پروفیسر حمزہ ورک
جب پاکستان وجود میں آیا دنیا دو سپر پاورس روس اور امریکہ میں سرد جنگ جاری تھی دنیا کے آدھے ممالک سوشلسٹ روس کے ساتھ اور آدھے سرمادار مریکہ کے ساتھ تھے پاکستان کو بھی دونوں سپر پاور سے دعوت آیا روس کے بلاک میں جو ممالک جاتا روس وہاں محنت کشوں کی حکومت قائم کرواتا بنیادی ضروریات مثلاً تعلیم صحت روز گار فراہم کرتا اس ملک کی صنعتی ترقی پہ اپنے ملک کے وسائل لگا دیتا جو اس کے اپنے ملک میں اس کے خاتمے کے اسباب میں سے ایک ہے روس کے عوام اس بات پہ شاکی تھے کہ ان کے وسائل دوسرے ممالک پہ خرچ ہوتے ہیں پاکستان میں بھی جب ستر کی دہائی میں تعلقات بہتر ہوئی تو پاکستان سٹیل ملز جیسا صنعت لگا دیا دوسری طرف امریکہ اپنے بلاک کے ممالک کو اپنا مارکیٹ بنا لیتا جو اس کے قابو میں نہیں آتا انہیں لڑا کر کھربوں ڈالر میں اپنا اسلحہ
بیچتا تھا۔ انڈیا پاکستان، ایران عراق جنگیں اس کی مثالیں ہیں۔
پاکستان کو جب دعوت ملا تو روس اس کے پروس کا ملک تھا لیکن کافر ملک تھا لحاظہ اسلام کو بچانے کے لیے اسلامی ملک امریکہ کے بلاک میں چلے گئے جو اس ملک کی تباہی کی بنیا بنی۔ امریکہ نے اس ملک میں اشرافیہ کی جیبیں ڈالر سے بھروا کر ملک کو کھربوں ڈالر کا مقروض بنوایا حکومتیں آج تک اپنی مرضی کی حکومتیں بناتا جا رہا ہے۔ روس کے بلاک میں جو ممالک رہے ان ملکوں میں سو فیصد شرح خواندگی، اچھی معشیت، اچھی انفراسٹرکچر شامل ہیں۔ دریا وخان کی ایک طرف کے تاجکستان اور دوسری طرف افغانستان جہاں ہماری مہربانیاں ہمیشہ رہتی ہیں، کی حالتیں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ اس وقت ضرورت تھی روس کے ساتھ شامل ہونے کی۔ آج روس بھی امریکہ کی طرح ایک سرمایہ دار ملک ہے، اس کی معشیت اور طاقت سویت یونین والی نہیں ہے، اج وہ اپنے حامی ممالک میں پہلے کی طرح وسائل نہیں لگاتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی جارحیت کی وجہ سے حالت جنگ میں ہے اور تنہا ہے ایسے میں اس ملک کے ساتھ شامل ہونا سفارتی خود کشی کے علاؤہ کچھ نہیں۔ یہ دورہ بہت سے لوگوں کے سمجھ سے باہر ہے سوائے یوتھیوں کے جو اس کے نتائج و محرکات سے مکمل بے خبر ہیں اور خامخواہ خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں۔ عمران خان کے دو مقاصد ہو سکتے ہیں ایک یہ ہے کہ حالت جن میں سہی لیکن بڑا ملک ہے خوش ہو کر کم از کم ایک لاکھ ڈالر بھی دے گا۔ دوسرا یہ کہ ملک میں جو سیاسی صورتحال ہے اور اسٹیبلشمنٹ کا آشیرباد اس کے سر ہٹ رہا ہے تو یہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ میں اب بھی طاقتور اور با اختیار ہوں اور لوگوں کے توجہ بھی صورتحال سے ہٹانا چاہتے ہیں لیکن ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ پاکستان ہیں جہاں محمد خان جونیجو بھی کبھی ایسے دورے پر گئے تھے جسے ایر پورٹ سے سیدھا گھر جانا پڑا۔