Baam-e-Jahan

پابلو نیرُودا، محبت اور انقلاب کی علامت

پابلو نیرُودا

پرویز فتح

بشکریہ، جہد


ہسپانوی زبان کے سب سے بڑے شاعر اور مارکسی دانشور پابلو نیُرودا کو 1971ء میں ادب کا نوبل ایوارڈ ملا تو دنیا بھر کے ترقی پسند ادیبوں، شاعروں، انسانی حقوق کے علمبرداروں، امن، آزادی، انصاف اور سماجی برابری کے لیے برسرِپیکار سیاسی و سماجی کارکنوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہو گیا۔ یہ ایوارڈ اُنہیں ایک ایسے ادب کی تخلیق پر دیا گیا تھا جس کے ذریعے اُنہوں نے اپنے خطے کی عوام میں بنیادی انسانی قدروں کو اُجاگر کرنے، انہیں خواب دیکھنے اور اُن کی تکمیل کے ذریعے تقدیر بدلنے کا راستہ دکھایا تھا۔ اس سے قبل پابلو نیرُودا کو بین الاقوامی امن ایوارڈ، لینن امن ایوارڈ سمیت بہت سے دیگر اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔ ایک ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے اُن کا تخلیق کردہ ادب پرانی وضع، پرانے انداز، دقیانوسی خیالات، رویوں اور طریقوں کو رد کر کے نئے اصول، قائدے، اصلوب، طرز اور رجحانات کو ترتیب دیتا ہے۔ اِس لیے پابلو نیُرودا نے نہ صرف ادب کی دُنیا میں اعلی مقام حاصل کیا بلکہ دُنیا بھر میں جدید دور کی شاعری کو اعلیٰ مقام دلوانے میں بھرپُور کردار ادا کیا۔

پابلو نیرُودا کی یادگار تصویر

چلّی، برِاعظم جنوبی امریکہ کے مغربی سمندری کنارے اور انڈس پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ایک لمبی پٹی نما ملک ہے، جس کی کل آبادی تقریباً 2 کروڑ اور رقبہ 219،930 مربع میل ہے، جو کہ پاکستان کے رقبے کا تقریباً 65 فیصد ہے۔ قدرتی وسائلز سے مالا مال چلّی دُنیا میں تانبا پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اِس لیے برِصغیر کی طرح چلّی بھی ایک عرصہ تک سامراجی کالونی رہا اور تقریباً 300 برس تک اُس پر اسپین کا غاصبانہ قبضہ رہا۔ یوں تو کلونیل دور (نوآبادیاتی نظام) صدیوں سے ہی چلا آ رہا ہے، لیکن جدید نوآبادیاتی نظام کی بنیاد یورپین ممالک کی جانب سے سمندری راستوں کی دریافت کے ساتھ ہی پندھرویں صدی کے آغاز میں ہی پڑ گئی تھی، جب اُنہوں نے 1488ء میں افریقہ کے جنوبی ساحلوں اور 1492ء میں امریکہ کا سمندری راستہ دریافت کیا۔ اِن دریافتوں کی بدولت پرتگال، اسپین، ڈچ ریپبلک، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے دُنیا کے غریب اور کمزور ممالک پر قبضے کر کے اُنہیں اپنی کالونیاں بنانے اور اُن کے معدنی ذخائر و خام مال کو بےدردی سے لوُٹنے کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ 1540ء میں سپین نے اس علاقے پر قبضہ کر کے اپنے کالونی بنا لیا، جسے اب چلّی کہتے ہیں۔ غیر ملکی تسلّط کے خلاف چلّین عوام نے 1810ء سے 1826ء تک آزادی کی بھرپُور جنگ لڑی۔ چلّی نے اسپین سے آزادی کا اعلان تو 18 ستمبر 1818ء کو کر دیا تھا، لیکن آزادی کی تکمیل کو وقت لگا اور بعد ازاں 1830 کی دہائی میں چلّی ایک نسبتاً مستحکم آمرانہ جمہوریہ کے طور پر دُنیا کے نقشے پر نمودار ہو گیا۔

بیسویں صدی میں 1970ء کی دہائی تک چلّی میں جمہوریت کا عمل دیکھا گیا، جس سے ملک میں تیزی سے صنعت کاری ہوئی ، شہری آبادی میں اضافہ ہوا اور ملکی معیشت کو وسعت دینے کے لیے تانبے کے ذخائر کو ترقی دی گئی، جِس سے کان کُنی بڑھی اور برآمدات میں اضافہ ہوا۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں کے دوران ملک نے شدید بائیں بازو اور دائیں بازو کی سیاسی پولرائزیشن اور ہنگامہ آرائی کا سامنا کیا۔ یہ ترقی 1973 میں چلّی میں امریکی آشیرباد سے ہونے والی فوجی بغاوت کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی جس نے سلواڈور ایلینڈے کی جمہوری طور پر منتخب بائیں بازو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور بدنامِ زمانہ ڈکٹیٹر آگسٹو پنوشے کی 16 سالہ فوجی آمریت قائم ہو گئی۔ ڈکٹیٹر پنوشے نے 3,000 سے زائد سیاسی کارکنوں کو ہلاک یا لا پتہ کر دیا۔ اُس کی حکومت بعد ازاں 1990ء میں، 1988ء میں ہونے والے ریفرنڈم کے نتیجے میں ختم ہوئی اور اس کی جگہ سینٹر لیفٹ اتحاد نے ملک کا نظام سنبھالا اور 2010ء تک حکومت کی۔

جب وہ نوبل ایوارڈ وصول کرنے کے لیے سٹاک ہوم میں اپنے ہوائی جہاز کی سیڑھیاں اُتر رہے تھے تو ایک صحافی نے نیرودا سے پوچھا کہ ان کے خیال میں “سب سے خوبصورت لفظ” کیا ہے۔ پابلو نیرُودا نے توقف کیا، پھر بولا محبت۔ جتنا زیادہ آپ اسے استعمال کریں گے، یہ اتنا ہی مضبوط ہوتی جائے گی۔

پابلو نیرُودا کا اصلی نام ریکارڈو ایلیسر نیفتالی رئیس باسوالٹو تھا اور وہ 12 جولائی 1904ء کو جنوبی چلّی کے قصبے پارل میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد ایک ریلوے ملازم اور والدہ سکول ٹیچر تھیں۔ پابلو نیرُودا کی پیدائش کے دو ماہ بعد اُن کی والدہ کا انتقال ہو گیا جِس کے چند روز بعد ہی اُن کے والد ٹیموکو منتقل ہو گئے اور دوبارہ شادی کر لی۔ اِس طرح پابلو نیرُودا نے اپنا بچپن اور جوانی ٹیموکو میں گزاری۔ پابلو نیرُودا نے 1914ء میں پہلی نطم لکھی تو اُن کے والد نے سخت مخالفت کی لیکن اُس کی ٹیچر اور ہسپانوی زبان کی مشہور شاعرہ و ماہرِ تعلیم گیبریلا میسٹرل سمیت بہت سے لوگوں نے حوصلہ افزائی کی جِس کی بدولت 13 برس کی عمر میں ہی اُن کی شاعری کی پہلی کتاب شائع ہو گئی۔ 1924ء میں ایک بہت کم عمر پابلو نیرُودا نے اپنی نظموں کی ایک شاہکار کتاب شائع کی جس سے اس کی شہرت بنی، جو کرۂ ارض کی سب سے مشہور شاعری کی کتابوں میں سے ایک ہے، جِس کا نام ہے “اکیس محبت کی نظمیں اور ایک مایوسی کا گانا” ہے۔
پابلو نیرُودا نے 1923ء میں اپنے طویل کیریئر کا آغاز ایک سفارت کار کے طور پر لاطینی امریکی روایت میں کیا، جس کے مطابق نامور شاعروں کو سفارتی ذمہ داریوں سے نوازا جاتا تھا۔ برما میں اعزازی قونصل کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد، نیرودا کو 1933ء میں ارجنٹائن کے شہر بیونس آئرس میں چلّی کا قونصل نامزد کیا گیا۔ وہاں رہتے ہوئے اُنہوں نے ہسپانوی شاعر فیڈریکو گارسیا لورکا سے دوستی شروع کی۔ اس سال کے آخر میں میڈرڈ منتقل ہونے کے بعد پابلو نیرُودا نے ہسپانوی مصنف مینوئل التولاگوئیر سے بھی ملاقات کی اور دونوں نے مل کر 1935ء میں کبللو وردے پیرا لا پویسیا کے نام سے ایک ادبی جریدے کی بنیاد رکھی۔ 1936ء میں ہسپانوی خانہ جنگی کے آغاز نے نیرُودا کی شاعرانہ اور سیاسی ترقی کو متاثر کیا لیکن اُنہوں نے ادبی تخلیق کا عمل جاری رکھا۔ اس نے خانہ جنگی کے خوفناک سالوں کی تاریخ بھی رقم کی جس میں جنگی محاذ سے لے کر گارسیا لورکا کی پھانسی بھی شامل تھی۔ اِس خانہ جنگی نے اُنہیں ایک انقلابی راہنما کے طور پر متعارف کرایا اور اُن کی شاعری کا رُخ بھی بدل ڈالا۔ بعد ازاں وہ پیرس چلے گئے اور چلّی میں ہسپانوی ریپبلکن مہاجرین کو آباد کرنے میں مدد کرتے رہے۔

پابلو نیرُودا 1938ء میں چلّی واپس آ گئے اور انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کی تجدید کی اور بھرپور انداز میں لکھنا بھی شروع کر دیا۔ 1939ء میں اُنہیں ایک بار پھر سفارتی ذمہ داریاں دیتے ہوئے میکسیکو میں چلّی کا قونصل نامزد کر دیا گیا اور پابلو نیرُودا کو چار سال کے لیے اپنے وطن کو دوبارہ چھوڑنا پڑا۔ اُس وقت تک وہ ایک زبردست انقلابی بن چکے تھے اور 1943ء میں چلّی واپس آنے پر وہ کیمونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن منتخب ہو گئے اور کمیونسٹ پارٹی میں بھرپُور کام شروع کر دیا۔ اُنہوں نے چلّین سینٹ میں عوام کے ایک مندوب کے طور پر امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے ذریعے چلّی کی معیشت پر تسلط، ملکی وسائل اور عوام کی لوُٹ گھسوٹ اور حکومت کی طرف سے محنت کش طبقے کی آزادیاں سلب کرنے کے خلاف بھرپُور آواز اُٹھائی۔ اُنہوں نے تانبے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی جانب سے کمیونسٹ پارٹی کی زیرقیادت ہڑتالوں کو کچلنے کے لیے صدر کے آمرانہ اقدامات کی بھرپُر مزمت کی تو ریاستی حکمرانوں نے اُن پر بغاوت کے الزامات لگانا شروع کر دیئے، اور اپنے قومی شاعر کو اِس قدر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا کہ وہ جلاوطنی پر مجبور ہو گئے۔ اس عرصے کے دوران اُنہوں نے جو کچھ لکھا اور شائع کیا اُس نے پابلو نیرُودا کی وطن پرستی اور قومی آزادی کے لیے گرانقدر خدمات پر ایسی مہر لگا دی جسے آج بھی اُن کی جلاوطنی کے دور کی ڈائری سمجھا جاتا ہے۔ بعد ازاں 1952ء میں چلّین حکومت نے بڑہتے ہوئے عوامی دباؤ کے پیشِ نظر بائیں بازو کے ادیبوں اور سیاسی شخصیات کو گرفتار کرنے کا حکم واپس لے لیا تو پابلو نیرُودا چلّی واپس آ گئے۔ اس عرصہ میں پابلو نیرُودا کو متعدد باوقار اور عالمی اعزازات ملے، جن میں 1950 میں بین الاقوامی امن ایوارڈ، 1953 میں لینن امن ایوارڈ اور سٹالن امن ایوارڈ، اور 1971 میں ادب کا نوبل ایوارڈ شامل ہیں۔ اِس دوران اُنہوں نے تخلیقی عمل جاری رکھا اور سفارتی ملازمت دوبارہ شروع کر دی۔ بعد ازاں فرانس میں دو سالہ سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے دوران اُنہیں پراسٹیٹ کینسر کی تشخیص ہو گئی تو اُنہوں نے اپنے سفارتی کیریئر کا خاتمہ کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور علاج کے لیے اپنے ملک واپس لوٹ آئے۔

پابلو نیرُودا کی شاعرانہ تخلیقات حیران کن ہیں، جن میں ہزاروں نظمیں، کچھ مہاکاوی، کچھ مختصر، اب تو بارسلونا کے گلیکسیا گٹنبرگ کی جانب سے اُن کے مسابقتی کاموں کی سیریز بھی جمع کی گئی ہیں جو پہلے ہی پانچ انسائیکلوپیڈک جلدوں کو بھر چکی تھیں اور 6,000 سے زیادہ صفحات پر مشتمل تھیں، اور اب مزید جلدوں کی توقع ہے۔ اگر کوئی ایسی چیز ہے جو اس کے بڑے جذبے کو یکجا کرتی ہے تو وہ ہے دنیا کے لیے اس کی محبت، چھوٹی چھوٹی چیزوں اور ہسپانوی خانہ جنگی جیسی اہم تاریخی پیش رفت کے لیے اُن کا جذبہ۔ جب وہ نوبل ایوارڈ وصول کرنے کے لیے سٹاک ہوم میں اپنے ہوائی جہاز کی سیڑھیاں اُتر رہے تھے تو ایک صحافی نے نیرودا سے پوچھا کہ ان کے خیال میں “سب سے خوبصورت لفظ” کیا ہے۔ پابلو نیرُودا نے توقف کیا، پھر بولا محبت۔ جتنا زیادہ آپ اسے استعمال کریں گے، یہ اتنا ہی مضبوط ہوتی جائے گی۔

پابلو نیرُودا نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ سفر کرنے، ادبی تخلیق، روُ پوشی، جِلا وطنی یا پھر ٹریڈ یونین اور سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے سیاسی جدوجہد کرتے گزارا۔ انہوں نے عالمی امن کانفرنسوں، مصنفین کی مختلف کانفرنسوں، لینن امن انعام کے پینلز میں، مشرقی یورپ اور جنوبی امریکہ کی ادبی اور تعلیمی اکیڈمیوں کے لیے سخت محنت کی۔ انہوں نے آمروں اور ظالموں کی جانب سے ادیبوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف بھر پُور آواز اٹھائی۔ وہ ترک کمیونسٹ شاعر ناظم حکمت، فلسطین کے انقلابی شاعر محمود درویش، کولمبیا کے ناول نگار گیبریل گارشیا مارکیز، چلّی کی شاعرہ گیبریلا میسٹرل، فرانسیسی شاعر پال ایلوارڈ، میکسیکن کے مورالسٹ ڈیاگو رویرا، کیوبا کے شاعر نکولس گیلن اور برازیلین جیسے عالمی شہرت یافتہ روشن خیال ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ ایک دلکش دنیا کے خواب بُنتے رہے۔

پابلو نیُرودا ہمیشہ سے ایک ایسے انسان تھے جنہوں نے اقتدار سے زیادہ عوام کا لطف اٹھایا۔ رنگون (اس وقت برطانوی ہندوستان کا حصہ) میں ایک نوجوان قونصلر اہلکار کے طور پر نیرودا نے نوآبادیاتی ذات پات کے نظام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے برطانوی حکام سے کنارہ کشی اختیار کی اور مقامی برمی لوگوں کے ساتھ صحبت رکھی، جس کی وجہ سے انگریزوں نے اسے اپنے سماجی اداروں سے نکال دیا۔ اُنہوں نے کئی سال بعد لکھا کہ میں مشرق میں اپنی زندگی عارضی نوآبادیات کے ساتھ گزارنے نہیں آیا تھا، بلکہ اس دنیا کی قدیم روح کے ساتھ اس بڑے بے بس انسانی خاندان کے ساتھ زندگی گزارنے آیا تھا۔ اس لیے اس نے عوامی انداز میں بازاروں، محلوں اور گلیوں میں پناہ لی۔ یہی وجہ تھی کہ پابلو نیُرودا 1920ء کی دہائی میں سیلون سے لے کر 1960ء کی دہائی میں اٹلی تک جہاں بھی گئے، انہوں نے اقتدار کے مقدس اور خاموش ایوانوں سے کہیں زیادہ لوگوں کی متحرک دُنیاوں کو تلاش کیا۔

پابلو نیُرودا اپنے خطے کے ایک ایسے منفرد ترقی پسند ادیب، محبت کے پیامبر شاعر اور انقلابی رہنما تھے، جنہوں نے نہ صرف چلّی اور لاطینی امریکہ کے مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات کو بہتر مستقبل کے خواب دیکھنے اور اُن کی تکمیل کا سیاسی شعُور اجاگر کرنے کے لیے بھرپُور کردار ادا کیا، بلکہ دُنیا بھر میں سامراج مخالف، قومی آزادی کی تحریکوں کو تقویت بخشی اور اُن کے لکھے گئے محبت، مساوات، امن اور آزادی کی نظموں اور نغموں کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی۔ اُن کی نظموں میں ہر قسم کے ذائقے موجود ہیں، جن میں چلّی کا رنگ برنگا آسمان، ہر آن متغیر سمندر، جنگلوں اور چٹیل میدانوں سے بھری ہوئی زمین اور اُس کے بدلتے ہوئے رنگ و موسم، انسانی دلوں کی گرمی، اپنی محبوبہ اور بعد میں بیوی متلدا کے لیے بے پناہ محبت، چلّی کی تانبے کی کانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کا گہرا درد، کھیتوں میں پسینے سے شرابور نیم برہنہ کسانوں کی محرومیاں اور سپین میں جنرل فرانکو کی فوج کے خلاف لڑنے والی انٹرنیشنل بریگیڈ میں شامل سپاہی، ادیب، صحافی اور فن کار، یہ سب اُن کی نظموں کے موضع ہیں۔ اُنہوں نے اپنی شاعری کا آغاز 12 برس کی عمر میں محبت کی نظموں سے کیا، لیکن وقت کے ساتھ وہ ایک بڑے ترقی پسند انقلابی ادیب و شاعر بن کر اُبھرے اور اپنے تخلیق کردا ادب کے ذریعے عوامی خدمت کرنے لگے، حقائق بیان کرنے لگے، لوگوں کا حوصلہ بلند کرنے لگے۔ اُن کا تخلیق کردہ ادب اور شاعری معاشرے میں تشدد، سامراجی تسلط، آمرانہ سوچ، جبراً اطاعت، سیاسی قبضے، سماجی استحصال، انسانی برائیوں اور کمزوریوں کے رد عمل کے نتیجے میں لکھی جانے لگیں۔ اُن کی شاعری عوام کے خواب دیکھنے اور کامیابی حاصل کرنے کے جزبے کو ابھارنے لگی اور عوام میں بنیادی انسانی حقوق سے متعلق آگاہی پیدہ کرنے لگی۔

پابلو نیرُودا کی ادبی خدمات اور سماجی تبدیلی کے لیے جدوجہد کی اہمیت تو اپنی جگہ ہے ہی مگر چلّی کے سیاسی و سماجی حالات بھی ہم سے زیادہ مختلف نہیں رہے۔ وہاں پر بھی ایک لمبا عرصہ سامراجی قبضہ، ماشل لاء اور نیم ڈکٹیٹرشپ کا دور دورا رہا، جِس کی بدولت وہاں سیاسی، سماجی، جمہوری اور انسانی حقوق ناپید رہے۔ شائد یہی وجہ تھی کہ پابلو نیرُودا کو برِصغیر کے ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں سے بے پناہ محبت تھی۔ اُن کی فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی، علی سردار جعفری اور سید سبطِ حسن سمیت برِصغیر کے بہت سے ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ گہری دوستی، نظریاتی ہم آہنگی، خط و کتابت اور ملاقاتوں کا سلسلہ تھا۔

پابلو نیُرودا اور فیض احمد فیض

پابلو نیرُودا کے اسلوبِ شاعری نے عالمی سطح پر شاعروں اور ادیبوں کو متاثر کیا ہے اور تیسری دُنیا کے ممالک نے بطورِ خاص اس کا اثر لیا ہے۔ برِصغیر پاک و ہند سے پابلو نیرُودا کا رابطہ ایک انقلابی شاعر کی حیثیت سے 1929ء میں ہو چکا تھا، جب وہ انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کی کانفرنس میں شرکت کے لیے چلّی سے کلُکتے آئے تھے، لیکن اُن کا بھر پُر تعارف اُس وقت ہوا جب وہ 1950ء میں دوبارہ آئے۔ اُردو، ہندی اور بنگلہ دیشی ادبی حلقوں نے اُن کی بھرپور پذیرائی کی اور ان زبانوں میں اُن کی نظمیں ترجمہ ہوئیں اور کتابیں شائع ہوئیں۔ 1971ء میں پابلو نیرُودا کے لیے نوبیل ایوارڈ کا اعلان ہونے تک اُن کی زندگی میں ہی 38 شعری مجموعے چھپ کر لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو چکے تھے۔ پابلو نیرُودا کا گراں قدر کام 600 صفات پر مشتمل اُن کے شُہرہ آفاق نظم کینٹو جینرل ہے۔ اب تو اُن کی کتابوں کا دُنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے، اردو میں بھی متعدد کتابیں موجود ہیں۔

فیض اور پابلو، جارجیا 1962


برِصغیر کے نامور ترقی پسند ادیب علی سردار جعفری نے ایک مرتبہ پابلو نیرُودا کی شخصیت بارے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ میں پابلو نیرُودا کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کی فکر میں تھا کہ 1948ء میں ایک دن خبر آئی کہ پولینڈ کے شہر وارسا میں فرانس کے مشہور نوبل انعام یافتہ سائنسدان جیولیوکیوری کی رہنمائی میں ایک بین الاقوامی امن کانفرنس منعقد ہوئی ہے، جس میں پکاسو نے اپنے پرانے دوست اور عظیم شاعر پابلو نیرُودا کو خراج تہنیت پیش کیا ہے اور ان لوگوں کی مذمت کی ہے جن کے ظلم کی وجہ سے یہ عظیم شاعر ڈیڑھ برس سے روپوش ہے۔ پابلو نیرُودا سے اب میرا شوق ملاقات بہت بڑھ چکا تھا اور ایک دن ایسا آیا جس میں ملاقات کے امکانات پوشیدہ تھے۔ 1949ء کا سال شروع ہو رہا تھا۔ ہندوستان کے کئی ادیبوں کے ساتھ میرے پاس بھی بین الاقوامی امن تحریک کی طرف سے پیرس میں منعقد ہونے والی امن کانفرنس کادعوت نامہ آیا تھا۔ میں جانے کے منصوبے بنا رہا تھا کہ 21 جنوری کو حکومتِ بمبئی نے مجھے بغیر کسی الزام کے گرفتار کر لیا اور بغیر مقدمہ چلائے جیل میں بند کر دیا۔ وہ زمانہ ہندوستان میں افراتفری اور انتہا پسندی کا تھا۔ میری گرفتاری پر ہندوستان کے مختلف گوشوں سے ادیبوں اور شاعروں نے احتجاج کیا اور یکایک 15 دن کے بعد مجھے رہا کر دیا گیا۔ اس فضا میں پاسپورٹ حاصل کرنے اور پیرس جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ بعد ازاں مجھے اپریل 1949ء میں دوبارہ گرفتار کرکے آرتھر روڈ جیل بھیج دیا گیا۔ اس جیل یاترا میں جو کتابیں میری رفیق رہیں ان میں نرودا کی ریزیڈینس آن ارتھ بھی تھی، جس پر آج تک آرتھر روڈ اور ناسک سنٹرل جیل کے جیلروں کے دستخط ہیں۔

1950 پابلو نیرُودا، بیگم نیرودا، جوش ملیح آبادی اور علی سردار جعفری

پیرس کی امن کانفرنس اپریل 1949ء کے آخر میں منعقد ہوئی اور مئی میں یہ اطلاع ملی کہ پابلو نیرُودا کی روپوشی ختم ہو گئی ہے۔ نامور روسی ادیب ایلیا اہرن برگ نے اپنے ایک مضمون میں اس کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ ’پیرس کی امن کانفرنس ختم ہو رہی تھی، یہ اس کا آٓخری اجلاس تھا کہ 25 اپریل 1949ء کو یکایک ہال کے اندر ایک لہر سی دوڑ گئی۔ پابلو نیرُودا اسٹیج کی سیڑھیوں پرچڑھ رہا تھا۔ وہ امریکہ کی پولس کی نگرانی سے بچ کر نکل آیا تھا اور سٹیج کے پلیٹ فارم پر اس طرح چڑھ رہا تھا جیسے سپاہی میدان جنگ میں آگے بڑھتا ہے۔ اسے احساس تھا کہ امن عالم کے لئے، انسانی وقار کے لئے اور شاعری کے حُسن کے لئے امنِ عالم اور انسانیت کی بقا کی عظیم جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اس نے اپنی ایک نئی نظم سنائی اور اسکاٹ لینڈ کے کان کنوں نے اور کوریا کی ایک استانی نے اور جیولیوکیوری نے اور پولینڈ کے ایک ریل مزدور نے اور سوویت یونین کے مشہور ہواباز مرساایو نے، غرض مختلف ملکوں اور مختلف پیشوں کے لوگوں نے بڑے شوق سے کانوں کی سمجھ میں نہ آنے والی لیکن دل کی سمجھ میں آنے والی زبان سنی۔ پھر فرانس کا ایک مزدور ضبط نہ کرسکا اور اس نے مسرت کا نعرہ بلند کیا۔۔۔ پابلو نیرُودا ۔۔۔ یہ واقعی پابلو نیرُودا ہے’۔

پابلو نیرُودا کی شاعری جِس قدر حسین اور مترنم ہے، اُتنی ہی انقلابی بھی ہے۔ کسی زمانے میں اس کے سر پر موت کی تلوار لٹک رہی تھی اور وہ دیس بدیس مارا مارا پھر رہا تھا۔ اب اس کے سر پر شہرت اور عظمت کا تاج ہے اور وہ خواب آلود لہجے میں بات کرتا ہے، جیسے کہیں دور پانی برس رہا ہو یا صنوبر اور چیر کے درختوں سے ہوا آہستگی کے ساتھ گزر رہی ہو۔ وہ اسپین کی خانہ جنگی میں بارود کی بو سونگھ چکا تھا اور خون کا رنگ دیکھ چکا تھا، لیکن اس کا سانس دنیا کے نہ جانے کتنے ملکوں کے پھولوں کی خوشبو سے بسا ہوا تھا اور یہ خوشبو اس کے نغموں میں منتقل ہوتی جا رہی تھی۔ پابلو نیرُودا کی ایک خوبصورت نظم جو ہمیشہ میرے دِل کو چھوُ جاتی ہے اُس کا اُردو ترجمہ کچھ اِس طرح ہے:۔

کہو تم عدالت میں جانے سے پہلے
کہو تم وزارت میں جانے سے پہلے
کہو تم سفارت میں جانے سے پہلے
دکھاؤ ہمیں اپنے اعمال نامے
قیامت کے دِن اور خدا پر نہ چھوڑو
اِسی چوک میں خون بہتا رہا ہے
اِسی چوک میں قاتلوں کو پکڑ کر۔سزا دو، سزا دو، سزا دو، سزا دو

پابلو نیُرودا کی شاعری میں جا بجا سچے اور حقیقی ادب کی گہرائی ملتی ہے۔ ادب کے کسی عالم نے کیا خوُب کہا تھا کہ شاعری میں معشوق کی اہمیت نہیں ہوتی، بلکہ عاشق کی اہمیت ہوتی ہے۔ محبوب کیسا ہی ہو، دیکھا یہ جاتا ہے کہ عشق کیسا ہے؟ اس میں کتنی گرمی ہے؟ کتنی تڑپ کتنا سوزوگداز اور پھر یہ سوزوگداز شعر بنا ہے کہ نہیں؟ تجربہ سچا ہے یا رسمی؟ یہ کہنا یا سمجھنا کہ پابلو نیُرودا کی شاعرانہ خوبی اور برتری کا کوئی تعلق اُن کی ترقی پسندی یا انقلابی زندگی سے نہیں تھا، بالکل غلط ہے، کیونکہ پابلو نیرودا کی زندگی کی سب سے بڑی خصوصیت ہی یہ ہے کہ وہ ایک عالمگیر وحدت تھی اور اُن کی شاعری کو اُن کی پوری شعوری زندگی کے اس اشتراکی نصب العین سے الگ کر کے دیکھا ہی نہیں جا سکتا، جِس کے لیے وہ زندہ رہے اور جِس کے لیے اُنہوں نے اپنی ساری ذہنی، روحانی اور جسمانی صلاحیتیں وقف کر دی تھیں۔ پابلو نیُرودا کے ہاں انقلاب سیاسی موقف اور منشور ہی نہیں تھا بلکہ محبت کا ایک ناگزیر تقاضہ ہے۔

پابلو نیرُودا نے اپنی آخری سانس تک ایک عالمی شہرت حاصل کرنے والے ادیب، شاعر، مارکسی دانشور اور انقلابی راہنما کے طور پر جدوجہد کرتے گزاری۔ جب 11 ستمبر 1973ء کو چلّی کی فوج نے امریکی سامراج اور سی آئی اے کی آشیرباد سے بدنامِ زمانہ جنرل آگسٹو پنوشے کی قیادت میں اپنے ملک کے صدر سلواڈور ایلنڈے کی منتخب سوشلسٹ حکومت کا تختہ اُلٹ دیا، اور آئیندے کو گولی مار کر راتوں رات کسی گُم نام جگہ پر مٹی میں دبا دیا، تو اُن دنوں پابلو نیُرودا اپنے ملک کے فرانس میں سفیر تھے اور کینسر کے علاج کے لیے اپنے ملک آئے ہوئے تھے۔ اُسی فسادویورش کا فائدہ اٹھا کر ظلم کے خفیہ ہاتھوں نے سینٹیاگو میں پابلو نیرُودا کا کام بھی تمام کر دیا۔ اُن کے گھر اور کتابیں نذرِآتش کر دی گیں۔ پابلو نیُرودا کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور کیمونسٹ پارٹی چلّی نے دعویٔ کر دیا کہ فوجی جنتا نے پابلو نیرُودا کو زہر دیا ہے اور اُن کے قتل کی غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔
بعد ازاں تحقیقاتی کمیشن بھی بنے اور اُن کمیشنوں نے اُن کے قتل کے امکان کو رد بھی نہ کیا، لیکن وہ تحقیقات آج تک نتیجہ خیز نہ ہو سکیں۔ آج پابلو نیُرودا کے سر پر شہرت اور عظمت کا تاج ہے اور اُن کے تخلیق کردہ ادب کی خوشبو آج بھی دُنیا کو مہکا رہی ہے اور بلا لحاظ رنگ، نسل، مذہب، زبان اور سرحدوں کی حدوُد کے دُنیا بھر کے شاعروں، ادیبوں اور انقلابی کارکنوں کی راہنمائی کر رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے