تحریروتحقیق: گل مراد خان حسرت
وسط ایشیاء کا خطہ ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور کرغزستان پر مشتمل ہے جبکہ اس کی عمومی تعریف میں مذکورہ چار ممالک کے علاوہ قزاقستان، مغربی چین(سنکیانگ)، افغانستان اور منگولیا کا مغربی حصہ بھی شامل ہے۔ اس علاقے کو ماضی میں ترکستان بھی کہا جاتا تھا۔ اس کے مشرق میں واقع سنکیانگ وغیرہ کو مشرقی ترکستان اور مغربی علاقوں کو مغربی ترکستان بھی کہتے تھے۔
چترال جو زمانہ قدیم میں بلور کے نام سے موسوم تھا، وسط ایشیا کے جنوب اور جنوب مغرب میں واقع ہے جسے کوہ ہندوکش وسط ایشیا سے جدا کرتا ہے۔ لیکن اس پہاڑی سلسلے میں کچھ ایسے درے ہیں جو چترال کو وسط ایشیا سے ملاتے ہیں۔ لیکن ان دروں میں زیادہ تر آمدورفت درہِ بروغیل (بروغول) اور درہِ دوراہ سے ہوتی رہی ہے۔ قدیم زمانے سے یہ درے وسط ایشیا ءسے آنے والے مسافروں، تاجروں، حاجیوں اور حملہ آوروں کی گزرگاہیں رہ چکی ہیں۔ درہِ بروغیل (بلندی: 3798 میٹر) چترال کے علاقے بروغیل سے افغانستان کے علاقے واخان میں داخل ہونے کا راستہ ہے جس کو وسط ایشیا ءمیں داخل ہونے کا دروازہ بھی کہا جاسکتا ہے اور اس دروازے سے داخل ہوکر چند ایک راستے پامیر سے گزر کر یارقند اور کاشغر کی سمت نکل جاتے ہیں ۔ دوسرا راستہ واخان سے تاجکستان اور آگے اُزبکستان کی طرف جاتا ہے۔ اسی طرح درہِ دوراہ (بلندی: 4300 میٹر) لوٹکوہ چترال کو بدخشان سے ملاتا ہے اور آگے بہت کم یعنی 178 کلومیٹر کے فاصلے پر جاکر دریائے آمو اور اشکاشم تک پہنچتا ہے۔
جغرافیائی ساخت کے لحاظ سے چترال اور وسط ایشیا ءکے درمیان کئی خصوصیات مشترک ہیں۔ وسط ایشیا ءکے مشرق میں تیان شان ،کون لون اور پامیر اور جنوب میں ہندوکش کے پہاڑوں کا ایک بہت بڑا سلسلہ ہے۔ ان سلسلہِ کوہ کے لوگ پہاڑوں کے دامن میں بکھری وادیوں میں رہتے ہیں جو ندی نالوں اور دریاؤں سے سیراب ہوتی ہیں۔ دونوں علاقوں کے طبعی اور موسمی حالات ان کے رہن سہن میں یکسانیت کا سبب بنتے ہیں۔ ان بستیوں کی جغرافیائی ساخت، فنِ تعمیر، روایتی لباس، زراعت اور خوراک ، موسیقی، کھیل، دستکاری اور آرٹ میں گہری مماثلت ہے۔
جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو اسلام سے پہلے دونوں علاقوں میں مظاہر پرستی، آتش پرستی اور بدھ مت کے ادوار گزرے ہیں۔ اب یہاں کے لوگ اسلام کے سُنی، شیعہ اور اسماعیلی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس علاقے میں اسلام کی ترویج بدخشان، بلخ اور بخارا سے آئے ہوئے علماء کے ہاتھوں سرانجام پائی۔ اسماعیلیوں کے داعی اور پیر بدخشان، شغنان، زیباک اور اشکاشم سے آکر اس مذہب کوفروغ دیا۔
ہندوستان کے ساتھ تجارت کے لئے وسط ایشیا ءکے تاجر چترال کا راستہ اختیار کرتے رہےہیں۔ قدیم شاہراہ ریشم کا ایک ذیلی راستہ یہاں سے گزرتا تھا۔ یہ شاخ پامیر سے واخان اور آگے درہِ بروغیل کے راستے چترال آتا تھا۔ حاجی کاشغر سے حج کو جانےکے لئے یہی راستہ اختیار کرتے تھے۔ یہ قافلے کی شکل میں جاتے اور ساتھ ساتھ تجارت بھی کرتے تھے۔ 1948 میں چین میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد آمدورفت کا یہ سلسلہ موقوف ہوا۔ ان حاجیوں کی قبریں جگہ جگہ پائی جاتی ہیں۔ ان کو مقامی لوگ "تُرکو گمبد” یعنی ترکوں کی قبر کہتے ہیں۔ درہِ بروغیل اور دوراہ سے تاجر قافلے قالین، برتن، سلاجیت، چینی ، سلک اور اون سے بنے کپڑے وغیرہ لے کر ہندوستان جاتے اور وہاں سے چائے، مصالحہ اور کپڑے وغیرہ لے کر واپس آجاتے تھے۔
جہاں تک زبان کا تعلق ہے تو فارسی اور ترکی وسط ایشیاء کی بڑی زبانیں ہیں۔ تمدنی روابط کی وجہ سے چترال میں بولی جانے والی زبان "کھوار” پر ان کا گہرا اثر پڑا ہے۔ کھوار کے سینکڑوں الفاظ ترکی سے اخذ کیے گئے ہیں۔ قدیم زمانے میں فارسی چترال کی سرکاری اور ادبی زبان بھی تھی۔ چترال میں اس زبان کے نامور ادبا ءاور شعرا ءموجود رہے ہیں۔ یہاں کی درسی زبان بھی فارسی تھی۔ چترال میں قران پاک، احادیث اور اسلامی علوم کی تعلیم فارسی میں دی جاتی تھی۔ علم کی پیاس بجھانے کے لئے علماء دور دراز کا سفر طےکرکے چترال سے بدخشان ،بخارا اور سمرقند جاتے اور دینی درس گاہوں میں نامور علماء کے آگے زانوئے تلمذ باندتے تھے۔ چترال میں سے وسط ایشیا ءکے لوگوں کی آمدورفت کے نتیجے میں عام لوگ اور اشرافیہ بھی فارسی میں تکلم کرتے تھے۔
نسلی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہ تعلق 1500 قبل مسیح سے چلا آرہا ہے جب آریہ وسط ایشیا ءسے نکل کر مغرب اور جنوب مغرب کی طرف پھیل گئے تھے۔ تقریباً 1000 قبل مسیح میں ان کا ریلا ہندوستان کی طرف بڑھا تو ان کے کچھ جتھے چترال کی وادیوں میں پہنچ کر یہی آباد ہوگئے۔ ان کے آثار چترال میں گریو کلچر کی صورت میں ملتے ہیں اور چند مقامات پر کھدائی کرکے ان پر تحقیق بھی کی گئی ہے۔ آریائی نسل کی باقیات ہمیں چترال کی تین وادیوں میں کیلاش قبیلہ کی صورت میں ملتی ہیں جو آریائی تہذیب پر اب بھی عمل پیرا ہیں۔ ان کے علاوہ چترال میں وہ خاندان بھی ہیں جو نہایت قدیم ہیں اور "بومکی” یعنی اصل باشندے کہلاتے ہیں۔ یہ بھی انہی آریائی سلسلے سے ہیں۔ آریہ کے بعد چترال میں ایسے خاندان آباد ہوتے رہے جن کا تعلق وسط ایشیاء کی مختلف اقوام سے تھا۔ یہ مغل، ترک اور تاجک تھے یا ان کا تعلق گورنو بدخشان کی اقوام سے تھا۔ یہ اکثر رئیس دور میں آئے اور دس بارہ نسلیں گزارنے کے بعد اپنی نسلی ابتدا بھول چکے ہیں اور اپنے آپ کو "کھو” یعنی چترالی کہتے ہیں۔
تاریخی لحاظ سے چترال کی تاریخ وسط ایشیاء سے جڑی ہوئی ہے۔ آریہ نسل کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ انہیں نامور مایر آثار قدیمیہ اور تاریخ دان احمد حسن دانی نے گندھارا گریو کلچر کے نام سے نشاندہی کی ہے اور انہیں انڈو آرین کہا ہے۔ پروفیسر احسان علی اور سٹاکول نے ان کو "درد” (دردستان کے رہنے والے) کے نام سے موسوم کیا۔ جرمن مایر آثار قدیمہ کارل جیٹمار کے مطابق ہندوکش اور دردوں کا علاقہ ہخامنشی ایرانی سلطنت میں شامل اور اقلیم باکتاریہ یعنی صوبہ بلخ کا حصہ تھا۔ چینی سفیر چنگ کیئن کے مطابق 140 قبل مسیح میں یو چی قوم ترکستان سے بلخ اور بخارا کی طرف آئی. ان کے مطابق 134 قبل مسیح اور 140 ق م کے درمیان یو چی سلطنت پانچ حصوں میں تقسیم تھی۔ ان میں سے ایک شوانگ می (چترال) بھی تھی۔ 120 ق م کے لگ بھگ جب یو چی کا عظیم بادشاہ تخت پر بیٹھا تو یہ پانچ منقسم ریاستیں کشان نام اختیار کرکے ایک ملک بن چکے تھے۔ کنشک کا دارالحکومت پرش پورہ یعنی پشاور تھا اور اس کی حکومت کاشغر اورختن تک پھیلی ہوئی تھی۔
چوتھی صدی عیسوی کے بعد "ہن” قوم تاریخ کے صفحے پر نمودار ہوئی۔ وہ منگولیا سے نکل کر ترکستان پر قابض ہوئے اور 425ء میں انہوں نے بلخ کو بھی اپنے زیرنگین لے آئے۔ چینی زائر سنگ ین جو 518ء میں گندھارا آیا تھا، اپنے سفر کے دوران شی می کا تذکرہ کرتا ہے۔ یہ علاقہ مشرق میں ہنزہ سے لے کر مغرب میں چترال تک پھیلا ہوا تھا۔
عرب مورخین نے چین کے لئے خطائی (خطوئی) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ چترال میں خطائی کے دو ادوار گزرے ہیں۔ 641ء میں چین نے مشرقی ترکستان، پامیر اور واخان پر قبضہ کرنے کے بعد چترال پر بھی قابض ہوا اور اپنا گورنر یہاں مقرر کیا۔ کئی دفعہ تبت کے حکمراں نے آگے بڑھ کر مزاحمت کی لیکن چین نے اسے شکست دے کر ان علاقوں پر اپنی عملداری قائم کی۔ چین کے اقتدار کا مکمل خاتمہ اس وقت ہوا جب کرغزیہ کے تالاس کے مقام پر عرب مسلمانوں اور چینی فوجوں میں جنگ چھڑ گئی اور چینیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
خطائی کا دوسرا دور 1125ء سے شروع ہوتا ہے جب خطائی کا ایک منگول شہزادہ چن قبیلے کے ہاتھوں شکست کھا کر منچوریا سے راہ فرار اختیار کیا اور مغرب کی طرف آکر ترکوں اور منگولوں پر مشتمل فوج تیار کرکے ترکستان کو فتح کیا اور گور خان کا لقب اختیار کرکے حکومت شروع کی۔ ترکی کے لوگ اس گور خان کو یور خان (یورخون) کہتے تھے۔ روایت کے مطابق یور خون کی حکومت چترال بالا تک وسیع تھی اور بریپ کو اپنا صدر مقام بنا کر وہاں ایک قلعہ بھی بنایا تھا۔ لوگ اس لشکر کوخطائی کا لشکر کہتے تھے۔ لہٰذا اس قلعے کو خطائی کے قلعہ کا نام دیا گیا ہے اور اس علاقے کا نام یورخون کی مناسبت سے یارخون پڑگیا۔
یور خون اور اس کے جانشین 1219ء تک وسط ایشیاء پر حکومت کرتے رہے۔ 1219ء میں چنگیز خان کے ہاتھوں شکست کے بعد ان کے مقبوضات میں یورخونی حکومت ختم ہوئی اس کے بعد چترال بالا میں سوملک کی حکومت شروع ہوئی۔ ممکن ہے کہ چنگیز خان ہی نے سوملک کو گورنر بناکر چترال بھیجا ہو۔ چنگیز خان کے بعد وسط ایشیاء کے علاقے ان کے بیٹے چغتائی خان کے حصے میں آئے اس کے بعد اس کی اولاد ان علاقوں پر حکومت کرنے لگی۔ چغتائی کی چھٹی پشت سے مشرقی ترکستان کا حکمران تغلق تیمور خان نے اسلام قبول کیا (اس کو ترک امیر تیمور نہ سمجھا جائیں)۔ تغلق تیمور خان کی نسل سے سلطان سعید خان نے 1514ء سے 1533ء تک مشرقی ترکستان پر حکومت کی۔ 1527ء کو اس نے اپنے بیٹے رشید خان کو اپنے جرنیل مرزا حیدر دوغلت (دولت) کے ہمراہ بلور پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کیا (اس زمانے میں چترال اور اردگرد کے علاقوں کو بلور کہا جاتا تھا)۔ مرزا حیدر دوغلت اپنی خود نوشت تاریخ کی کتاب ‘تاریخِ رشیدی’ میں بلور کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ "بلور ایک کافرستان ہے جہاں ایک بھی مسلمان نہیں”۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ 28-1527ء میں چترال اور آس پاس کے علاقے بدستور کافرستان تھے۔ گمان یہ ہے کہ وہ یارقند سے روانہ ہوکر ہنزہ آئے تھے اور وہاں سے گلگت، یاغستان، یاسین، چترال، چقانسرائی اور باشگال یعنی نورستان سے ہوتے ہوئے بدخشان (واخان) کے راستے واپس کاشغر پہنچے تھے۔ اس سفر میں انہیں چار ماہ کا عرصہ لگا۔ انہوں نے بلور میں کافروں سے جنگ لڑی اور ہر جگہ فتح یاب رہے اور کثیر مال غنیمت حاصل کیا۔ 1533ء کو سلطان سعید خان وفات پاگیا تو ان کا بیٹا رشید خان سلطنت کاشغر کا خان بنا۔ ہولز ورتھ کی تحقیق کے مطابق اس کے عہد میں دو بار بلور پر حملے کئے گئے۔ پہلے حملے میں ناکامی ہوئی جبکہ 1540ء کے بعد دوسرے حملے میں بلور فتح ہوا اور سلطنت کاشغر کا حصہ بن گیا۔ بلور میں کاشغر کی طرف سے فوجی اور انتظامی عہدیدار مقرر کیے گئے اور انتظام کے لئے گورنر یا نائب الحکومت مقرر ہوئے۔ اس عہدے کو وسط ایشیا میں رئیس کہا جاتا تھا۔ یہ کوئی خاندانی نام نہیں بلکہ ایک عہدے کا نام تھا اور مختلف وزارتوں کے لئے بھی وسط ایشیائی نام اختیار کئے گئے مثلاً اتالیق، حاکم، دیوان بیگی، اسقال،میرِ شکار، میر اخور وغیرہ۔ رئیسِ اول نے موجودہ مرکزی چترال میں ژانگ بازار کو اپنا مرکز بنایا جہاں اس نے چترال کی پہلی مسجد کی بنیاد رکھی۔ یوں پہلی بار چترال میں اسلام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ بدخشان، بلخ اور بخارا سے علماء کو طلب کیا گیا اور غیر مسلم جو اسلام کے دائرے میں آتے رہے ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام عمل میں لایا گیا۔ جب عوام کی ایک مناسب تعداد مسلمان ہوئی تو تنازعات کا فیصلہ کرنے کے لئے قاضی مقرر کئے گئے۔ زمین، چراگاہ شکارگاہ اور باری کے ہانی کی تقسیم کے قوانین بنے اور کم و بیش انہی قوانین پر چترال میں اب تک عمل ہوتا آرہا ہے۔ انہوں نے مفتوحہ علاقے کی بڑی جائیدادیں سابقہ دہقانوں میں تقسیم کیے تاکہ وہ ان کی پیداوار حکمران کے پاس جمع کرے اور خود بھی مناسب حصہ اپنے استعمال میں لائے۔ ان دہقانوں کو وہ رایت کہتے تھے۔ رایت ترکستان میں فرزند زمین کو کہا جاتا تھا۔ رئیسوں کی حکومت 1700ء تک رہی۔
ہولز ورتھ کی تحقیق کے مطابق کاشغری اقتدار کے دور میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ ہولز ورتھ ازبک مورخ بی اے احمدوف کے حوالے سے لکھتا ہے کہ 1598ء میں رستاق یعنی شمال مغربی بدخشان میں اُزبک فاتحین کے خلاف میروں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے شاہ بابر کی قیادت میں بغاوت یوئی جس میں شاہ بابر کو شکست ہوئی تو وہ راہ فرار اختیار کرکے بروغیل اور دارکوت کا درہ عبور کرکے یاسین پر قابض ہوا اور اپنی حکومت قائم کی۔ اس پر کاشغر کے خان عبداللہ خان چغتائی نے 1640ء میں شاہ بابر کے خلاف ایک کامیاب فوجی مہم کی قیادت کی۔ تاریخِ کاشغر کے مطابق سریقول اور واخان کے عسکری لیڈروں نے اس کے گائیڈ کے طور پر کام کیا۔ وہ بروغیل کا درہ عبور کرکے چترال کا راستہ اختیار کیا۔ یارخون لشٹ میں اس نے جو پڑاؤ ڈالا تھا اسے لوگ عبداللہ خان لشٹ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ وہ غالباً درہ چمرکھن سے گزر کر یاسین پہنچا تو شاہ بابر کو قلعہ بند پایا۔ جلد ہی شاہ بابر نے اطاعت قبول کرکے اپنے بیٹے شاہ رئیس کو خراج ادا کرنے کے لئے بھیجا۔ چغتائی خان نے یاسین کا علاقہ شاہ بابر کو واپس دے دیا۔ اس دوران چترال کےدوسرے علاقوں میں بدستور رئیس کی حکومت تھی اور چترال میں رئیس شاہ ناصر حکمران تھا۔ ایک اور تاریخی روایت کے مطابق رئیس حکومت نے 1635ء سے 1640ء تک خان آف بلخ کی اطاعت قبول کر لی تھی۔ اس وقت بخارا میں خاندان استر خانیہ کی حکمرانی تھی۔ امام قلی خان بخارا کا خان تھا اور اس کا بھائی نزر محمد خان اس کی طرف سے بلخ کا گورنر مقرر تھا۔ یہ چنگیز خان کے بیٹے جوجی خان کی اولاد میں سے تھے جنہوں نے صدیوں پہلے اسلام قبول کیا ہوا تھا۔
سنگ علی کے بیٹوں نے تقریباً 1700ء میں رئیس شاہ محمود سے اقتدار چھین لیا تو وہ یارقند چلا گیا۔ تقریباً 1730ء اور 1735ء کے درمیان وہ یارقند سے ایک فوج لے کر چترال پر حملہ آور ہوا۔ خوشوقت اور خوش آمد اس جنگ میں قتل ہوئے اور شاہ کٹور نرسَت براول کی طرف کوچ کر گیا۔ کچھ عرصے بعد اس کا بیٹا سنگین علی ثانی بھی اس کے ساتھ ملا۔ خوش آمد کا بیٹا شاہجہان اپنے چند مصاحبین کے ساتھ یارقند چلا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یارقند میں انہوں نے ایک خطرناک اژدھا کو ہلاک کیا اس لئے اسے ڈوڈول کا خطاب ملا۔ یہ وہ دور ہے جب کاشغر میں چغتائی حکومت ختم ہوچکی تھی اور 1713ء میں کاشغر پر الماق یا قلماق کا قبضہ ہوچکا تھا۔ رئیس شاہ محمود کے اس دوسرے دور کا ایک اصل سند ملا ہے جس پر 1153ہجری کی تاریخ درج ہے جوکہ 1740ء بنتا ہے۔ ممکن ہے کہ شاہ محمود کچھ باج و خراج مغلستان اور کاشغر کے قالماق سردار قنگ تاجی کو بھی بھیجتا ہو کیونکہ تاریخ قپچاک خانی میں اس دوران بلور کو قلمق سردار کا باجگزار دکھایا گیا ہے۔
چینیوں نے 1759 میں سنکیانگ کو فتح کیا۔ چینی ترکستان براہ راست منچو حکمرانوں کے زیرنگین آنے کے بعد چترال اور چینیوں کے تعلقات کے بارے میں معلومات چینی دستاویزات میں تفصیل کے ساتھ معلوم ہوتے ہیں۔ روسی سکالر کوسنیکو کے مطابق 1760ء میں خوش آمد ثانی خوشوقت، جو بلور یعنی چترال بالا کا حکمران تھا، نے اسی سال مشرقی ترکستان کے چینی حکام کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ 63-1762ء میں اس نے چینی حکام سے اپنی حفاظت کے لئے اپیل کی کیونکہ بدخشان سے میر سلطان شاہ کی کمان میں ایک فوج اس پر حملہ آور ہوئی تھی۔ میر سلطان شاہ نے پہلے جنوبی چترال میں محمد شفیع کٹورے کو شکست دے کر شاہ عبد القادر بن رئیس شاہ محمود کو وہاں حکمران مقرر کیا۔ پھر مستوج آکر شاہ خوش آمد کا اس کے قلعے میں محاصرہ کرلیا۔ آخرکار چینی حکام کے سفارتی دباؤ کی وجہ سے محاصرہ ختم کرکے واپس چلا گیا۔ چینی ذرائع کے مطابق 1764ء تا 1769ء اور اس کے بعد 1790 تک مستوج سے باقاعدگی سے خراج چینی حکام کو پہنچایا جاتا رہا۔
کٹور دور میں بدخشان سے چترال پر جن دو حملوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں پہلا شاہ کٹور ثانی اور سلیمان شاہ خوشوقتے دور کا ہے۔ ان دو خاندانوں کے درمیان ہمیشہ خانہ جنگی جاری رہتی تھی چنانچہ ایک دفعہ شاہ کٹور ثانی نے سلیمان شاہ کے خلاف میر کوہکن بیگ ازبیک والئے قندوز و بدخشان سے امداد طلب کی۔ میر ایک بڑی فوج لے کر درہِ بروغیل کے راستے چترال میں داخل ہوا اور مستوج میں شاہ کٹور ثانی سے مل کر ورشگوم کی طرف سلیمان شاہ کے مقابلے کے لئے روانہ ہوا۔ جونہی یہ لشکر یاسین پہنچا سلیمان شاہ نے کوہکن بیگ سے ملاقات کرکے اس کو تخفے تخائف پیش کیے اور میر کے جو دشمن اس کے ہاں پناہ لیے ہوئے تھے ان کو میر کے حوالے کیا۔ چنانچہ اس طریقے سے جنگ ٹل گئی اور میر مستوج کی طرف واپس چلا آیا۔ شاہ کٹور ثانی نے اسے دعوت دے کر اپنے ساتھ چترال کی طرف لے گیا اور راستے میں نوڑ ریشت کے تنگ راستے میں اپنے آدمیوں کے ذریعے اسے دھکا دلوا کر نیچے دریا میں گرا دیا اور اس کی فوج کو نہتا کرکے بدخشان کی طرف روانہ کیا۔
دوسرا حملہ امان الملک کے دور کا ہے جب بدخشان کی حکمرانی کا دعویدار اور معزول میر جہاندار شاہ امان الملک کے پاس پناہ لیے ہوئے تھا اور بدخشان کا میر محمود شاہ اس کو اپنے لیے خطرہ خیال کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ ایک لشکر لے کر درہِ بروغیل عبور کرکے چترال میں داخل ہوا اور جب آگے بڑھ کر دربند پہنچا تو چترالی جنگجووں کو والئیِ مستوج غلام محی الدین المعروف پہلوان خوشوقتے کی کمان میں مورچہ بند اپنا منتظر پایا۔ چترال کے جنگجوؤں نے مختلف حربے آزماکر ان کو بے دست و پا کردیا اور دو دنوں کی لڑائی کے بعد میر بھاری نقصان اٹھا کر پسپا ہونے پر مجبور ہوا۔
چترال اور وسط ایشیا کے روابط میں فیصلہ کن دور وہ تھا جب والئیِ افغانستان امیر شیر علی خان نے بدخشان کو فتح کرکے اس کو اپنے زیرنگین کرلیا اور چترال پر بھی حریصانہ نظر رکھنا شروع کیا۔ لہٰذا امان الملک نے چترال کو کابل کی جارحیت سے بچانے کے لئے اقدامات کیے اور 1877ء میں مہاراجہ کشمیر سے دوستی کا معاہدہ کیا۔ اس دوران گریٹ گیم کا بھی آغاز ہوچکا تھا۔ روس وسط ایشیاء کے خانوں کو روندھتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا اور برطانوی ہند کے فوجوں کے قدم گلگت تک پہنچ چکے تھے۔ انگریز روسیوں کی آمد کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے اور اسے اپنے سرحدات سے دور رکھنے کیلئے جتن کر رہے تھے۔ ان حالات میں چترال ان کی نظروں میں اہمیت اختیار کرگیا۔ دوسری طرف امان الملک بھی برطانوی ہند کے ساتھ معاہدہ کرنے کا خواہاں تھا۔ اس سلسلے میں 1878ء میں بڈلف نے چترال کا دورہ کیا۔ اس کے بعد 1885ء میں لاک ہارٹ کی قیادت میں ایک مشن نے چترال آکر مہتر کے ساتھ ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔ ان معاہدوں کے نتیجے میں چترال کے رابطوں کا رُخ تاریخ میں پہلی بار وسط ایشیاء سے مڑ کر جنوبی ایشیاء کی طرف ہوگیا اور 1895ء میں برطانوی ہند کا اقتدار چترال پر قائم ہونے کے بعد یہ جنوبی ایشیاء کا حصہ بن گیا۔ تاہم وسط ایشیا کے ساتھ تجارت، مسافروں اور حاجیوں کی آمدورفت پھر بھی کسی حد تک جاری رہی. مگر روس اور چین کے کمیونسٹ انقلاب کے بعد یہ سلسلہ بھی منقطع ہوا۔
موجودہ زمانے میں وسط ایشیا کی تمام ریاستیں آزاد ہوچکی ہیں۔ ان کے ساتھ ہمارے جو تہذیبی، ثقافتی، تاریخی اور سماجی رشتے ہیں ان کو دوبارہ بازیافت کرنے اور بحال کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے آمدورفت کے جدید ذرائیوں کا ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کو وسط ایشیاء سے جوڑنے کے لئے چترال میں آسان اور نزدیک ترین گزرگاہیں ہیں لیکن ابھی تک اس پر کوئی کام نہیں ہوا ہے۔ چترال سے اگر بہتر سڑکیں گزار کر وسط ایشیاء کے ممالک سے ملائی جائے تو اس میں نہ صرف پاکستان کو معاشی اور تجارتی فائدے متوقع ہیں بلکہ چترال اور وسط ایشیاء کے قدیم روابط کی ازسرنو تجدید بھی ہوسکتی ہے۔
:حوالہ جات
پروفیسر اسرارالدین، تاریخِ چترال کے بکھرے اوراق
مرزا حیدر دوغلات، تاریخ رشیدی
محمد سیئر، شاہ نامہ
مرزا غفران، تاریخ چترال فارسی
مولوی حشمت اللہ، تاریخ جموں
مرزہ غلام مرتضی، تایخ چترال اردو
آصف جیلانی، تاریخ وسط ایشیا
منظوم علی، قراقرم ہندوکش
محمد عرفان، شاہ امان الملک
شاہ محمود اور شاہ عبد القادر اصل اسناد فارسی
Chitral’s History, by Holzworth Wolfgang
The Tribes of Hindu Kush, by John Biddulph
History of Northern Areas, by Prof Ahmed Hassan Dani
Sirindia, by A Stein
Wakhan, by Dr Inayat Ullah Faizi
The Early Empires of Central Asia, Nac Govern
Turkistan Down to Mongols, by W. Berthhold,
ان کے علاوہ دیگر رسالوں، آن لائن ویب سائٹس اور نوٹس وغیرہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔
۔