Baam-e-Jahan

سابق ریاست نگر سے انسانی باقیات کو کیسے چرایا گیا؟

بشریات

جرمن ماہر بشریات و آثار قدیمہ ڈاکٹر جرگین وسیم فریمگین نے برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے دوران ۱۸۸۲ میں سابق ریاست نگر سےچرائے گئے انسانی باقیات اور نوادرات کی چوری کو ایک ایتھنوگرافک مونوگراف کی شکل میں بیان کیا ہے۔

زیر نظر مضمون انگریزی میں ڈاکٹرجرگن وسیم فریمبگن کے نئی شائع شدہ ایتھنوگرافک مونوگراف At the Foot of the Fairy Mountain. The Nagerkuts of the Karakoram/Northern Pakistanمیں شامل ہے اور ڈاکٹر صاحب کی خصوصی اجازت سے قارئین کی سہولت کے لیے نوجوان محقق اور لکھاری صفدر حسین برچہ نے اسے اردو میں ترجمہ کیا ہے



تحریر: ڈاکٹر جرگن وسیم فریمبگن، رجمہ: صفدر حسین برچہ


انیسویں صدی میں اناٹومی( کالبد شناسی) اور حیاتیات سے وابستہ ، سائنسدانوں نے طبعی بشریات کےشعبہ میں ترقی کی اور انسانی اجسام، خاص طور پر کھوپڑیوں کی پیمائش کرکے جسمانی اقسام کا تقابلی مطالعہ کرنے کی کوشش کی۔ تاہم کچھ دہائیوں سے ارتقاء کی بشریات یا انسان کی تاریخ، حیاتیاتی ہستی کی حیثیت سے جدید جینیاتی تجزیہ میں شامل ہواہے۔۔ لیکن ان دنوں جسمانی پیمائش کرنے والے ماہرین بشریات کے اینتھروپومیٹری (مردم سنجی )کے ذریعے جمع کیے گئے خام ڈیٹا نے ارتقاء پسندوں کو ‘نسل یا نژاد’اور ثقافت میں ربط اور انسان کی درجہ بندی قائم کرنے کا اہل بنایا۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے ‘ریس یا نسل’کی اعلیٰ اور ادنیٰ  نسل کے بنیادوں پردرجہ بندی کی۔ ’ریس یا نسل‘ کا زمرہ درحقیقت یورپی روشن خیالی کی اقدار سے متصادم ہے۔ آج ، ‘نسل’ کا تصور فرسودہ ہو چکا ہے۔

ڈاکٹر جرگن وسیم فریمبگن، صفدر حسین بر

ہنزہ کے بالمقابل واقع ماضی کے  نیم خودمختار ریاست نگرکے دارالحکومت اُیُم  نگر میں یورپی کوہ پیماؤں نےڈھٹائی کے ساتھ رات کے اندھیرے کی آڑ میں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہیڈ ہنٹرز ( سروں کے شکار گر)کے طور پر کام کیا۔ برطانوی نوآبادیاتی سلطنت کی افواج کی طرف سے لڑی جانے والی 1891 کی ہنزہ/نگر جنگ ( جنگیر ے لئی )کے تقریبا نصف سال بعد ،’اپنے دور کے سب سے بڑے کوہ پیما’ برطانوی مہم جو اور کوہ پیما سر مارٹن کانوے (1856-1937) نے حوصلہ مندی سےقراقرم مہم کی قیادت کی۔آپ نے نہ صرف شگر بلتستان تک ہسپر روٹ کو دریافت کیابلکہ مستقبل میں پہاڑی درہ کو عبور کرنے کے امکانات کو بھی حقیقت کا روپ دے دیا۔ 14 جون 1892کو ،(اُیُم نگر) (Uyum Nager )میں مقامی حکمران ، تھم ظفر خان کے پہلے شاہی مہمان بنے  اور بعد ازاں قلعہ بند گاؤں ( موجودہ بٹہ کھن)سے ملحقہ پرانے قبرستان کی چھان بین شروع کی۔ مسٹر کانوے نے اس واقعہ کا تذکرہ قراقرم ہمالیہ (لندن 1894-)  مہم جوئی اور ایکسپلوریشن پر مبنی سفرنامے میں انتہائی بے اعتنائی کے ساتھ کیا ہے:


پہلے دن کی دوپہر ،میں ٹہلنے کے لیے نکلا ، اور پولو گراؤنڈ کے اوپر مورین (مقامی۔ اُلُو شَبَرَن) پر چڑھ گیا ، اور اسی طرح گاؤں کے مشرقی جانب کھلی جگہ پر نکل پڑا۔ یہ قبرستان غربال کی طرح ہر عمر کی قبروں سے بھری ہوئی ہے۔ ان میں سے بہت سوں کےدہانے ، اطراف یا چھتیں گر چکی ہیں ، اور ہڈیاں جابجا بکھری ہوئی ہیں۔ میں نے ایسی دو کھلی قبروں کوچن لیا جو کہ قبرستان کے سب سے کہنہ قبر معلوم ہوتے تھے۔ ان میں کھوپڑیاں تھیں ان کھوپڑیوں میں سے دو  کوانگلینڈبحفاظت پہنچائے گئے ، اور اب یہ کھوپڑیاں کیمبرج کے میوزیم میں ہیں۔

کانوے کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ، اس مہم کے ارکان آرتھر میک کارمک (1860-1943) اور آسکر جوہانس ایکن سٹائن (1859-1921) نے پھر قبرستان کو لوٹ لیا اور دو انسانی کھوپڑیاں نکال لیں- نگر کٹس(Nagerkuts) نے اولین سیاح  ہونےکے ناطے مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن انہوں اس کا عوض اس قبیح اور مذموم حرکت کی صورت میں لوٹا دیا۔ برطانوی مصور اور پینٹر میککارمک نے اپنے سفرنامہAn Artist in the Himalayas  (لندن 1895-) میں تفصیل سے اعتراف کیا ہے:

جیک [آسکر جوہانس ایکن سٹائن] اور میں،نصف شب کوکھوپڑی جمع کرنے کے لیے اس جگہ پر چڑھ گئے۔ جہاں میں نے دو  (کھوپڑیوں)کو نشان زد کیا تھا جس کے بارے میں میں نے سوچا تھا کہ گاؤں کے لوگوں کو دکھائے بغیر آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے گھبراہٹ محسوس ہورہی تھی مگربھوتوں کو دیکھنے کے کسی احساس سے نہیں ، بلکہ مقامی لوگ ہمیں دیکھ سکتے تھے ، لہذا ، جیک ارد گرد دیکھ رہا تھا ، میں نے اپنےہاتھ سے(کھوپڑیوں کو) برادہ اور پتھروں کے ڈھیرمیں تلاش  کرنا شروع کیا ، جن سے قبریں بنائی گئی تھیں ، آخر کاردو کھوپڑیاںمل گئیں جو تقریبا سالم تھیں۔ ریت اور دھول کو جھاڑتےہوئے ، ہم نے انہیں رومال میں باندھ دیا ، اور چپکے سے کیمپ میں واپس آگئے۔ کانوے نے انہیں پیک کر کے ایک ڈبے میں بند کر دیا اور اگلی صبح انہیں گلگت بھیج دیا۔

مختلف کھوپڑیاں جو شمالی پاکستان سے چوری ہوئی ہیں انہیں مناسب وقت پر متعلقہ مقامی لوگوں کو احترام کے ساتھ واپس کیا جانا چاہیے۔

ڈاکٹر جرگین وسیم فریمگجن

اپنے سفرنامےمیں ، کانوے نے اس چوری کے بارے میں میک کارمک کی ایک ڈرائنگ بھی شامل کی ہے۔ ایک جرمن جغرافیہ دان ، ہرمن کریوٹزمان ، جنہوں نے اپنی کتاب ہنزہ میٹرز (سال اشاعت 2020-) میں اس تصویر کو مکمل سائز میں دوبارہ شائع کیا  ہے اس پرتنقیدی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتےہیں:“Arthur McCormick did not mind sketching his and his companion’s breach of decency and hospitality during the night before the reception by tham Zafar Zahid Khan in Uyum Nagar”            

نگر سے دو کھوپڑیوں کی تفصیل’ پر ایک مضمون بعد میں 1894 میں ڈبلیو لارنس ایچ ڈک ورتھ نے شائع کیا تھا طبعی بشریات کے سنہری دور میں ، جو بیسویں صدی کے وسط تک جاری رہا ، عجائب گھروں اور نجی طور پرآثار جمع کرنے والوں کے لیے تمام براعظموں سے کھوپڑیوں کو اکٹھا کرناایک  عام مشغلہ تھا۔ ایک مثالی واقعہ جرمن پینٹر اور ڈارونسٹ ، میکس گیبریل وان میکس (1840-1915) کا ہے ، جس نے دنیا بھرسے کھوپڑیوں کو وسیع پیمانے پرانسانی کھوپڑیوں کو جمع کیا تھا ، مجموعی ذخیرہ کچھ ممیوں کے ساتھ 60,000سےزائد اشیاء پر مشتمل تھا ، اب  اس ذخیرہ کا بیشتر  حصہ جرمنی کے شہر مانہیم میں قائم  ریس اینجل ہورن میوزیم کی ملکیت ہے۔۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دوسرے محققین ، جیسے،  , Sir Aurel Stein،G.W. Leitner اور D.L.R. لوریمر ،موجودہ گلگت بلتستان کے طول و عرض میں آباد ، بروشو اور درد افراد(ان میں نگر کٹس یا نگر کچ بھی شامل ہیں) کا اینتھرو پو میٹرک ڈیٹا لینے میں پیش  پیش رہے۔جہاں تک میں جانتا ہوں ،انہوں نے کسی بھی انسانی کھوپڑی کے باقیات کو ‘جمع’ کرنے سےاحتراز کیا۔

مختلف کھوپڑیاں جو  شمالی پاکستان ( موجودہ گلگت بلتستان )سے چوری ہوئی ہیں انہیں مناسب وقت پر اور متعلقہ مقامی باسیوں کو مناسب احترام کے ساتھ واپس کیا جانا چاہیے۔ کم از کم ” اُیُم نگر "کی دو کھوپڑیوں کے متعلق درست طور پر طے کیا جاسکتا ہے کہ وہ کس قبرستان سے چوری ہوئے تھے۔ اس طرح ، جولائی 2021میں ، میں نے انگلینڈ میں ان کے ٹھکانے کو تلاش کرنے کے لیےقدم اٹھایا پہلے پہل برطانیہ کے کیمبرج میں آرکیالوجی اینڈ اینتھروپولوجی میوزیم (ایم اے اے) پہنچا ، جو کہ کھوپڑیوں کے بارے میں کوئی دستاویزات نہیں رکھتا( سوال تو بنتا ہے)۔ اس کے بعد میں نے کیمبرج یونیورسٹی آف سنٹر آف ہیومن ایولیوشنری سٹڈیز میں دی ڈک ورتھ لیبارٹری کے کیوریٹر ڈاکٹر ٹریش بیئرز سے رابطہ کیا۔ اس نے فوری طور پر 12جولائی 2021 کو جواب دیا کہ کیس کی جانچ کی جائے گی۔ تین ماہ بعد میں نے استفسار کیاتو ڈاکٹر بیئرز نے 14 اکتوبر 2021کو جواب دیا اور معذرت کی کہ یہ ادارہ وبائی کورونا بحران اور ڈائریکٹر شپ کی تبدیلی کی وجہ سے ٹھیک سے کام نہیں کر سکا ہے۔ اس نے مزید لکھا  کہ’لیبارٹری کے ذخیرے میں ہمارے پاس انسانی باقیات ہیں جن میں آپ دلچسپی رکھتے ہیں’ اور  ایک جملہ کہا: ‘براہ کرم آپ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اس طرح کی درخواستوں میں وسیع تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ہمارے پاس باقیات کی ذمہ داری خود آرکائیو ریسرچ کے ذریعے ہوتی ہے اگر ان باقیات کےکوئی بھی زندہ اولاد  موجود ہوں تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ ان کی خواہشات کیا ہیں۔ ” ہاں ، بالکل ، لیکن میں نے پورے کیس کو بڑی محنت کے ساتھ ڈک ورتھ لیبارٹری کوتفصیل سے لکھاتھا جس میں چوری کے حوالہ جات کے ساتھ ساتھ دو کھوپڑیوں کی اشاعت بھی شامل ہے۔

18دسمبر 2021 کو ، آخر کار مجھے نئے ڈائریکٹر ، ڈاکٹر ایما پومرائے کی طرف سے ایک ای میل موصول ہوا، جس نے وعدہ کیا تھا کہ ‘ڈک ورتھ لیبارٹری آرکائیوز کی مکمل جانچ کرے  گی باقی حسب ضابطہ کیمبرج یونیورسٹی  اور ڈک ورتھ لیبارٹری انسانی باقیات کی نگرانی کی منتقلی کے حوالے سے کسی بھی ممکنہ تحقیقات کے لیےہمیشہ  کھلا ہے۔ کوئی بھی  انکوائری یونیورسٹی کی رجسٹری میں جمع کرائی سکتی ہے۔

صفدر حسین برچہ کا تعلق نگر سے ہے۔ وہ علاقائی نسلیات ،بشریات اور تاریخ میں تحقیق و تالیف کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔ اور مذکورہ شعبوں میں غیر ملکی محققین کے ساتھ فیلڈ ورک کے حوالے سے وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کے کئی تحقیقی مقالے اور تبصرے ملکی اور بیرونی جرائد میں شائع ہوچکی ہیں۔۔.

۔ 

اپنا تبصرہ بھیجیں