Baam-e-Jahan

ذہنی صحت کے بڑھتے مسائل کے پیش نظر غذر میں ایمرجنسی نافذ کی جائے، گرینڈ مرکہ کا اعلامیہ

شیر نادر شاہی


غذر(شیر نادر شاہی) گزشتہ پانچ سالوں میں مجموعی طور پر گلگت بلتستان میں دو سو سے زیادہ خودکشیاں ہوئی ہیں جن میں 60 فیصد سے زیادہ خواتین اور 40 فیصد سے کم مرد شامل ہیں۔ گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ خودکشیاں ضلع غذر میں ہوچکی ہیں۔ اگر ہم گزشتہ چالیس دنوں کی بات کریں تو اس عرصے میں 18 خودکشیاں ہوئی ہیں جن میں چار خودکشی کے بجائے قتل کے کیسز نکلے۔
ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے غذر کے نوجوانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اتوار کے روز ضلعی ہیڈ کوارٹر گاہکوچ میں ” غذر کے نوجوانوں کی ذہنی صحت کے حوالے سے گرینڈ مرکہ” کے نام سے اجتماع کا انعقاد کیا جس میں ضلع غذر کے چاروں تحصیلوں سے سات سو سے زیادہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے شرکت کی جو کہ ایک تاریخی مرکہ تھا۔ اس تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا اس کے بعد اس مرکہ کے چیف ارگنائزر عنایت بیگ نے مرکے کی اہمیت کے حوالے سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ مرکہ ایسے حالات میں ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا اور نوجوانوں میں پھیلی مایوسی کی فضا کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

مرکہ کے چیف آرگنائزر عنایت بیگ خطاب کر رہے ہیں


اس کے بعد تمام تحصیلوں سے دس دس نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو دو دو منٹ اہم ایشوز کے حوالے سے بولنے کا موقع دیا گیا جس کو کتھارسس کا نام دیا گیا جس کے دوران نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے دل کی بھڑاس نکالی۔ مختلف لڑکیوں اور لڑکوں نے اپنی ساتھ آنے والے واقعات اور اپنی زندگی کے تجربات کا کھل کر اظہا کرتے ہوئے کہا کہ سماجی ناہمواریاں، معاشی بدحالی، روزگار کے مواقعے نہ ہونا، سماج کی طرف سے لگائے گئے بے جا پابندیاں، مذہبی اور تعلیمی ادارے، ماں باپ اور بھائیوں کے ساتھ دوستانہ ماحول کا میسر نہ آنا، حکومتی و نجی دفاتر میں میں ہونے والی ناانصافیاں، ہاسٹلز میں لڑکیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک، چھوٹی عمر میں زبردستی شادیاں اور دیگر ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے خودکشیاں بڑھ رہی ہیں۔ اس کے برعکس کچھ نوجوانوں نے کہا کہ معاشرے میں میسر آنے والی آزادی کا غلط استعمال، موبائل اور سوشل میڈیا کا بے جا استعمال اور مذہب سے دوری ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے معاشرہ تباہی کی طرف جارہا ہے۔

معروف دانشور عزیز علی داد شرکا سے خطاب کر رہے ہیں


چالیس نوجوان خواتین اور مردوں سے ان کے دل کی باتیں سننے کے بعد پینل میں موجود مہمانان، سٹیک ہولڈرز، سماجی و دیگر اداروں کے سربراہاں اور سیاسی رہنماؤں کو بولنے کا موقع دیا گیا۔
اس دوران بات کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی نذیر احمد ایڈوکیٹ نے کہا کہ نوجوان اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرے، اگر غربت خودکشیوں کی وجہ ہوتی تو دنیا کے غریب ترین لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز نہیں ہوتے بلکہ وہ بھی خودکشی کرتے۔ انہوں نے کہا کہ میری نوجوانوں سے گزارش ہے کہ وہ بہادر بنے اور ڈٹ کر زندگی کی نا ہمواریوں کا مقابلہ کرے اور حکومتی اداروں میں اگر ان کے ساتھ زیادتی ہوتی ہیں تو وہ ہم سے رابطہ کریں۔
اس دوران ممبر جی بی اسمبلی گلگت بلتستان نواز خان ناجی نے کہا کہ ہمارے اباء و اجداد غربت کی زندگی گزارتے تھے، ہماری مائیں نہ صرف گھر کے کام کرتی تھیں بلکہ پہاڑ پہ جا کر لکڑی بھی لے کر آتی تھیں اور بچوں کو بھی پالتی تھیں لیکن وہ لوگ اپنی زندگیوں کو خوبصورت بنا کر جیتی تھیں آج آپ لوگ آرام و آسائش کی زندگیاں گزار رہے ہیں پھر بھی زندگی سے مایوسی اور خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ناجی کا کہنا تھا کہ ہماری زندگیوں میں ایک دم تبدیلیاں آرہی ہیں، نہ ہم مکمل انگریز بن گئے ہیں اور نہ پرانے زمانے کے قبائل کے لوگ بلکہ ہم ان دونوں کے بیچ ایک تیسری شے بن چکے ہیں جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لڑنا سیکھو، جو آپ کے ساتھ ظلم کرتا ہے اس کے ساتھ لڑو اور بغاوت کرو۔


پینل میں موجود ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان جی بی کے کوارڈینیٹر اسرار الدین اسرار نے کہا کہ جو بھی مسائل آپ کے ہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کریں اور اچھے انداز میں ان کو حل کرنے کی جانب آگے بڑھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک دوسرے سے رابطہ کاری کے مختلف ذرائع ہیں، مثبت انداز میں ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے کی کوشش کرے۔ایسے ادارے بھی ہیں جن کے پاس جا کر اپنے مسائل بتائیں۔
گرینڈ مرکہ کے آخر میں نوجوانوں کی طرف سے ایک چارٹر آف ڈیمانڈ سٹیک ہولڈرز کے سامنے پیش کیا گیا۔
اعلامیہ
١-غذر میں ذہنی صحت کی ایمرجنسی نافذ کیا جائے۔
٢-یہ معرکہ نوجوانوں کے ذریعے اپنی مدد آپ کے تحت کاونسلنگ کی حمایت کرتا ھے۔
٣-غذر میں ذہنی صحت سے متعلق مقامی کونسلرز کی ایسی کھیپ تیار کرنے کی ضرورت ھے۔جو مقامی سطح پر لوگوں کی مدد کرسکیں۔
٤-غذر کے تمام تحصیلوں میں ذہنی صحت کے ایمرجنسی سے نمٹنے کے لٸے ہاٹ لاٸن قاٸم کیا جاۓ اور وہاں کونسلنگ کیلٸے تربیت یافتہ عملے کو تعینات کیا جاۓ۔
٥-تمام حساس نوعیت کے کیسز کو ان تمام اداروں کو ریفرکیا جاۓ جو ذہنی صحت کے حوالے سے کام کر رہے ھیں۔ مثال کے طور پر سوشل وہلفٸیر ڈیپارٹمنٹ۔
٦۔ذہنی صحت سے متعلق کیسز کو نمٹانے کیلٸے ذسٹرکٹ ہیڈکوارٹر غذر میں ایک فوکل پواٸنٹ بنایا جائے۔
٧۔تعلیمی اداروں میں ذہنی صحت سے مطلق معاملات کی نشاندہی کیلٸے وقتاً فوقتاً اسکریننگ کی جائے۔
٩۔فورنزک لیب کا قیام گلگت بلتستان سطح پر عمل میں لایا جاۓ تاکہ خودکشی کے کیسز کی تصدیق کیاجاسکیں, قتل اور خودکشی میں تفریق کیا جاسکیں۔
١٠۔پولیس کو اس قابل بنایا جاۓ کہ وہ ساٸنسی اور نفسیاتی بنیادوں پر خودکشی یا قتل کی تحقیقات کرسکیں۔
١١۔خودکشی اور ذہنی صحت کی تحقیق صرف متعلقہ شعبے میں مصدقہ اداروں اور ماہرین کے ذریعے کیا جائے۔
١٢۔ذہنی صحت کے معاملات کو مقامی سطع پر لوگوں کے ذرٸعے سے ہی نمٹایا جاٸیگا۔اور انکی رہنمائی متعلقہ شعبے کے ماہرین کرینگے۔
١٣۔ذہنی صحت اور ذندگی کی مہارتوں کونصاب کا حصہ ھونا چاہٸے۔فی الوقت نوجوانوں کو ذندگی کی مہارتوں کی تربیت دی جائے۔
١٤۔ ذہنی صحت کے حوالے سے ٹیچرز پیرنٹس ایسوسئیشن کے درمیان باقاعدگی سے میٹنگز ہونی چاہیے۔
١٥۔ ذہنی صحت سے مطلق کیسز کی نشاندہی کیلٸے ارلی وارننگ سسٹم متعارف کروایا جائے۔
١٦۔ذہنی صحت کے حوالے سے نوجوانوں اور لوگوں میں آگاہی کیلٸے ویڈیو اینیمیٹڈ پیغامات تیار کیے جائیں۔
7پولیس، میڈیا، والدین اور مذہبی اداروں کو ذہنی صحت کے بارے میں مفصل آگاہی دی جائے۔
١٨۔جنسی ہراسانی اور منشیات کے استعمال کو روکنے کے حوالے قانون سازی کی جائے۔
١٩۔گھریلو تشدد اور کم عمری شادی کو قانون سازی کے ذریعے روکا جائے۔

نوجوانوں کو تفریح کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

مرکہ کے شرکاء

اپنا تبصرہ بھیجیں