تحریر: عنایت ابدالی
میرا اپنے دوست اور پاکستان تحریک انصاف غذر کے سرگرم رکن، راجہ میر نواز میر کو مشورہ ہے کہ وہ اصلی باپ یعنی بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کریں۔اس کے بہت سے فائدے ہونگے۔ ایک یہ کہ وہ شمولیت کے ساتھ ہی باپ گلگت بلتستان کے صدر بن جائیں گے۔ اور دوسرا ، چونکہ باپ، مرکز میں حکومت کی اتحادی جبکہ بلوچستان میں حکمران ہے۔ لہٰذا آپ مقتدر حلقوں کے چہیتے بن جائیں گے اور بہت جلد کسی اہم عہدے پر فائز ہونگے۔
آپ کا پیغام بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تک پہنچانے کےلیے ہم چھوٹی چڑیا کے صحافی Bayazid khan kharoti سے اپیل کریں گے کہ وہ فوری طور پر آپ کے انٹرویو کا اہتمام کریں۔اب برداشت نہیں ہوتا کہ آپ کو سخت محنت و مشقت ،یعنی پارٹی کے دفاع میں پریس کانفرنسیں، ریلیاں، دھرنے ، اور ہندوستان مردہ ریلیوں میں پر جوش تقاریر کے باوجود ایک مشیری تک نہ ملے۔
پہلے آپ کو ٹکٹ سے محروم رکھا گیا، مخصوص نشستوں پر بھی حیلے بہانوں سے نظر انداز کیا گیا، یہاں تک کہ کنٹیجنٹ ترجمان اور ڈیلی ویجز کوآرڈینیٹرز میں بھی نام شامل نہ ہو سکا۔ مقتدر حلقوں سے گزارش ہے کہ اب مزید انتظار مت کرائیں۔ گلگت بلتستان کونسل کے الیکشن میں راجہ میر نواز میر کو اُن کا جائز حصہ دیا جائے ورنہ ہمارے دوست پریس کانفرنس پہ گزارا نہیں کریں گے ، بلکہ مزاحمت کریں گے، چاہے وہ چند دن یا گھنٹوں کےلیے ہی کیوں نہ ہو۔
راجہ میر نواز میر "بوری بند جماعت ” میں بھی شامل ہوسکتے تھے مگر انھوں نے خیال کیا کہ یہ لوگ ریاست کی نظر میں وفادار نہیں۔وہ کسی کالعدم جماعت کے آلہ کار بھی بن سکتے تھے، ( نہ ہوتے ہوئے بھی سزا تو بھگتنی ہی پڑتی ہے )۔
اب وقت آگیا ہے کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید غذر کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لیے راجہ میر نواز میر کو مشیری یا کسی اور عہدے پر فائز کریں۔
ہم ریاستی اداروں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے آج تک آپ کا ساتھ دیا، کم از کم ان کے خلاف سرد مہری کارویہ نہ اپنائیں۔ ایسےرویے مختلف سوالات کو جنم دیتے ہیں مثلاً:
سب کو نوازنا ہے تو ان کا کیا قصور ہے؟
کیا غذر والے اقلیت میں شمار ہوتے ہیں؟
کیا غذر کو دیوار سے لگانے کی کوئی پالیسی بنی ہوئی ہے؟
کیا یہاں کے جوان سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ کسی شعبے کے اہل نہیں؟
ہم ریاست کے پالیسی سازوں سے ان سوالوں کے جواب چاہتے ہیں۔ ہمیں مطمئن کریں ، نہ کہ غدار یا ایجنٹ کے فتوے لگائیں۔ بس اتنی گزارش ہے کہ اپنے شہریوں اور زیر انتظام علاقوں میں بسنے والے انسانوں سے برابری کا سلوک کریں۔ آخر میں دعا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دن دگنی رات چوگنی ترقی نصیب ہو!