سال کا ساتھ رہا۔ ہم نے بہت کام اکٹھے کیا۔ میری نظر میں انسانی حقوق اور صحافت میں اس وقت ایسی کوئی شخصیت نہیں جو یہ خلا پر کرسکے۔’
پاکستان اور انڈیا میں دوستی اور امن کا خواب
آئی اے رحمان پاکستان کے علاوہ انڈیا اور پاکستان اور سارک ممالک میں امن، دوستی اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن تھے۔
سنہ 1994 میں انڈیا اور پاکستان میں جب صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور دانشوروں پر مشتمل پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی کی بنیاد رکھی گئی تو آئی رحمان اس کے بنیادی رکن تھے۔
‘وہ پرامید تھے کہ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں پاکستان اور انڈیا میں دوستی ہونی ہے اور مستقل ہونی ہے۔ ان جیسے کارکن کا بچھڑ جانا اس خطے کا نقصان ہے۔’
–بی بی سی کی اضافی رپورٹ کے ساتھ.
One thought on “انسانی حقوق، جمہوریت اور امن کے علمبردار آئی اے رحمن کا انتقال”
آپ نے اب تک کا سب سے بہترین ٹربیوٹ ھم سب کے ضمیر کی آواز اور ھر وقت سرگرم استاد آئی اے رحمان جی کو پیش کیا ھے۔ ھم ادارہ بامِ جہاں کے تہہ دل سے مشکور ھیں۔