ڈاکٹر عطا الرحمن نے پروفیسر پرویز امیر علی ہود بھائی کے نام ایک ای میل لکھی، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں، ان کی زندگی کے دن تھوڑے ہیں اور وہ پرانی باتیں بھلا کر تمام پرانی ناراضیاں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس ای میل کے جواب میں پرویز ہود بھائی نے جو ای میل ارسال کی وہ بعض لوگ سوشل میڈیا پر بھی شیئر کر رہے ہیں۔ ’جدوجہد‘ نے اس خط و کتابت بارے پرویز ہود بھائی سے تصدیق کرنے کے بعد ’قارئین جدوجہد‘کے لئے اس کو اردو میں ترجمہ کیا ہے (اس بارے میں پرویز ہود بھائی نے ’دی بلیک ہول‘ میں دئیے اپنے ایک لیکچر میں بھی ذکر کیا ہے۔ یہ لیکچر اس لنک پر موجود ہے)۔ مدیر
ڈاکٹر عطا الرحمن کی ای میل بنام پرویز ہودبھائی
”ہمارے باہمی اختلافات لگ بھگ بیس سال سے چل رہے ہیں۔ مہذب دنیا میں یہ معمول ہے کہ اختلاف رائے کے باوجود بھی ایک دوسرے کے ساتھ مہذب انداز میں پیش آیا جائے۔ بعض اوقات ہمارے درمیان ہونے والا مکالمہ ان حدود دسے آگے نکل گیا۔ میں 80 سال کا ہو گیا ہوں اور صحت بھی گر رہی ہے۔ میں دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے تمام ناراضیاں دور کرنا چاہتا ہوں۔ آپ سے بحث مباحثے کے دوران اگر میں نے کبھی بھی آپ کے جذبات کو کسی بھی صورت ٹھیس پہنچائی ہو تو میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں اور چاہتا ہوں کہ جو ہو چکا اسے بھلا دیا جائے“۔
پرویز ہود بھائی کی جوابی ای میل
ڈئیر ڈاکٹر عطا الرحمن
آپ کی ای میل سے پتہ چلا کہ آپ بیمار ہیں تو مجھے دکھ ہوا۔ یہ کہ آپ ”تمام ناراضیاں“ دور کر نا چاہتے ہیں اور اپنی وفات…جو آپکی تحریر سے لگتا ہے کہ دور نہیں…سے پہلے چاہتے ہیں کہ ”جو ہو چکا اسے بھلا دیا جائے“۔ آپ کا یہ جذبہ قابل قدر ہے۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو اس طرح کی کسی ناراضی یا تلخی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ہم دونوں کے بیچ کوئی ذاتی جھگڑا نہیں تھا۔ اگر اس کے باوجود آپ کو یقین نہیں آتا تو میں حلفاً کہتا ہوں کہ ”مسمی پرویز ہودبھائی کوڈاکٹر عطا الرحمن سے کسی قسم کی پرخاش نہیں کیونکہ انہوں نے کبھی ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا ہو گا جس سے میرا نقصان مقصود ہوتا“۔
یہ کہنے کے بعد مجھے کہنے دیجئے کہ میرے خیال میں اکیلے آپ کی ذات پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کی تباہی کی ذمہ دار ہے۔ یہ تباہی اس قدر شدید ہے کہ مستقبل قریب میں اس کے اثرات کم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ طاقت، اثر و رسوخ اور پیسے کے اندھا دھند تعاقب میں آپ نے دھوکے بازی، جھوٹ، اور فراڈ کا ہر ہتھیار استعمال کیا۔ اکیڈیمک طور پر بھی، مالی طور پر بھی۔ جو نسل ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی، وہ بھی آپ پر لعن طعن کرے گی۔
کسی بھی کامیاب سیلز مین کی طرح، جسے اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ وہ خراب سیب بیچ رہا ہے، آپ نے ترقی اور سائنس کے نام پر ایسے کتنے ہی سادہ لوح لوگوں کو پھانسا جنہیں با آسانی بے وقوف بنایا جا سکتا تھا۔ پہلے جنرل مشرف، پھر عمران خان کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے آپ اوپر پہنچے۔ اس کے بعد اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر آپ نے پانی کی طرح ایسے منصوبوں پر پیسہ بہایا جو آپ کے من کو بھائے اور یوں ایسے ضروری منصوبے جہاں سرمایہ کاری کی اشد ضرورت تھی، محروم رہ گئے۔ بطور چیئرمین ایچ ای سی جب آپ کا عروج تھا، اپنی انا کی تسکین کے لئے آپ نے اپنے اور سہیل نقوی کے پوسٹر پورے اسلام آباد میں لگوائے۔
اب جبکہ عمران خان رخصت ہو گئے ہیں اور نئی حکومت نے آپ کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی تو یقینا آپ پریشان ہوں گے۔ دس سال تک اوپر بیٹھنے اور بعض دیگر حیثیتوں میں حاصل اثر و رسوخ رکھنے کے بعد ہائر ایجوکیشن کے حوالے سے آپ مندرجہ ذیل ورثہ چھوڑ کر جا رہے ہیں:
یونیورسٹیوں میں بدعنوانیوں کے ایک ایسے نظام کی ابتداکرنااور پروان چڑھانا جس کے نتیجے میں اکیڈیمک اہلیت بے معنی ہو گئی اور نمبر گیم اہم ہو گئی: آپ نے بھی ترقی کے لئے یہی حربہ استعمال کیا۔ آپ نے 27 کتابیں اور درجنوں مقالے (آپ کے سی وی کے مطابق) ایک ہی سال میں شائع کئے۔ یہ مطبوعات بینتھم سائنس پبلشرز نے شائع کیں۔ یہ بدنام زمانہ اشاعت گھر کراچی یونیورسٹی سے چلتا ہے۔ آپ اور اقبال چوہدری اس سے مالی طور پر مستفید ہوتے رہے ہیں۔ آپ کا شکریہ کہ اب پاکستانی یونیورسٹیوں میں بدعنوانی ایک معمول بن چکی ہے۔ کوئی حقیقی اکیڈیمک پاکستانی یونیورسٹی میں نہیں پڑھانا چاہے گا کیونکہ اس کا مقابلہ دھوکے بازوں سے ہوتا ہے اور دھوکے باز ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔
پاکستان کی سائنسی پس ماندگی کا حل زیادہ سے زیادہ پی ایچ ڈیز کرانا: اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں پی ایچ ڈی نہ صرف بے روزگار پھر رہے ہیں بلکہ وہ اس قابل بھی نہیں کہ انہیں نوکری پر رکھا جائے۔ ان کی اکثریت کو اپنے شعبے کی بنیادی باتوں پر بھی عبور حاصل نہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اعلیٰ ترین نوکری ان کا حق ہے۔ ایسے ہی کئی پی ایچ ڈیز ملک بھر میں پڑھا بھی رہے ہیں جنہوں نے سائنس کی تعلیم کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ شائد ہی کوئی اور ملک ہو گا جہاں یونیورسٹی کی سند اس قدر بے وقعت ہو چکی ہو۔ انتہائی ذہین اور اپنے طور پر سیکھنے والے ہی پاکستان میں پروفیشنل بن سکتے ہیں، باقیوں کا مستقبل تاریک ہے۔
ایسی نئی یونیورسٹیوں کی بہتات جو یونیورسٹی کی توہین ہیں: آپ کے اکسانے پر کئی نئی یونیورسٹیاں بنائی گئیں یا کالجوں کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ آپ کو معلوم تھا کہ یہ یونیورسٹیاں حقیقی اکیڈیمک ادارے نہیں بن سکیں گی مگر آپ توایک صاحب بصیرت انسان نظر آنا چاہتے تھے۔ جب آپ نے گذشتہ سال عمران خان کو وزیر اعظم ہاوس میں یونیورسٹی بنانے کا منصوبہ پیش کیا تو کیا آپ کے ضمیر نے ملامت نہیں کی؟ یہ منصوبہ چونکہ اب ترک کر دیا جائے گا لہذا شکر ہے کہ تیس ارب روپے بچ جائیں گے۔
انتہائی مہنگے ایسے سائنسی سامان کی درآمد جس کے بارے آپ جانتے تھے کہ وہ بے سود ہے: ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے خریدا گیا سائنسی سامان اور آلہ جات ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں بکھرے پڑے ہیں۔ کیا یہ خیال آپ کو کبھی نہیں آیا کہ یہ سارا پیسہ برباد کرنے کی بجائے یہ رقم اس غریب ملک کی خدمت میں بھی لگائی جا سکتی تھی؟ آپ ان لوگوں کے ساتھ ملے ہوئے تھے جنہوں نے اس سامان کی درآمد سے فائدہ اٹھایا یوں آپ بھی شریک جرم ہیں۔
مقبولیت میں اضافے کے لئے فرضی سائنس کو فروغ دینا: انتہائی شرمناک بات ہے کہ آپ نے روزنامہ ڈان میں لکھا کہ ہارپ ایک ایسا امریکی ہتھیار ہے جس کی مدد سے موسمی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں اور پاکستان میں سیلاب اور زلزلے امریکی سازش کا نتیجہ تھے۔ انسانی خوف اور جبلت سے وابستہ سفلی جذبات کو ہوا دے کر آپ نے اپنے رہنما عمران خان کی پیروی کی جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ انہیں امریکہ نے سازش کر کے نکالا۔
ڈاکٹر عطا الرحمن: آپ کو بہت سے سوالوں کا جواب دینا ہے مگر مجھے نہیں۔ برنی ماڈوف نے جو کچھ امریکہ کی وال اسٹریٹ کے ساتھ کیا، وہی کچھ آپ نے پاکستان کی ہائر ایجوکیشن کے ساتھ کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کی طرح آپ کو بھی ٹیلی ویژن پر آ کر پاکستانی عوام کے سامنے اپنے جرائم کا اعتراف کرنا چاہئے، پھران سے معافی مانگنی چاہئے۔ کم از کم آپ کو ان لوگوں سے تعاون کرنا چاہئے جو تحقیقات کے لئے آپ کے پاس آ رہے ہیں۔
دریں اثنا، اچھی صحت کے لئے میری نیک تمنائیں اور میری خواہش ہے آپ کافی سال زندہ رہیں تا کہ عمر بھر کئے گئے جرائم کا کفارہ ادا کرنے کا موقع مل سکے۔