Baam-e-Jahan

بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد کو سمجھنے اور نوجوانوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے

bhagat siingh

فرمان علی


شہید بھگت سنگھ کے مشن کی تکمیل اور ان کی انقلابی جدوجہد اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تمام سوشلسٹ، مارکسسٹ، جمہوری اور انسان دوست قوتیں متحد ہو کر موجودہ دور کےعالمی سرمایہ دارانہ سامراجی نظام اور اس کے پیدا کردہ انسان اور ماحولیات دشمن نظام کے خاتمے کے لیے جدوجہد کریں۔
ان خیالات کا اظہار عوامی ورکرز پارٹی کےرہنماؤں نے ۲۳ مارچ کو شہید بھگت سنگھ کی شہادت کی برسی پر ان کے گاوں چک بنگے ۱۰۵ گ۔ب جو پنجاب کے ضلع لائل پور (فیصل آباد) کے نواح میں واقع ہے، میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔
تقریب کا اہتمام عوامی ورکرز پارٹی فیصل آباد کے یونٹ نے کیا تھا، جس میں اسلام آباد راولپنڈی، ٹوبہ ٹیک سنگھ، چنیوٹ اور لاہور کے رہنماؤں اور کارکنوں کے علاوہ طبقاتی جدوجہد کے کارکنوں اور مقامی لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عوامی ورکرز پارٹی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عاصم سجاد اختر نے کہا کہ بھگت سنگھ شہید اور ان کے ساتھیوں نے آج سے ۸۰ سال قبل جن انگریز نوآبادیاتی حکمرانوں کے خلاف اپنی جانیں قربان کیں تھیں، ان کے مقامی پٹھو حکمران آ ج بھی ہمارے ملک پر قابض ہیں اور مزدوروں، کسانوں اور محکوم قوموں اور اقلیتوں کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج بھگت سنگھ کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تمام انقلابی، سوشلسٹ اور مارکسسٹ قوتیں آپسی اکٹھ پیدا کریں اور آج کے دور میں جنم لینے والے سوالات، جن کا تعلق طبقاتی، قومی اور صنفی جبر اور ماحولیات کی تباہی سے سے بھی ہے، کو سمجھیں اور اپنی سیاست کا بنیادی ایجنڈا بنانے کی ضرورت کا ادراک حاصل کریں۔
خالد محمود نے اس بات پر زور دیا کہ بھگت سنگھ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہمیں تین اہم نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا یہ کہ بھگت سنگھ نے جب متحدہ ہندوستان میں اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو اس وقت انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ والے بھی انگریزوں سے آزادی کی بات کرتے تھے، اس پر بھگت سنگھ نے سوال اٹھایا کہ یہ حکمران طبقے جس آزادی کی بات کرتے ہیں، وہ درحقیقت عوام کی آزادی نہیں بلکہ گورے حکمرانوں کی جگہ کالے مقامی اشرافیہ کی حکمرانی کی بات ہے، جو صحیح ثابت ہوگیا ہے ۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کی اس کے مقابلے میں کون سا راستہ اختیار کیا جائے ۔انہوں نے ابتداء میں ایک ہندوستانی قوم پرست کی حیثیت سے اپنی سیاست کا آغاز کیا لیکن بعد میں انہوں نے اپنا راستہ تبدیل کیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے جو باتیں وہ کرتے ہیں، وہی باتیں کانگریس اور مسلم لیگ والے بھی کرتے ہیں۔ تب انہوں نے ایک مارکسسٹ انقلابی کا راستہ چنا اور پورے ہندوستان میں انقلابی تحریک کو پھیلانے کی جدوجہد کی اور اس عمل میں اپنی جان قربان کی۔
خالد نے مزید کہا کہ مجھے حیرت ہوتی ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان آزاد ہو گئے ہیں اور آزادی کا جشن مناتے ہیں۔ آج بھی گورے حکمرانوں کے پروردہ سول و فوجی بیوروکریسی، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی حکومت ہے ۔
دوسرا نکتہ یہ کہ بائیں بازو نے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد کو ایک طویل عرصے تک نظر انداز کیا اور بہت دیر بعد بھگت سنگھ جیسے سپوت کو دریافت کیا گیا۔ ان کی برسی پہلی بار ۱۹۷۶ میں منائی گئی- اس کے بعد طویل عرصے تک خاموشی چھائی رہی۔ بعد میں فوجی ڈکٹیٹر ضیاءالحق کے دور میں دوبارہ ان کی برسی منانا شروع کی گئی۔
جس طرح بھگت سنگھ نے اپنے اندر کایا کلپ پیدا کیا اسی طرح ہمیں بھی اپنے آپ کو مکلمل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تب انقلاب آ ئے گا ۔ کیونکہ لینن کا قول ہے کہ انقلاب خود نہیں آتا ہے، لایا جاتا ہے اور انقلاب برپا کرنا ایک شعوری عمل ہے ۔ تو جب تک ہم اپنے اندر وہ کایا کلپ پیدا نہیں کرتے، انقلاب برپا نہیں کر سکتے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ان کی جدوجہد کو ازسرنو سمجھنے اور آج کے حالات میں نوجوانوں تک اس جدوجہد کو صحیح تناظر میں پہنچانے کی ضرورت ہے ۔
تقریب سے عوامی ورکرز پارٹی فیصل آباد یونٹ کے رہنما میاں محمد سعید ، سابق رکن پنجاب اسمبلی اور بزرگ رہنما کامریڈ محمد رفیق اور چوہدری ثاقب اقبال ورک نے بھی خطاب کیا اور بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد پر روشنی ڈالی۔ تقریب کی نظامت قمر عباس نے انجام دی۔
تقریب میں پنجاب کمیٹی کے عہدیداران بشمول صدر عمار رشید، سیکرٹری تعلیم و تربیت خالد محمود، کسان سیکریٹری چودھری محمد زبیر، انفارمیشن سیکرٹری طو بی سید ، عارف ایاز، زرینہ ایاز اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات فرمان علی، اریج حسین اور دیگر نے بھی شرکت کی۔
آخر میں عوامی ورکرز پارٹی پنجاب کے صدر عمار رشید نے انقلابی گیت گائے اور انقلابی نعروں سے تقریب کو گرمایا۔
لاہور میں شادمان چوک پر بھگت سنگھ کے چاہنے والے انقلابیوں اور ترقی پسندوں، خاص طور پر عوامی ورکرز پارٹی کے کارکنوں کی جانب سے شمع روشن کی گئی اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔
مقررین نے اپنی تقریروں میں کہا کہ بھگت سنگھ ایک انقلابی تھے اور آزادی کے اصل مفہوم سے آشنائی رکھتے تھے- وہ سوشلسٹ انقلاب کو ہی نجات کا واحد حل مانتے تھے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ شادمان چوک جہاں دھرتی کے سپوتوں کو پھانسی لگایا گیا تھا، کو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب کیا جائے۔
انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ نصاب میں دھرتی کے مہان سپوتوں بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد، اشفاق اللہ خان ، رام بسمل، سکھ دیو ، راج گرو، رائے احمد خان کھرل، دلا بھٹی اور کئی اور گمنام سپاہیوں کو، جو تاریک راہوں میں مارے گئے، کے بارے میں اسباق شامل کیے جائیں تاکہ نوجوان نسل اپنے اصل ہیروز سے واقف ہو سکے۔
اس موقع پر انقلابی گیت بھی گائے گئے

اپنا تبصرہ بھیجیں