ڈاکٹر عبد الحلیم
گلگت بلتستان کی خوبصورت وادی استور میں راما جیسی حسن کی وادی اپنے حسین جلوں کے نظارے کےلئے پوری دنیا کے سیاحوں کو دعوت نظارہ اس بنیاد پر دیتی ہے کہ اس کے دامن میں نیلگوں پانی کی جھیل سر سبز میدان, دنیا کی نایاب جڑی بوٹیاں اور نایاب اور اعلی نسل کے جنگلی جانور, خوبصورت رنگ برنگ پھول رنگ و بو بکھیر رہے ہیں۔ سیاح اگر راما آتے ہیں تو پولو کھیل کے لئے نہیں بلکہ اس وادی گلرنگ کے نظارے دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔
میری جدو جہد 1992سے جنگلی حیات اور ا ن کےماحول کو تحفظ دینا ہے کہ جنگلی حیات اور خوبصورت نظاروں کو دیکھنے دنیا بھر سے سیاح ہمارے علاقے میں آتے ہیں ان کی تعداد میں اضافہ تو ہو لیکن جنگلی حیات کا تحفظ بھی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر دیوسائی نیشنل پارک بنا ہے اور وہاں جنگلی حیات محفوظ ہے تو اس میں راقم کا بنیادی کردار اور ایک جہد مسلسل ہے۔
میں گزشتہ کئی دھائیوں سے دنیا بھر کے جنگلی حیات کے اعلی اداروں کے لئے کام کرتا ہوں اور اپنے علاقے کی اہمیت کے حوالے سے أگاہی فراہم کرتا ہوں ۔اور الحمد اللہ مجھے فخر ہے کہ مجھ جیسے خاکسار سے قدرت نے بہت سارا کام لیا اور اپنے علاقے کی جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے نہ صرف سبب بنا ہوں بلکہ جنگلی حیات کے تحفظ سے علاقے کو موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریاں روکنے کے کار خیر میں بھی حصہ ڈال رہا ہوں ۔
چونکہ جنگلی حیات کا تحفظ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں سے تحفظ میری ذندگی کا مشن ہے اس لئے مجھے امریکہ میں یہ خبر سننے کو ملی کہ تحریک انصاف کی حکومت نے استور راما کومیری تگ دو کے بعد نیشنل پارک کا درجہ دیا ہے تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اور امید پیدا ہوئی کہ راما میں جنگلی حیات کے تحفظ اور قدرتی ماحول کے تحفظ سے ہماری نسلوں کا مستقبل سنور جائے گا ۔لیکن میری خوشی اس وقت ہوا ہوئی بلکہ میں حیرتوں کے سمندر میں غوطے لگانے لگا کہ یہ کیسا نیشنل پارک ہے جس میں نیشنل پارک کے قوانین کی دھجیاں اڑانے کے لئے عوام نہیں تحریک انصاف کی حکومت سب سے آگے ہے اور نہ صرف نیشنل پارک کے قوانین کو یکسر فراموش کرتے ہوئے راما میں پولو میلہ کرانے کا اعلان کر کے نہ صرف راما کے قدرتی حسن کو تباہ, جنگلی حیات کی ذندگی اجیرن اور راما میں اگنے والے دنیا کی نایاب ترین جڑی بوٹیوں کو اجاڑنے اور دوسری طرف راما میں ہزاروں لوگوں کو جمع کر کے کورونا پھیلانے کا مصمم ارادہ کی ہے۔
ایک طرف تحریک انصاف بلین ٹری منصوبے کا غوغا کر رہی ہے اور قدرتی ماحول کے تحفظ کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے، تو دوسری طرف راما فیسٹول منعقد کروا کر ماحول کو تباہ، جنگل کو اجاڑ، جنگلی جڑی بوٹیوں کا ستیناس، اور کورونا کو ایک دفعہ پھر سے جوان کر کے انسانی زندگی لئے موت کا عفریت بنانا چاہتی ہے۔
حیرت مجھے اس بات پر ہے کہ یہ کس طرح کا عجیب و غرپب نیشنل پارک ہے جہاں تعمیرات کی بھی آزادی ہے، انسانی جم غفیر کو جمع کر کے جنگلی حیات کو موت کے منہ میں پہنچانے کی بھی آزادی ہے، اور جہاں ہوٹلوں اسٹالوں اور ہزاروں گاڑیوں کی آمدو رفت سے نیشنل پارک کی خوبصورت فضا کو آلودہ کر کے موسمیاتی تبدیلیاں برپا کر کے قدرتی آفات کو دعوت دینے کی بھی آزادی ہے ۔۔۔
حکومت نے راما کو نیشنل پارک کا درجہ دیا ہے اگر نہ بھی دیتی تو علاقے کے لوگوں کا فرض تھا کہ اپنی نسلوں کے روشن مستقبل کے لئے راما کے حسن اور جنگلی حیات کو تباہ و برباد کر نے کی اجازت ہر گز نہ دیتے۔ مجھے افسوس تو اس بات کا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت جو بلین ٹری اور ماحول کے تحفظ کی دعویدار ہے وہی حکومت نیشنل پارک کے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا کر ماحول کو تباہ اور جنگلی حیات کی موت کا ساماں کرنے کے در پے ہے۔
نیشنل پارک کے قوانین یہ ہیں کہ پارک کی حدود میں اس ملک کے صدر، وزیر اعظم اور سائنس دانوں تک کو اجازت نہیں کہ وہ ایک پتھر اٹھائیں یا کوئی ایسی معمولی سر گرمی بھی کریں جس سے نیشنل پارک کے ماحول میں رتی بھر تبدیلی رونما ہو چہ جایکہ کسی قسم کی تعمیرات کریں۔
راما کے حوالے سے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جہاں کی جنگلی بوٹیاں دنیا بھر میں نایاب ہیں۔ میری کئی سائنسی اداروں سے بات ہو چکی ہے کہ وہ راما آ کر ان جڑی بوٹیوں پر تحقیق کریں تاکہ اس خطے کے عوام کی معاشی تقدیر بدل جاےٗ۔ لیکن ان سائنس دانوں کو جب یہ خبر ہو کہ راما میں تحریک انصاف حکومت چند معاشی یا سیاسی فوائد کے لئے پولو فیسٹول منعقد کروا کر ایک طرف اس نایاب خزانے کو تباہ کر رہی ہے تو دوسری طرف کورونا کی نئی عالمی منڈی سجا رہی ہے، تو عالمی سائنس دان اور ماحول اور جنگلی حیات کے تحفظ کرنے والے ادارے ہماری بے وقوفی اور نسلوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کے میگا مننصوبے پر اپنے بال نوچیں گے۔ دوسری طرف حکومت پاکستان ماحول کے تحفظ کے لئے فنڈنگ کا جواز بھی کھو دے گی۔
عوام کی آگاہی کے لئے عرض ہے کہ دنیا بھر کے سیاح اگر راما کا رخ کر رہے ہیں تو وہ راما میں پولو دیکھنے کے لئے نہیں بلکہ راما کی خوبصورتی دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ ماضی میں راما پر منعقد ہونے والے کھیلوں میں انٹرنیشنل ٹورسٹ نہ ہونے کے برابر تھے۔ راما فیسٹول کی رونقیں دو تین سال تک تو ضرور چلیں گی لیکن نتیجے میں راما تباہ ہوگا اور کوئی سیاح راما کا رخ نہیں کرے گا۔ اور دوسری طرف قدرتی ماحول کی تباہی سے ہمارا علاقہ موسمیاتی تبدیلی کا سامنا کرتے ہوئے قدرتی آفات کا مرکز بنے گا۔ ہم پہلے سے عالمی ماہرین کی تحقیق کے مطابق خطرناک زلزلوں والے خطے میں بستے ہیں تو ایسے میں اگر ہم قدرتی ماحول کا تحفظ بھی نہ کریں تو تباہی ہمارا مقدر بنے گی۔
ماحول کی تبدیلی کی تباہ کاریوں سے نابلد لوگ سوال کر رہے ہیں کہ شندور بھی تو سیاحتی مقام ہے وہاں میلہ منعقد ہوتا ہے تو راما میں کیوں نہیں تو جوا ب یہ ہے کہ شندور کے قریب نہ تو آبادی ہے نہ راما کی طرح جنگلی حیات کی بہتات اور جڑی بوٹیوں کی کثرت جبکہ راما دنیا کا واحد نیشنل پارک ہے جو انسانی آبادی سے ملحق ہے۔ مقامی لوگوں کی چراہ گاہ ہے اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ کی بہت زیادہ آمدو رفت بھی ہے، اس لئے بہت زیادہ حساس طریقے سے اس ورثے کی حفاظت کی ضرورت ہے۔
جنگلی حیات کی حساسیت سے آگاہی رکھنے والے ماہرین جانتے ہیں کہ ہماری کوتاہپوں اور ماحول دشمن سر گر میوں کی وجہ سے راما کے نایاب درخت پہلے ہی اپنا رنگ تبدیل کر کے تباہی کی طرف گامزن ہیں۔ اگر اس تباہی کا احساس نہ کیا گیا تو اگلے کچھ ہی برسوں میں ہم اس عالمی ورثے سے محروم ہوں گے اور ایک صحرا اپنی تمام تر وحشتوں کے ساتھ ہماری نسلوں کی بربادی کے لئے تیار ہوگا۔
ایک بات کی میں یقین دھانی کرواتا ہوں کہ اللہ نے مجھے اتنے مواقع عطا کئے ہیں کہ میرا رابطہ تمام ماحول اور جنگلی حیات کا تحفظ کرنے والے عالمی اداروں سے ہے اپنی تمام تر توانیاں اس بات پر صرف کروں گا کہ عالمی قوانین کی روشنی میں مقامی عوام کو نیشنل پارک کے تمام معاشی فوائد میں شامل کروں اس کے لئے حکومت کو اس بات پر مجبور کریں گے کہ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر اور ان کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے نیشنل پارک کو انسانی تباہ کاریوں سے بچائیں اس عظیم مشن کے لئے عوام استور کا بھر پور تعاون درکار ہوگا۔
ان تمام حقائق کی روشنی میں عالمی ماحول کا تحفظ اور جنگلی حیات کا تحفظ کرنے والے اداروں وزیر اعظم پاکستان، وزیر اعلی گلگت بلتستان اور عوام سے گزارش کرتا ہوں کہ خدارا رامافیسٹول پر پاپندی لگائیں اور استور کے دیگر پولو گراونڈ میں پولو منعقد کرایا جائے۔ورنہ لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی کے مصداق ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی اس لئے تحریک انصاف کی حکومت ہوش کے ناخن لے اور اس طرح کے ماحول دشمن میلوں پر ہمیشہ کے لئے مکمل پاپندی کے لئے قانون سازی کرے۔ عوام کا بھی فرض ہے کہ حکومت کے اسطرح کے ماحول دشمن اقدامات کے آگے دیوار بنیں۔
حرف آخر کے طور پر میں وزیر اعظم پاکستان اور مقامی حکومت کا راما کو نیشنل پارک کا درجہ دینے پر شکریہ اداکرتے ہوئے وعدہ یاد دلانا چاہوں گا کہ بلین ٹری اور ماحول دوست پالیسیاں بنانے کے منصوبے کے وعدے کو پورا کرتے ہوئے راما جیسے عالمی ورثے کو بچایا جائے اور راما میلہ پر مکمل پاپندی لگائی جائے۔
تا دم تحریر یہ خبر مجھے ملی کہ حکو مت نے راما فیسٹول کو ملتوی کیا ہے۔ زیادہ امکان ہے کہ اسے دوبارہ منعقد کرایا جائے گا اس لئے حکو مت سے گزارش ہے کہ اس ماحول دشمن فیسٹول پر مکمل پابندی لگایا جائے۔شکریہ
ڈاکٹر عبدالحلیم ایک ماہر ماحولیات اور حیاتیات ہیں ان کا تعلق استور سے ہے اور گزشتہ کافی عرصے سے امریکہ میں قیام پزیر ہیں۔وہ استور میں جنگلی حیات اور ماحولیات کے تحفظ کے اولین کارکنوں میں سے ہیں۔