Baam-e-Jahan

کپتان کی ندامت

عابد حسین


پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ کپتان کو اسٹبلشمنٹ نے ہٹایا۔ اب فائز عیسی’ کے خلاف پٹیشن لانے والوں کا نام بھی بتایا اور اپنے کیے پر ندامت بھی۔
امریکہ ,یورپ, یورپیئن یونین کا بتایا کہ انکے خلاف نہیں ہوں۔
کپتان کو جب لایا گیا تو خوش تھا۔ ملک میں اسٹبلشمنٹ کو فری ہینڈ تھا۔ جب باجوہ فیض اختلاف ہوا تو کپتان نے فیض یاب ہونا پسند کیا اور اسکو سزا دی گئی۔
زرداری , نواز اگر چور ہیں تو کپتان کو ساڑھے تین سال میں کچھ ثابت کرانا چاہیئے تھا, سزا دلوانی چاہیئے تھی, جب زرداری کو کلین چٹ ملا, شہباز کو صاف کیا گیا تو اس وقت کپتان کو سوچنا چاہیئے تھا , لیکن جب دوسرے کے آشیر باد سے آیا جائے تو پھر آپ بے اختیار ہوتے ہیں۔,
روز اول سے ہی موقف تھا کہ اپوزیشن کو وقت دینا چاہیئے تاکہ کپتان اپنا آئینی وقت پورا کرسکے, لیکن جب وزیر اعظم ہوتے ہوئے , نیب, مقننہ میں قانون سازی اور امریکی امپورٹڈ مشیروں کا ٹولہ جن کو خاص طور پر کنٹرول کرنے کے لیئے بھرتی کیا جاتا ہے , ان پر اعتماد کیا گیا, ملک کو لوٹا گیا, کشمیر ہندوستان کو دلوایا گیا, سی پیک پر کام رکھوایا گیا, سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کو سونپا گیا, ساڑھے تین سال میں بجلی , گیس اور مواصلات کے تمام بڑے منصوبے روبہ زاول کروائے گئے تو کپتان کو سوچنا چاہیئے تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ کابینہ میں بیٹھا ٹولہ, امریکہ اور برطانیہ سے مشیروں کے فوج موج ظفر کو ملک پر مسلط تو نہیں کیا گیا,
وزیروں, مشیروں , دوستوں , رشتہ داروں نے جب خوب مال بنایا تو کپتان کو پہلے اپنوں کا احتساب کرنا چاہیئے تھا-۔
اچھا کپتان نے کھلاڑی بھی غلط چھنے تھے, جب دوسری جماعتوں سے آرہے تھے, ضمیر کی آواز تھی, جب چلے گئے تو لوٹے ہوگئے,
امریکہ پاکستان کو فوجی امداد دیتا ہے, جرنیلوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد نوکریاں اور شہریت دیتی ہے, وہ کیسے امریکہ کا حکم ٹال سکتے ہیں,
امریکی خط اسٹبلشمنٹ کے لیئے تھا کہ اگر کپتان ہمارے مفادات کے خلاف کام کرتا رہا تو امریکی امداد بند ہوگی, اور اگر یہ چلا گیا تو پھر جرنئلوں کی بھلے بھلے ہوگی,
سیاست دان بے شک اس وقت اسٹبلشمنٹ کے پے رول پر ہیں جیسے پہلے کپتان تھا, لیکن براہ راست اپوزیشن کا امریکی خط سے کوئی تعلق نہیں,
شماریات اور سیاسی ماحول بتارہے ہیں کہ آنے والے انتخابی معرکے میں اگر کپتان نااہلی, جیل وغیرہ سے بچ گیا تو پختونخواہ میں تو اس کی حکومت آئے گی جبکہ وفاق میں اس وقت کے حالات پتہ دیں گے-
ابھی وفاقی کابینہ میں تقسیم جاری ہے, پہلے بات اے این پی کی کروں گا, تو اے این پی کو مواصلات اور پختوخواہ کی گورنرشپ پہلے آفر کی گئ تھی لیکن مشر اسفندیار خان کے حکم پر کوئی بھی عہدہ یا وزارت نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا,
جے یو آئی کو ڈپٹی سپیکر شپ, گورنرشپ کی آفر تو دی گئ تھی اب مواصلات کی وزارت بھی مل گئ,
جس طرح نواز زرداری پر کرپشن, نااہلی اور جیل جانے کی تلوار لٹکی تھی کسی وقت میں تو کپتان کو بھی ان مشکلات سے گزرنا ھوگا,
اچھا سپورٹرز ہو یا قریبی ساتھی کپتان کے دائیں بائیں لوگ, عدم برداشت کے نظریے پر کاربند نظر آرہے ہیں , ایک اور چیز جو اس ملک ملک میں بہت اچھی طرح سے بکتا ہے , امریکہ مخالف نعرہ, مذہب کا سہارا ہو یا سہانے خواب دیکھانا, اور لوگ اس کو خریدتے بھی ہیں اور ساتھ بھی دیتے ہیں,
تین سال تک مہنگائی, بے روزگاری , سیاسی و معاشی عدم استحکام عروج پر تھا لیکن کسی کو کچھ نظر نہیں آرہا تھا, جیسے ہی اپنی حکومت چلی گئ اب نظر صاف ہوا, جو کہ دراصل تین سال میں سرمایہ داروں ,جاگیرداروں اور جرنیلوں کے مفادات کو تحفظ دینے کا نتیجہ ہے,
کپتان گرچہ کھل کر تو نہیں کہہ سکتا لیکن اس کا جنگ ان کے ساتھ ہے کہ جنہوں پہلے لاکر کرسی دلائی اور پھر ڈبودیا ,
کپتان کو یہ بھی ماننا پڑیں گا کہ ڈالر کو جو پر لگے ہیں, گیس, تیل بجلی کی قیمتوں کا مسلہ ہے تو یہ سارے تحفے کپتان کی حکومت کے ہیں , جبکہ موجودہ حکومت کے لیئے بڑی چیلنج ہے-
ہاں اگر کپتان صاب آئیندہ انتخابات سے پہلے جیل نہیں گئے, نا اہل نہیں ہوئے, نواز کی طرح باہر نہیں بیجھوایا گیا اور سلیکٹرز بھی سارے معاملات سے واقعی میں نیوٹرل ھوگئے تو آنے والے انتخابات چاہے جب بھی ہو, کل ہو, ہفتے بعد ہو یا سال بعد, پی ٹی آئی بھرپور طاقت سے آسکتی ہے-
آخر میں یہ بتاتا چلوں کہ عمران خان/تحریک انصاف ہو, مولانا ہو یا جماعت اسلامی , سب نے آئیندہ انتخابات کے لیئے کمپئین شروع کر رکھا ہے, کوئی امریکہ مخالف اور امورٹڈ نامنظور کا نعرہ بھیجے گا , کیونکہ مدینے والا فلاف ہوا, کوئی مذہبی کارڈ استعمال کریں گا اور کوئی اینٹی سلیکٹڈ کا نعرہ لگائے گا,
آنے والے وقت میں اپوزیشن کے ساتھ دو آپشن ہونگے, یا تو سیٹ ایڈجسمنٹ اور پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے انتخابات کنٹیسٹ کرنا جو کہ ناممکن نظر آرہا ہے یا اسٹبلشمنٹ کی آشیرباد, ورنہ پی ٹی آئی اکثریت لائے گی-
ذیادہ دور نہیں جب پی پی پی, نون لیگ اور جے یو آئی ایک دوسرے کی مخالفت کریں گے اور کچھ کی تحریک انصاف سے اتحاد بھی متوقع ہے, صوبائی سطح پر۔
عوام کو یہ سوچنا ھوگا کہ کیا واقعی سیاست دان عوامی خدمت کرنا چاہتے ہیں یا اقتدار کا نشہ چڑھا ہے سب کو, یہ سوچنا ھوگا کہ دعوے تو سب کررہے ہیں لیکن یہ اپنے اقتدار کو دوام, سرمایہ داروں اور سامراجی طاقتوں کے آلہ کار ہیں یا غریب , مزدور اور نچلے طبقے کے خدمت گزار۔
غریب, مزدور اور نچلے طبقے کا مستقبل انکے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں