رپورٹ: گل حماد فاروقی
چترال :شہروں میں عام ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو سرپرائز دیتے ہیں۔ لیکن آج کل دہاتوں میں بھی سرپرائز دینے کا رواج عام ہوچکا ہے۔ایسا ہی سرپرائز ایک کیلاشہ خا تون جو یونان میں مقیم ہے، نے تین دہائیوں کی جدائی کے بعد وادی کیلاش کے بریر گاوں میں اپنے خاندان کو دی۔ یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کی ایک یونانی شہری سے پسند کی شادی ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ اپنے پیا کے دیس یونان میں جاکے بسنے لگی ۔ کسی بھی انسان کے لئے اپنے وطن اور رشتہ داروں سے دور زندگی گزارنا بڑامشکل ہوتا ہے۔ زئتوں بی بی بھی تین دہائی تک اپنے والدین اور خاندان سے مل نہ سکی۔
ایک روایت ہے کہ سکندر اعظم جب برصغیر پر حملہ آور ہوے اور اس خظے سے گزرے تو واپسی پر ان کی سپاہیوں میں سے کچھ یہاں رہ گئے تھے۔ کیلاش کے لوگ خود کو انہہی کی اولاد سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا یونان میں آنا جانا اور وہاں شادی بیاہ کرتے رہتےہیں ۔ ویسے بھی یونان ایک ترقی یافتہ ملک ہے جہاں کیلاش کی نسبت زندگی کی آسائشیں بہتر ہیں ۔
وادی کیلاش کے بریر گاؤں سے تعلق رکھنے والی خاتون زیتون بی بی (موئے کرویلہ )کی یونان کے ایک لڑکے کے ساتھ 32 سال پہلے پسند کی شادی ہوئی تھی ۔موئے کرویلہ کے ہاں دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی ۔ بتا یا جاتا ہے کہ پانچ سال پہلے اس کے شریک حیات وفات پا گئے تھے اور اب وہ اپنے بچوں کے ساتھ یونان میں رہتی ہیں ۔ مگر ان کے والدین چونکہ غریب تھے اور یونان جانے کیلئے ان کے پاس ویزہ اور ٹکٹ کا بھی مسئلہ تھا۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ انسان انسانیت سے ہے اور انسانیت احساس سے جڑی ہوئی ہے۔اگر کسی انسان میں دوسروں کے دکھ درد کا احساس اور درد نہ ہو وہ انسان کہلانے کے قابل نہیں۔ اسی احساس کے تحت وادی کے ایک سماجی کارکن تعلیم خان کیلاش ان کے لئے رحمت کا وسیلہ بن گئے۔ انہوں نے موئے کرویلہ کو اس کے خاندان سے ملاقات کروانے کی ٹھان لی۔
تعلیم خان نے بہت عرصے سے پلان کیا ہوا تھا کہ وادی کے لوگوں اور ان کے خاندان والوں کو سرپرائز دہے ۔ کیونکہ یہ پورا وادئی بریر اور رشتہ داروں کے لئے ایک قسم کا سرپرائز ہی تھا۔ جب زئتون بی بی (یونانی نام موۓ کرویلہ) کو لے کروہاں پہنچے تو یہ ان کے خاندان اور رشتہ داروں کے لئے معجزے کم نہ تھا۔
بتیس سال بعد جب اس کی اپنے والدین اور دیگر خاندان اور رشتہ داروں سے ملاقات ہوئی تو ان کی آنکھوں میں خوشی کےآنسو تھے۔ ان کے والدین نے اپنی بیٹی کی برسوں بعد اپنے گھر آمد پر مہمانوں کے ہمراہ کیلاش روایات کے مطابق پرتپاک استقبال کیاگیا ۔ ملاقات کے وقت کافی جذباتی مناظر بھی دیکھے گئے ۔
موئے کرویلہ کا کہنا ہے کہ مجھے یقین نہیں تھا کہ میں کبھی دوبارہ اپنےگاؤں جاؤں گی ۔ وہ خوشی سے نڈھال تھی ۔یہ اس کے لئے زندگی کا پرمسرت موقع تھا۔ وہ تعلیم خان کی تعریف کر رہی تھی کیونکہ اسےخاندان اور رشتہ داروں سے ملانے کا سہرا تعلیم خان کے سر جاتاہے جن کی کوششوں سے آج یہ ممکن ہوا کہ وہ اپنے پیاروں سے مل پائے۔
پورا وادی کیلاش کے لوگوں اور رشتہ داروں نے تعلیم خان اور ان کے ٹیم کو خراج تحسین پیش کیا۔ ی اد رہے تعلیم خان کیلاش اور اس کی ٹیم غریبوں کی علاج معالجے کے سلسلے میں مددبھی کرتے ہیں۔جس طرح سے وہ وادئی کیلاش کے لوگوں کی خدمت پیش پیش ر ہتا ہے۔ کیلاش کے لوگ ان پر فخر کرتے ہیں۔
گل حماد فاروقی چترال میں مقیم صحافی ہیں۔ وہ ہائی ایشیاء میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں اور دیگر مقامی، قومی اور بین الاقوامی اخبارات و جرائد کے لئے رپورٹ اور فیچر لکھتے ہیں۔