پرویز فتح
اِس سال برطانیہ میں کرسمس کا سورج طلوع ہوا تو ایک برٹش انڈین نوجوان نے سنسنی پھیلا دی اور جلیانوالہ باغ کےخونی سانحہ کی گونج بریکنگ نیوز کے طور پر ملک بھر میں سنائی دینے لگی۔ ایک 19 سالہ سکھ نوجوان جسونت سنگھ چیل نے 25 دسمبر کو صبح 8 بج کر 6 منٹ پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم “سنیپ چیٹ” پر اپنی ایک ریکارڈ شدہ ویڈیو اپ لوڈ کر دی، جِس میں اُس نے دعویٰ کیا کہ وہ 1919ء کے جلیانوالہ باغ سانحہ کا انتقام لینے کے لیے ملکۂ برطانیہ الزبتھ دوئم کو قتل کر دے گا۔ سکاٹ لینڈ یارڈ نے فوری طور پر اُس نوجوان کی تلاش شروع کر دی۔ جب برطانوی ملکہ الزبتھ دوئم کرسمس منانے کے لیے اپنے محل “کوئینز ونڈسر کیسل” میں تقریب کے مقام پر پہنچیں تو ملکہ کی سکیورٹی پر اُس وقت سوالیہ نشان لگ گیا جب وہی جسونت سنگھ چیل اپنی ویڈیو لوڈ کرنے کے ٹھیک 24 منٹ بعد تیر کمان لیے ونڈسر کیسل میں داخل ہو کر تقریب کے مقام کے قریب پہنچ گیا۔ برطانیہ میں سیکورٹی اداروں کو حیرت ہوئی کہ ایک شخص شاہی محل کے اندر گھس کر اتنی دور تک کیسے پہنچ گیا۔ پولیس نے 19 سالہ ملزم جسونت سنگھ چھیل کو مینٹل ہیلتھ ایکٹ کے تحت حراست میں لے لیا۔ جسونت کے والد نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے بیٹے کے ساتھ کچھ “بہت غلط” ہوا ہے، اور ہم اس کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ والد نے کہا کی اِس واقع کی وجہ سے تمام اہلِ خانہ مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ ہم اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو اُن کے لیے آسان نہیں ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق مسٹر چیل ایک آئی ٹی کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے اور لندن پولیس ان کی دماغی صحت کی جانچ کر رہی ہے۔ جسونت سنگھ کو طبی کارکنوں کی نگرانی میں رکھا گیا ہے۔ پولیس کو تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ فلم ‘اسٹار وار’ کے کردار جیسا ماسک اور ہڈڈ جیکٹ پہنے ملزم نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ میں ایک ہندوستانی سکھ ہوں اور میرا نام جسونت سنگھ چیل ہے۔ میں اِس دور کا ڈارتھ جونز ہوں اور میری موت قریب ہے۔ اگر آپ کو یہ ویڈیو ملتی ہے تو براہ کرم اسے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے ساتھ شئیر کریں۔ میں نے جو کیا اور کرنے جا رہا ہوں، اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ میں ملکہ الزبتھ کو قتل کرنے کی کوشش کروں گا اور یہ جلیانوالہ باغ کے وحشیانہ قتل عام کا بدلہ ہوگا، جہاں سینکڑوں بے گناہ شہریوں کو وحشیانہ طریقے سے شہید کیا گیا تھا۔ 13 اپریل 1919ء کو بیساکھی کے دن برطانوی فوج کے کرنل ریجنلڈ ڈائر نے ہندوستانی آزادی پسندوں پر گولیاں چلائیں، جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے۔
جلیانوالہ باغ میں وحشیانہ قتلِ عام
جلیانوالہ باغ سینٹینری کمیٹی کے ایک ذمہ دار آرگنائزر کے طور پر میں ونڈسر کیسل میں پیش آنے والے اِس افسوسناک واقعے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہوں۔ ہم جمہوری لوگ ہیں، اور ہماری تحریک ایک پُر امن اور جمہوری بنیادوں پر استوار کی گئی ہے۔ ہم برطانوی سرکار سے کلونیل دور کے اس وحشیانہ قتلِ عام پر اُس وقت کے متحدہ ہندوستان، جو اب انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش ہے، سے ریاستی معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہماری تنظیم کا یہ بھی مطالبہ ہے کلونیل دور کی تاریخ کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنا کر برطانیہ کی نوجوان نسل کو حقیقی تاریخ سے روشناس کروایا جائے، جِس میں کلونیل دور کے مظالم اور قتل و غارت بھی شامل ہو۔ کلونیل دور کی تاریخ کو پڑھانے اور نئی نسل میں شعُور اجاگر کرنے کی اہمیت اِس لیے بھی ہے کہ آج بھی دُنیا میں جلیانولہ باغ جیسے واقعات روُنما ہو رہے ہیں اور دُنیا بھر میں معصوم لوگوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ عراق، لیبیا، یمن اور شام پر مسلط کردہ سامراجی جنگیں، فلسطین اور کشمیر میں بربیت اور آئے دن وقوع ہوتے انسانی المیے، 1987ء میں ہندوستان میں ہونے والا سانحہ گجرات، 1978ء میں کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان میں قتلِ عام، مئی 2007ء میں کراچی میں قتلِ عام سب آج کے دور کے جلیانوالہ سانحات کی مثالیں ہیں اور یہ مظالم آج بھی ترقی پذیر ممالک کے وسائل کو لوٹنے کے لیے سامراجی ممالک یا پھر اُن کے مقامی گھماشتے اپنے عوام پر ڈہا رہے ہیں۔
اِس سال13 اپریل کو جلیانوالہ باغ کے خونریز واقع کو 103 برس ہو جائیں گے جو برطانوی سامراج کے برِصغیر متحدہ ہندوستان پر قبضہ اور نوآبادیاتی راج کو برقرار رکھنے کے لیے ڈھائے جانے والے جبرواستبداد، ظلم و ستم اور بربریت کے واقعات میں سب سے زیادہ وحشیانہ اور خونی تھا، جس میں 1600 سے زائد پرامن شہری بغیر کسی وارننگ کے، براہِ راست فائرنگ کر کے شہید کر دیئے گئے تھے۔ یہ ہماری قومی آزادی کی تحریک کا سب سے دردناک باب ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں ہی نو آبادیاتی نظام اور سامراجی غلبے کے خلااف آزادی کی تحریکوں نے انقلابی شکل اختیار کرنا شروع کر دی، جس نے سامراجی طاقتوں کی جانب سے کمزور ممالک پر کنٹرول کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور آزاد ریاستوں کے قیام کے خدوخال متعین ہونے لگے۔ نومبر 1918ء میں پہلی عالمی جنگ ختم ہوئی تو جنگ میں فتح سے برطانوی سامراج اور اس کی مقامی حکومت کو بہت تقویت ملی، اور اُس نے جمہوری اصلاحات نافذ کرنے کے وعدوں سے انحراف کر دیا۔ حکومتی ہٹ دھرمی سے لوگ مشتعل ہو چکے تھے اور وہ صبر کرنے کو تیار نہ تھے۔ یوں ملک ہنگاموں کی لپیٹ میں آ گیا۔ حکومت بوکھلا گئی اور اس نے پہلے تحریک آزادی کے رہنما ڈاکٹر ستیہ پال اور چند روز بعد 4 اپریل 1919ء کو ڈاکٹر سیف الدین کچلو، دینا ناتھ اور آزادی کے دیگر اہم رہنماؤں کے امرتسر سے باہر جانے، تقریر کرنے یا اخباری بیان جاری کرنے پر پابندی لگا دی۔ ان حالات میں عوام برطانوی سامراج اور ان کے کارندوں کو دشمن سمجھنے لگے اور بلا لحاظ رنگ، نسل اور مذہب کے فقیدالمثال اشتراک عمل کا مظاہرہ کرنے لگے۔ اس وقت ہندو، مسلمان اور سکھ کی تمیز ختم ہو گئی اور ہر طرف بھائی چارے، یگانگت اور باہمی اتحاد کی نئی لہر نظر آ نے لگی۔ عوامی جذبہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومت نے تمام اجتماعات پر پابندی لگا دی، حتیٰ کہ جنازے کے ساتھ بھی صرف 8 افراد کو جانے کی اجازت دی۔
اپریل کی 13 تاریخ کو بیساکھی کی پہلی تاریخ ھوتی ھے, امرتسر میں اس روز میلے کا سماں ھوتا ھے۔اس میلے کا مرکز بھی جلیانوالہ باغ ھی ھوتا ھے اور دور دراز سے لوگ شرکت کے لیے آتے ھیں۔ حکومتی پابندیوں، راہنماوں کی گرفتاریوں اور بڑہتے ہوئے جبر کے خلاف آزادی پسندوں نے 13 اپریل کو جلیانوالہ باغ میں جلسے کا اعلان کر دیا۔ 4 بجے بعد دوپہر تک جلسہ گاہ میں تل دھرنے کو جگہ نہیں بچی تھی، عینی شاہدوں کے مطابق وھاں 35 سے 40 ھزار کے قریب انسانوں کا جمِ غفیر تھا۔ آزادی کی بڑھتی ھوئی لہر دیکھ کر جنرل ڈائر نہتے اور پُر امن شہریوں کے خون کا پیاسہ بن چکا تھا اور وہ موقع کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ یونہی اُسے جلسہ شروع ھونے کی رپورٹ ملی، اس نے فوج کو جلیانوالہ باغ کی جانب کوچ کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ اس وقت شام کے پانچ بج چکے تھے اور جلسہ اپنی پوری آب و تاب سے جاری تھا۔ سارے راھنماوں کی گفتگو کا مرکز رولیٹ ایکٹ اور تحریر و تقریر کی آزادی سلب ھونے کے خلاف مزاحمت تھا۔ اچانک جنرل ڈائر نے بغیر کسی پیشگی وارننگ کے گولی چلانے کا حکم دے دیا اور پر امن اور نہتے شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ جوان, بچے, بوڑھے اور عورتیں اس بربریت کا شکار ھوئیں اور چیخ و پکار آسمان کو چھونے لگی۔ جلیانوالہ باغ کے اندر ایک بڑا کنواں تھا اور لوگ اپنی جان بچانے کے لیے اس کنویں میں کودتے رھے اور وہ کنواں انسانوں سے بھر گیا۔ جنرل ڈائر نے دس منٹ تک فائرنگ کو جاری رکھا تاوقتیکہ اسلحہ کے سارے راونڈ ختم ھو گئے۔ 1600 سے زائد بے گناہ شہری موقع پر ھی شہید ھو گئے اور بے شمار زخمی بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے جان کی بازی ھار گئے۔ ان میں ھندو بھی تھے, مسلمان بھی, سکھ بھی اور عیسائی بھی, لیکن سب جیتے جاگتے انسان تھے۔ برطانوی آبادی کا بڑا حصہ آج بھی اس درندگی، بربریت اور سفاکی کو برطانوی سامراج کے دامن پر بدنما داغ تصور کرنے لگا۔
جنرل ڈائر اپنی سفاکی اور خونخواری پر قائم رہا اور بالکل بھی ندامت محسوس نہ کی۔ برصغیر کے عوام کی نظر میں وہ ایک درندہ صفت انسان تھا ہی، مگر اس کے اقدام، اس کے ہم وطنوں کے نزدیک بھی بے رحمانہ قتل عام تھا۔ جنرل ڈائر کے وحشیانہ اقدام پر برطانیہ میں بھی زبردست آواز اٹھی اور برطانوی رائے عامہ دو حصوں میں بٹ گئی۔ برطانوی آبادی کا بڑا حصہ اس درندگی، بربریت اور سفاکی کو برطانوی سامراج کے دامن پر بدنما داغ تصور کرنے لگا۔
مغربی یورپ کی سامراجی طاقتوں کی طرف سے اپنی نوآبادیاتی رعایا کا بالواسطہ یا بلاواسطہ قتل عام کوئی نئی بات نہیں تھی اور تاریخ میں جلیانوالہ باغ کا قتل عام اس کی واحد مثال نہیں ہے۔ تاہم، یہ ان واقعات میں سے ایک ہے جس کے لیے کبھی کسی کو تفتیش، مقدمہ یا سزا نہیں دی گئی۔
ہم تشدد یا نام نہاد انتقام کی ایسی کارروائیوں کی مذمت یا حوصلہ افزائی نہیں کرتے، لیکن ہم باضابطہ معافی کے بنیادی مطالبے کے لیے اپنے جمہوری حقوق کا استعمال جاری رکھیں گے۔ میں اپنے اور جلیانوالہ باغ سینٹینری کمیٹی کی جانب سے اِس مشکل وقت میں جسبیر سنگھ چیل اور ان کے خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ ہمیں اِس بات پہ بھی اطمینان ہے کہ اِس واقعے میں کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
جلیانوالہ باغ صد سالہ کمیٹی اس وقت تک مہم جاری رکھے گی، جب تک موجودہ برطانوی وزیر اعظم کی طرف سے اس انتہائی وحشیانہ اور گھناؤنے فعل کے لیے باضابطہ معافی کا مطالبہ پورا نہیں کیا جاتا۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم اور آنے والی نسلیں جلیانوالہ باغ کے شہداء کو نہیں بھولیں گیں۔