535

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

    کالم قطرہ قطرہ

تحریر۔ اسرارالدین اسرار

گذشتہ ایک ہفتے کے اندر گوجال جیسی چھوٹی آبادی میں دو جوان لڑکیوں کے پر اسرار موت کے واقعات لمحہ فکریہ ہیں۔ کل 10 جون کو چترال میں ایک 17 سالہ نوجوان کی مبینہ خودکشی کی خبر آئی. اس کے علاوہ گذشتہ ایک مہنے میں گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں سے بھی مبینہ خودکشیوں کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی مئی اور جون کے مہنے میں کئی مبینہ خودکشیوں کے واقعات رپورٹ ہوئی ہیں۔ جن میں زیادہ تر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں۔

دنیا میں ہر سال خودکشی کے دس لاکھ سے ذائد واقعات رونما ہوتے ہیں۔ پاکستان میں یہ تعداد دس ہزار سالانہ ہے۔ گلگت بلتستان کی آبادی پندرہ لاکھ ہے۔ یہاں سالانہ بیس کے قریب خودکشیوں کے واقعات ہوتے ہیں۔ آبادی کے تناسب سے گلگت بلتستان میں خودکشیوں کی یہ شرح دنیا کے دیگر معاشروں سے مختلف نہیں ہے. لیکن آپس میں سماجی رشتوں میں جڑے ہوئے لوگوں کے لئے ایسے سانحات ہمیشہ پریشان کن ضرور ہوتی ہیں۔ یہاں خودکشی کے ہر واقع کے بعد لوگ پریشانی کا اظہار کرتے ہیں اور اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ خودکشیوں کے اس سلسلے کو روکا جانا چاہئے۔

خودکشیوں کے ان واقعات سے متعلق فکرمند ہونا، وجوہات معلوم کرنا اور ان کے تدارک کے لئے کام کرنا ضروری ہے. مگر یہ سارا کام شعوری انداز میں اور اس کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مربوط طریقے سے ہی ہوسکتا ہے۔ سب سے پہلے جو سوال ذیہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا خودکشی قرار دیا جانے والا واقع واقعی خودکشی ہے یا قتل؟ اس کے بعد کئی دیگر سوالات بھی ذہن میں آتے ہیں ۔ اگر یہ خودکشی ہے تو اس کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں؟ کیا اس واقع میں اہل خانہ یا کسی اور کا کردار تو نہیں ہے؟ کیا یہ نفسیاتی بیماری کا نتیجہ ہے؟ اگر نفسیاتی یا ذہنی بیماری کا نتیجہ ہے تو وہ بیماری کب سے تھی اور کیا اس کے علاج کی کوئی کوشش کی گئی تھی؟

اگر خودکشی کا کوئی واقع درپردہ قتل ہے تو تفتیش کے ذریعہ ملزمان تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اگر وہ واقعی خودکشی ہے تو ان وجوہات کو معلوم کرنا بھی کوئی ناممکن کام نہیں ہے۔ اس کے لئے صرف یہ ضروری ہے کہ ہر واقع پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ایسے واقعات کو مکمل روکا تو نہیں جاسکتا مگر ان کی شرح کم کی جاسکتی ہے۔ جس فرد میں خودکشی کے خیالات پائے جاتے ہیں وہ اگر خودکشی کے واقع سے پہلے ذہنی امراض پر کام کرنے والے ماہرین تک پہنچ جائے یا پہنچایا جائے تو اس کا علاج ممکن ہے مگر جس کی علامات ظاہر نہ ہوں اور وہ اندر سے خودکشی کرنے کا فیصلہ کر لے تو اس کو روکنا ممکن اس لئے نہیں ہے کیونکہ کسی کے دل کا حال دوسرے کو نہیں معلوم ہوتا اور نہ ہی لوگ یا اہل خانہ ہر وقت ایک دوسرے کی رکھوالی کر سکتے ہیں۔

اس پرمستزاد یہ کہ خودکشی کرنے والا خفیہ طور پر اس کی مکمل تیاری کرتا ہے تاکہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ ایسے میں اس کو روکنا ممکن نہیں تاہم اہل خانہ، رشتہ داروں اور دوست احباب میں سے کوئی ایک سمجھدار فرد ہو تو وہ حرکات و سکنات سے یہ معلوم کرسکتا ہے کہ کوئی فرد خودکشی کے خیالات رکھتا ہے اور وہ کھبی خودکشی کر سکتا ہے۔ پھر ایسے فرد کی تکلیفات اور مشکلات پر قابو پاکر یا کونسلنگ کے ذریعہ اس کو اس صورتحال سے نکلاجاسکتاہے۔

خودکشی کو روکنا اتنا آسان ہوتا تو دنیا کے امیر ممالک یہ کام کر چکے ہوتے۔ یہ ایک پیچیدہ سماجی و نفسیاتی مسئلہ ہے یہ کسی ویکسین یا دوائی سے رکنے والا نہیں ہے۔ یہ مسئلہ انسانی ماحول کو سازگار بنانے، اور سوچ کو تبدیل کرنے سے تعلق رکھتا ہے اور انسانی سوچ کو سمجھنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ اگر خودکشی ایک فرد کا ذاتی فیصلہ ہے تو اس میں کسی اور کو سزا نہیں دی جاسکتی. تاہم اگر اس میں بیرونی محرکات مثلا ناسازگار ماحول جس میں ناامیدی، تعلیم اور کاروبار میں ناکامی، لوگوں کی طرف سے لعن طعن، گھریلو تشدد، مسلسل تزلیل، تفریح کے مواقع کی فقدان، گھٹن کا ماحول، ذہنی اذیت دینا اور غیرت کے نام پر قتل، وغیرہ شامل ہے تو تفتیش کے ذریعہ ملزمان کی نشاندہی کر کے ان کو سزا دی جاسکتی ہے۔

خودکشی کے ہر واقع کی الگ الگ وجوہات ہوتی ہیں۔ ایسے ہر واقع کی اگر پولیس اور ذمہ دار اداروں کے ماہرین پر مشتمل ٹیم غیر جانبدارانہ اور شفاف انکوائری کرے تو اصل وجوہات معلوم ہوسکتی ہیں۔ ایسے واقعات میں سب سے پہلے ورثا پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار کرتے ہیں پھر اگر پوسٹ مارٹم ہوبھی جائے تو اگلے مرحلے میں اس کی رپورٹ اور پولیس انکوائری پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس لئے گلگت-بلتستان کی پچھلی حکومت نے ماہرین کی تجویز پر خودکشی کے ہر واقع کی شفاف تحقیقات لازمی قرار دیا تھا۔ جس پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ واقع کی اصل وجوہات معلوم ہوسکیں۔

غیر جانبدار انکوائری اور پوسٹ مارٹم کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم یہ ٹیم پولیس ڈیپاٹمنٹ سے اچھی شہرت اور تفتیش کے شعبہ میں مہارت رکھنے والا آفیسر، ایک ماہر ڈاکٹر، ایک ماہر نفسیات، ایک قانون دان اور ایک سماجی سائنسدان پر مشتمل ہو۔ اگر خودکشی خاتون نے کی ہے تو ٹیم میں اکثریت خواتین ماہرین ہونی چاہئے تاکہ وہ ٹیم خودکشی کے واقع کے تمام پہلوں کا تفصیلی جائزہ لے کر اپنی رپورٹ تیار کر سکے. جس کی روشنی میں قانونی کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔ پوسٹ مارٹم کے دوران بھی غیر جانبدار اور ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل ٹیم ہونی چاہئے جو کسی دباؤ میں آئے بغیر اصل حقائق سامنے لائیں اور ان ڈاکٹروں کے تحفظ کو بھی یقینی بنانا چاہئے۔

گلگت بلتستان میں فرانزک لیب کا قیام بھی بہت ضروری ہے تاکہ موت کی وجوہات بروقت معلوم ہوسکیں۔ ان تمام مراحل سے گزر کر جو میڈیکو لیگل سرٹیفیکٹ جاری کیا جائے اسی کی بنیاد پر عدالت میں ملزمان کو سزاء دلائی جاسکے گی وگرنہ ہر قتل کو خودکشی کا نام دےکر اس پر پردہ ڈالنے کا عمل جاری رہے گا۔

یادرہے کہ گلگت بلتستان میں خودکشی قرار دیا جانے والا ہر واقع خودکشی نہیں ہوتا ہے ان میں دس فیصد سے زائد واقعات غیرت کے نام پر قتل، گھریلو تشدد یا کسی اور وجہ سے قتل کے ہوتے ہیں۔ تاہم بعض خودکشیوں کے واقعات میں بیرونی وجوہات کم بلکہ اندرونی وجوہات یعنی ذہنی یا نفسیاتی امراض کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے اس کا بھی بالواسطہ تعلق بیرونی محرکات سے ہوتے ہیں۔ اس لئے خودکشی کے واقعات میں متاثرہ فرد کے اہل خانہ کو بھی انکوائری اور تفتیش کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے کیونکہ اگر وہ خودکشی واقعی کسی ذہنی بیماری کی وجہ سے ہے تو وہ معلوم ہوسکے اور تمام شکوک و شبہات بھی دور ہوسکیں۔

میڈیا سے وابستہ حضرات بھی ایسے واقعات کو تحقیقات سے قبل خودکشی لکھنے کی بجائے پر اسرار موت لکھ دیں اور انکوائری کا مطالبہ کریں تو تحقیقات میں مدد مل سکتی ہے۔

گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس اہم مسئلہ پر غور و خوص اور اس کے انسداد کے لئے پالیسی مرتب کرے۔

نیز ہم بارہا یہ عرض کر چکے ہیں کہ گلگت بلتستان میں نوجوانوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر ایک تفصیلی اور اعلی معیار کی تحقیق کرانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ان وجوہات کی نشاندھی ہو سکے اور ان کے تدارک کے لئے اقامات اٹھائے جاسکیں. جن کی وجہ سے کئی خوبصورت نوجوان ایک خوشگوار زندگی گزارنے کی بجائے موت کو ترجیح دیتے ہیں اور خودکشی جیسے آخری اور خوفناک قدم اٹھاتے ہیں۔

اسرارالدین اسرار حقوق انسانی کمیش پاکستان کے کوارڈینیٹر برائے گلگت بلتستان ہیں. وہ کالم نگار بھی ہیں. ان کی تحریریں بام جہاں کے صفحات پر باقاعددگی سے شائع ہوتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں” ایک تبصرہ

  1. خود کوشی کی سب سے بڑی وجہ میرے خیال سےمغربی ، اور مقامی امرا کلچر کا اج کی جدید زرائع ابلاغ کی توسط سے براہ راست مشاہدہ ، اس سے مرغوبیت اور اپنے اردگرد کےحقیقی ماحول میں اس کی ناپیدگی اور اس تفاوت سے پیدا ہونے والی نفسیاتی و زہنی کیفیات اور احساس محرومی ہے۔ مغربی ، اور مقامی امرا کلچر میں صرف مادی اسباب سے مرغوبیت میرا مقصود نہیں بلکہ وہاں پائی جانے والی انتہا کو چھوتی ہوئی فکری اذادی اور دین بیزاری سے بھی مرغوبیت اس میں شامل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں