بشارت حسین مہدوی
کسی جنگل میں ایک چیتا چرس تیار کرکے سلگانے والا ہی تھا کہ اچانک قریب سے چوہا گذرا اور بولا: بھائی چیتے ! زندگی بہت خوبصورت ہے ۔ نشہ چھوڑو زندگی سے پیار کرو۔ اتنا خوبصورت جنگل ہے چلو گھومتے پھرتے ہیں۔ انجوائے کرتے ہیں”
چیتے کو چوہے کی بات اچھی لگی ۔ وہ چرس چھوڑ کر ساتھ ہولیا۔
تھوڑی آگے جا کر ایک ہاتھی شراب کی بوتل کھولنے کی کوشش کررہا تھا ۔
چوہا پھر بولا :” او انکل ہاتھی ! زندگی بہت خوبصورت ہے۔ زندگی سے پیار کرو۔ خوبصورت جنگل ہے چلو گھومتے پھرتے ہیں سیر کرتے ہیں "۔ ہاتھی کو چوہے کی بات بھا گئی اور وہ بھی ساتھ چل پڑا ۔
آگے جاکر دیکھا کہ شیر ہیروئن کی پڑی ہاتھ میں اٹھائے نشہ کرنے کی تیاری کررہا ہے۔
چوہا اسکے پاس بھی گیا اور بولا:” او جنگل کے بادشاہ۔ زندگی بہت خوبصورت ہے۔ یوں برباد مت کرو۔ زندگی سے پیار کرو ۔ چلو جنگل کی سیر کرتے ہیں "
شیر نے چوہے کو غصے سے دیکھا اور زور سے ایک تھپڑ رسید کیا۔
۔ہاتھی اور چیتا حیران ہوئے اور پوچھا ۔” شیر صاحب۔ چوہے نے تو اچھی بات کی ہے۔ تھپڑ کیوں مارا اسے؟”
شیر بولا ” یہ خبیث کل بھی بھنگ پی کر آیا اور یہی بات کرکے مجھے 5 گھنٹے فضول گھماتا رہا”
یہی کام اج کل وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور اسکی ٹیم کر رہی ہیں، گلگت بلتستان آئینی پیکج 2009 ، آرڈر 2018 کی طرح کے ہی ایک پیکج کو عبوری صوبہ کا نام دیکر، مگر مقصد ان سب کا ایک ہی ہے اور وہ ہے گلگت بلتستان کی عوام کو آپس میں الجھائے رکھ کر وسائل کی لوٹ مار کرنا۔
تو آئیں دیکھتے ہیں کہ اس عبوری آئینی پیکج پر ایک سرسری نگاہ ڈال کر کہ اس میں کیا نیا ہے اور اسکے اثرات کیا ہوسکتے ہیں ۔
اس عبوری مسودے کی مین ہیڈنگ ہی سے سب کچھ عیاں ہوتا ہے یعنی یہ ایک پیکج ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں بلکہ ایک ایکزیکٹیو آرڈر ٹائپ کی ترمیم کے تحت ہے، ایک ایسا پیکج جو بوس اپنے ملازمین یا پھر آقا اپنے غلاموں کو دیتا ہے، زرداری کے آئینی پیکج 2009, نواز شریف کے آرڈر 2018 اور عمران خان کے عبوری آئینی پیکج 2022 میں صرف سالوں کے نمبرون کے علاؤہ کوئی فرق نہیں، یا اگر اس سے زیادہ کچھ اسے سمجھا جائے تو ایک ایسا پیکج جو برطانوی سامراج نے ڈی انڈین ایکٹ 1935 کے نام سے اپنے ہندوستانی غلاموں کے لئے جاری کیا تھا، مگر وہ ایکٹ برطانوی پارلیمنٹ سے منظور شدہ تھا اور گلگت بلتستان عبوری پیکج وزیراعظم پاکستان کے ایکزیکٹیو آرڈر کے تحت ہے۔
۔ مسودے کے پہلے صفحے کی پہلی لائن میں لکھا گیا ہے کہ "میں نے (وزیر قانون پاکستان) نے گلگت بلتستان والوں کے لئے اس آئینی پیکج کو تیار کیا۔ ایک قابض ریاست کے ایسے وزیراعظم جس کی ملک کے چار میں سے صرف 2 صوبوں میں اکثریت ہے کے ایک وزیر کے ہاتھ میں گلگت بلتستان کے 20 لاکھ عوام کی قسمت کا فیصلہ دیا گیا، اور مشاورت کے لئے کٹھ پُتلی وزیر اعلی گلگت بلتستان کے علاوہ وزیر آمور کشمیر، ایڈوائزر نینشل سیکورٹی کونسل اور پاکستان کے دفترِ خارجہ سے مشاورت لئ گئی جن کا گلگت بلتستان سے کوئی تعلق نہیں، اور ساتھ ہی اس مسودہ کے صفحہ نمبر 4 کے آخری پروگراف سے پہلے لکھا گیا ہے کہ، جب یہ عبوری پیکج پاکستانی وزیراعظم آفس سے فائنلائز ہوجائے گا تو، وزیراعلی گلگت بلتستان اس پیکج کو گلگت بلتستان اسمبلی کے سامنے پیش کرکے طبلے بجائے گا۔ مسودے کے صفحہ نمبر دو کے آخری میں گلگت بلتستان کے متنازع ہونے کو اور مسودے میں باربار گلگت بلتستان کا مسلہ کشمیر سے جوڑے ہونے کا اعتراف کیا گیاہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کی بے شمار قردادوں و بین الاقوامی قوانین کے حساب سے گلگت بلتستان و کشمیر کے مستقبل کے فیصلے کا اختیار صرف اور صرف یہاں کی عوام کو حاصل ہے۔
پاکستانی سیاستدانوں کے بے شمار بیانات، سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلوں اور پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے بار بار گلگت بلتستان کو پاکستان کی آئینی حدود سے باہر اور متنازع تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ مسودے کے پہلے صفحے میں ہی پاکستانی دفتر خارجہ و نیشنل سیکورٹی کونسل نے اسکی متنازع حیثیت کی وجہ سے پاکستانی آئین کے آرٹیکل ون میں ترمیم کرکے گلگت بلتستان کو اس میں شامل کرنے کو مکمل طور پر سختی سے رد کردیا، یعنی کہ پاکستان گلگت بلتستان سے ایک ایسے رشتے کا خواہشمند یے جس میں نکاح کے بغیر گرل فرینڈ بنا کر اسکے وسائل سے بھرپور لطف اٹھایا جائے۔
۔ مسودے کے صفحہ نمبر دو اور تین میں بار بار واضح طور پر کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنا کر پاکستان میں شامل نہیں کیا جارہاہے اور نا دیگر صوبوں کے برابر نمائندگی دی جارہی ہے بلکہ یہ محض ایک ایکزیکٹیو آرڈر کے تحت پیکج ہے۔
۔ مسودے میں واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں قومی اسمبلی و سینیٹ میں نمائندگی اور این ایف سی ایوارڈ سمیت تمام اہم امور ، جغرافیائی محل وقوع اور رقبے کی بنیاد پر نہیں بلکہ آبادی کے لحاظ سے ملتی ہے، جبکہ گلگت بلتستان کی کل آبادی، اسلام آباد شہر سے بھی کم ہے، مسودے کے مطابق اسلام آباد کی کل ابادی 2.2 ملین ( جو کہ مسلسل پھیلتی جارہی ہے) جبکہ گلگت بلتستان کی کل ابادی محض 1.45 ملین ہے (جو کہ محرومیوں و استصال کی وجہ سے مسلسل سکڑتی جارہی ہے)، اس آبادی کے حساب سے گلگت بلتستان کو پاکستانی قومی اسمبلی میں تین نشستیں و ایک خواتین کی مخصوص نشست میں بطور مبصر نمائندگی دی جائے گی، (بقول نواز خان ناجی صاحب کے گلگت بلتستان کا اسلام آباد کی طرف سفر کی آخری منزل خیبرپختونخوا کے ضلع کی صورت میں ہے)
مسودے کے مطابق "گلگت بلتستان آرڈر 2018” جس کے خلافِ گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ نے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے کر کلعدم قرار دیا تھا اور عوام نے بھی اسکے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک چلائی تھی، یہ آرڈر بھی اس مسودے میں شامل اور نافذ العمل ہوگا۔
۔ مسودے کے مطابق پیکج کے نافذ ہونے کے بعد گلگت بلتستان چیف کورٹ، ہائی کورٹ میں تبدیل ہو جائے گا جبکہ سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان ختم ہوجائےگا، اسکی جگہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں صرف ایک جج کو مزید شامل کیا جائے گا، جبکہ چیف کورٹ گلگت بلتستان میں پہلے سے تعینات پانچ جج کافی ہے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا جبکہ اسلام آباد جیسے آبادی والے شہر کے ہائی کورٹ میں دس جج تعینات ہیں۔
۔ جابز، وسائل، ویکینسییز اور کوٹہ گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے فارمولے کے تحت طے کیا جائے گا، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
۔ سینٹ آف پاکستان، جہاں صوبوں کی نمائندگی آبادی کے لحاظ سے نہیں بلکہ تمام صوبوں کی برابر یے، وہاں بھی گلگت بلتستان کو مکمل و برابر نمائندگی نہیں دی جاسکتی، مسودے میں یہاں بھی ایک بار پھر واضح کیا گیا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل کرکے باقاعدہ صوبہ نہیں بنایا جارہا ہے بلکہ یہ محض ایک ایکزیکٹیو آرڈر کے تحت دیا گیا پیکج ہے جسکی دیگر صوبوں کے ساتھ کسی بھی لحاظ سے برابری نہیں کی جاسکتی۔
۔ تعلیم و روزگار کے سلسلے میں مجبوراً گلگت بلتستان سے باہر پاکستانی شہریوں میں مقیم گلگت بلتستان کے لوگوں کو گلگت بلتستان کی ابادی میں شامل نہیں کیا جاسکتا( یعنی گلگت بلتستان کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کےلئے غیر قانونی طور پر غیر مقامیوں کو مقامی بنایا جاسکتا ہے جبکہ حالت مجبوری میں گلگت بلتستان سے باہر گلگت بلتستان کے لوگ گلگت بلتستان کی آبادی میں شمار نہیں کئے جاسکتے)۔
نوٹ: اس پیکج کے نافذ العمل ہونے کے بعد عوام میں مزید محرومیاں و مایوسیاں پیدا ہونگی جس سے براہِ راست گلگت بلتستان کی مقامی حق پرست قیادت کے موقف کو تقویت ملے گی اور عوام کے پاس صوبے کے خول سے نکل کر متحرک ہوکر خود انحصاری و خودمختاری کی جدوجہد کرنے کے علاؤہ کوئی راستہ نہیں ہوگا۔