نور شمس الدین
آج ملک سے باہر قزاقستان میں میرا پہلا روزہ تھا۔ افطاری کا کوئی خاص اہتمام نہیں تھا سو روٹین کا کھانا کھا کر لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھا ہی تھا کہ مرشد حاضر ہوئے۔
مرشد سے شاید یہ آپ کی پہلی ملاقات ہے۔ تعارف ہوتا رہے گا۔ فی الوقت تفصیلات رہنے دیں بس اتنا یاد رہے کہ مرشد کو آگاہی لے ڈوبے گی۔ پردیس میں سارا دن لیپ ٹاپ اور ریسرچ پیپرز میں غرق رہتا ہے مگر پتہ نہیں کب کیا سوچنا شروع کرتا ہے۔ سوچنے کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر پھر قہوہ پینے کے بہانے وہ سب میرے سر میں انڈیلنا نا انصافی ہے اور اسی طریقہ ورادات پر مجھے اعتراض ہے۔
آج کچھ افسردہ تھے، قہوہ پیش کرکے پوچھا۔ مرشدی ! اناپ شناپ کچھ نہیں بکنا ہے آج؟ خاموش کیوں ہو خیریت تو ہے۔
فرمانے لگا، یارا لگتا ہے اس بار رمضان کو انجوائے نہیں کرسکیں گے۔
کہا کیوں خیریت تو ہے ۔
کہتا ہے دفع کر یار ان قذاقیوں کو کچھ نہیں پتہ۔ دیکھ اول تو رمضان کا آغاز ہی اتنا پھیکا ہوا۔ چاند دیکھنے کی گہماگہمی ، اُدھر سے شہادتیں اِدھر سے انکار، پاپلزئی کے نخرے اور نہ مفتی منیب کی لمبی چوڑی تمھید۔ کچھ بھی نہیں۔ بس واٹس ایپ پر ایک کیلنڈر ملتا ہے کہ اس تاریخ سے رمضان شروع اس تاریخ کو ختم۔ سارے مانتے ہیں اور اسی مطابق چلتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی نظا م ہوا۔ خودہی سوچ لیں کہ سائنس پر اتنا بھروسہ کوئی عاقل بالع مسلمان کرسکتا ہے؟! حد تو یہ ہے سحری سے لیکر افطاری تک میں ان کمبختوں کے ٹی وی چینلز کنگھالتا رہا ۔ سحری ٹرانسمیشن نہ افطاری کے نام پر تماشے۔ تم ہی بتاو روزہ دار کو ٹی وی پر عامر لیاقت جیسے مُلّے پُھدکتے نظر نہ آیئں تو کوئی کیونکر انجوائے کرسکتا ہے۔
میں نے ہنس کر کہا بھائی زرا باہر نکل کر تو دیکھتے کیا پتہ کچھ گہما گہمی ہاتھ لگ جاتا۔
بولا، گیا تھا تبھی تو اور ناامیدی ہوئی۔ کل واٹس ایپ پیغام ملتے ہی سحری و افطاری کے لوازمات خریدنے نکل کیا مگر صد افسوس بازار کا بھی وہی حال ہے۔ جہاں جاو وہی عام دنوں والی ریٹ۔ بھائی رمضان کا کچھ تو خیال ہونا چاہیے۔ کم از کم میووں کے لیے دوڑ تو لگ جائے نا! دہی تو ناپید ہو۔ کچھ اور نہ سہی تو یوٹییلٹی اسٹورز کے باہر سستی چینی کو ترستی عوام تو نطر آئے۔
لمبی آہ بھر کر کہنے لگے۔
وللہ یار میرے کو تو رمضان میں دکاندار دوگنی قیمت میں چیز نہ دے تو دل بیٹھ سا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ افطاری کے وقت بھی باہر نکلا تھا کہ کچھ تو افراتفری ہوگی۔ دن خراب گزرا تو افطاری کے وقت کا مزہ تو اوے۔ مگر سب بے سود ۔
میں نے بات کاٹ کر کہا۔ مرشدی کچھ تو خوف خدا کر۔ افراتفری کرکے کرنا کیا ہے تو نے۔
کہتا ہے، سچ بتاوں تو مجھے افطاری میں پکوڑوں اور گالیوں کے بغیر مزہ ہی نہیں آرہا ہے۔ رمضان میں سارا دن کوئی گالی نہ پڑے یا کم از کم کسی اور کو پڑتے ہوئے سنائی نہ دے تو میرے کو لیمو پانی بھی ہضم نہیں ہوتا۔
میں نے کہا مرشدی قہوہ پی لیا ہے تو دفع ہوجاو؟ سارا دن روزہ رکھا ہے اور اب تم نے دماغ چاٹنا شروع کردیا۔
اچھل کر کہا، بھلا ہو تیرا۔۔۔۔ وللہ یار یہ ہوئی نا ‘قومی زبان’۔۔۔ گھر کی یاد دلادی۔ جتنا افطاری میں اندر ٹھونسا تھا سارا ہضم ہوگیا۔ پی لے اپنا قہوہ، نہیں پینا ہے مجھے۔ جزاک اللہ۔۔۔۔۔ چلتا ہوں۔