Baam-e-Jahan

کوہ پیمائی کے بارے میں غلط تاثرات

مریم مجید ڈار


کوہ پیمائی کی دنیا کے اصول و ضوابط کے مطابق چوٹی پر پہنچنے کو ایک "کامیاب کوشش” تب تک نہیں کہا جا سکتا جب تک کوہ پیما زندہ سلامت واپس بیس کیمپ تک نہ پہنچ جائے لہذا کوہ پیما اور ان کے چاہنے والے بیس کیمپ واپسی تک مسلسل ایک اعصاب شکن صورت حال میں ہوتے ہیں اور جب بات ہو نانگا پربت جیسے پہاڑ کی تو ایسے میں کوئی بھی لمحاتی حادثہ ، ویدر ونڈو کی خرابی، حتی کہ ایک غلط جگہ محض پاوں پھسل جانا ہی کتنے تباہ کن نتائج لا سکتا ہے، نانگا پربت پر کوہ پیمائی کی کوششوں سے آگاہی رکھنے والے لوگ اس سے بخوبی واقف ہیں۔


شہروز نے کل اپنے ساتھی فضل کے ہمراہ نانگا پربت سمٹ کیا اور واپسی پر ان کا رابطہ بیس کیمپ سے ٹوٹ گیا۔ اس فیلڈ سے تعلق رکھنے والا ہر انسان شہروز اور ان کے گائیڈ فضل کے لیے پریشان اور دعاگو تھا۔ کیمپ تھری پر کسی خیمے کے بغیر رات گزارنے کے بھیانک تصور کا خوف شہروز کے والد کے لہجے سے ٹپک رہا تھا۔
اچھی خبر یہ ہے کہ دونوں کوہ پیما خیریت سے ہیں اور حکام کے مطابق انہیں دوربین کی مدد سے نیچے اترتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ گلگت بلتستان ان دنوں بارشوں، سیلابوں اور لینڈ سلائڈنگ کی زد میں ہے اور انتظامیہ کو ان سارے معاملات کو بھی سنبھالنا ہے۔ خراب موسمی صورت حال کے سبب ریسکیو آپریشن شروع نہ ہو سکا تو گالیوں کی شوقین قوم نے مختلف پلیٹ فارمز پر انتظامیہ، کوہ پیماوں، ان کے والدین پر فتوے لگانے اور گالیاں بکنی شروع کر دیں۔ کچھ کو اعتراض تھا کہ ہمارے پیسے اب ان فضول انسانوں کے سرچ آپریشن پر خرچ ہوں گے، حالانکہ کوہ پیما ایکسپیڈیشن سے قبل لاکھوں روپے بطور سکیورٹی حکومت پاکستان کو جمع کرواتے ہیں تا کہ کسی حادثے کی صورت میں فضائی آپریشن اور ریسکیو مشن فورا شروع کیا جاسکے۔
کچھ نابغے فرما رہے تھے کہ یہ پیسہ فضول اور جان لیوا کاموں میں خرچ کرنے کے بجائے غریبوں کو دینا چاہئیے اور اگر گھومنے پھرنے کا زیادہ شوق ہے تو "تبلیغ” پر چلے جانا چاہئیے، حج ، عمرہ زیارتیں وغیرہ کرنی چاہئیں۔ علی سدپارہ کی ٹیم جب کے ٹو پر حادثے کا شکار ہوئی تو انہیں بھی جی بھر کر گالیاں دی گئیں۔ حالانکہ علی سدپارہ ایک ہائی آلٹیٹیوڈ پورٹر تھے جو اپنی جان کو کسی شہرت یا ایوارڈ کے لیے نہیں بلکہ اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے خطرے میں ڈالتے تھے۔ شہروز کاشف کے والد ایک آسودہ حال انسان ہیں جو بیٹے کے شوق کی خاطر روپیہ خرچ کرتے ہیں، قومی خزانہ نہیں لوٹتے۔
ہماری قوم وہ قابل رحم ہجوم ہے جو سیاسی لٹیروں کی خاطر جان لینے اور دینے میں کوئی عار نہیں سمجھتے، مذہب کے نام پر قتل و غارت میں لذت محسوس کرتے ہیں اور کسی بھی صحت مند کھیل اور مثبت سرگرمی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یو ٹیوبرز تو خصوصا وہ مخلوق ہیں جو صرف اپنے چینل کی ریٹنگ اور ویوز اور سبسکرائبرز بڑھانے کے لیے سفاک سے سفاک حرکتیں کرتے ہیں اور انہیں متاثرہ شخص یا ان کے خاندان کے جذبات کی مطلق پرواہ نہیں ہوتی۔
امید ہے کہ شہروز جلد از جلد بخیریت بیس کیمپ پہنچ کر اپنے خاندان کو انتظار اور خوف کی اس سخت کیفیت جسے نکال لیں گے مگر اس سب کے بعد انہیں واقعی سوچنا چاہئیے کہ انہیں بطور کوہ پیما اپنا کیرئیر بنانے کے لئے دنیا کے کس ملک کا رخ کرنا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں