سید کاشف رضا
منگل کو شوکت صدیقی کا یہ ضخیم ناول پڑھنا شروع کیا اور کل رات ختم کر ڈالا۔ اردو میں ایسا زبردست ناول شائد کوئی اور نہیں۔ شوکت صاحب یہ ناول نہ لکھتے تو وہ کراچی آج ہمیں کہیں اور نہ ملتا جس کا اس ناول میں بیان ہے۔
نوشا، راجہ، نوشا کی ماں، سلطانہ سب کے کردار بھرپور ہیں۔ یہ ناول بہت دُکھی کر دیتا ہے۔ سلطانہ، اس کی ماں اور ننھے انّو کی بپتا رُلا دیتی ہے۔ شوکت صاحب نے اپنے کرداروں کے طور پر اُفتادگانِ خاک کو چنا۔ اب وہ وقت گزر چکا۔ اب اگر کوئی ان کرداروں کو لکھے گا بھی تو ویسی جانکاری کے ساتھ نہیں لکھ پائے گا۔
جرم اور مجرم کی نفسیات سے شوکت صاحب کو خاص دلچسپی ہے۔ نچلے ترین طبقے کے لوگ اپنی غربت اور بھوک سے مجبور ہو کر جرم کرتے ہیں اور جیل کی ہوا کھاتے ہیں جبکہ جن کے پاس پیسہ ہو وہ اور پیسہ کمانے کی دُھن میں جرم کرتے ہیں اور جیل سے بچے رہتے ہیں۔ سلمان کے کردار میں گڑبڑ کا کافی امکان تھا مگر مصنف اسے آخر تک سنبھال لے گیا۔ ناول میں سن پچاس کی دہائی کی ترقی پسند تحریک کا احوال بھی ملتا ہے اور یہ احوال نہایت حقیقت پسندی سے لکھا گیا ہے۔ ایک جوشیلے انقلابی سے بین الاقوامی کمپنی کی ماتحت افسری تک سلمان کا سفر چشم کُشا ہے۔
شوکت صاحب نے تو سفاک حقیقت نگاری کے دوران اسلوب کی ندرت کا بھی خیال نہیں رکھا جس کے چکر میں اردو فکشن نگاروں نے فکشن کو بھی داد وصول کرتی شاعری بنانا چاہا۔ مگر مصنوعی ندرت سے پاک ان کا یہ اسلوب ہی فکشن کے لیے ایک تگڑا اسلوب ہے۔
میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شوکت صاحب کا ناول خدا کی بستی اور جانگلوس کی جلد اوّل اردو فکشن کے سرتاج ہیں۔ زندگی شوکت صدیقی کے فکشن میں بہت شدت کے ساتھ اپنی عریاں اور تلخ حقیقتیں سامنے لاتی ہے جب کہ ہمارے متعدد بڑے فکشن نگاروں کے ہاں ہر قسم کی گپ شپ تو ضرور مل جائے گی مگر زندگی نہیں۔