پہاڑوں کی بیٹی از پاویل لوکنتیسکی
مصنف: پاویل لوکنتیسکی
مترجم: خدیجہ عظیم
صنف: ناول، روسی ادب
صفحات: 387
ناشر: فکشن ہاؤس، مزنگ روڈ لاہور
پہاڑوں کی بیٹی، روسی مصنف پاویل لوکنتسکی کے ایک ناول کا ترجمہ ہے جسے خدیجہ عظیم صاحبہ نے پچاس کی دہائی میں اردو زبان کی قالب میں ڈھالا تھا جسے ماسکو کے پروگریسیو پبلیشرز نے شائع کیا تھا۔ پاکستان میں فکشن ہاؤس نے اسے دوبارہ جدید ڈیزائن کے ساتھ 1999 میں شائع کیا۔ خدیجہ صاحبہ نے اس کا ترجمہ کرکے ایک اچھے ناول کا اردو زبان میں اضافہ کیا ہے۔
کتاب میں موجود مصنف کے تعارف سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف “ادب برائے ادب” کی بجائے “ادب برائے زندگی” کی تحریک کے حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں "زندگی نے مجھے سکھایا کہ “ادب برائے ادب” کوئی چیز نہیں ہے۔ ادب کا وجود عوام کے لئے ہے۔ وہ انہیں کی خدمت کرتا ہے اور انہیں سے وجدان حاصل کرتا ہے۔ سچے ادیب کے سامنے عوام ۔ محنت کش عوام، مادی اور ذہنی اقدار کے خالقوں کے مفاد کے سوا کوئی دوسرا مفاد نہیں ہوتا۔ عوام نے ہی دنیا کو بلند ترین خیالات اور لطیف ترین جذبات سے مالامال کیا ہے۔”
روسی ادب ہمیشہ سے متاثر کن رہا ہے۔ روسی ادیبوں کی تخلیقات معاشرے اور زندگی کے ان تلخ پہلوؤں پہ روشنی ڈالتی ہیں جو عمومی نظر سے اوجھل رہتے ہیں اور جب کچھ ایسے پہلو ان کاوشوں کی وجہ سے منظر پہ آتے ہیں تو دل کو گداز کر جاتے ہیں۔ پہاڑوں کی بیٹی بھی ایک ایسی ہی کاوش ہے۔
ناول موجودہ تاجکستان کی خود مختار صوبہ گورنو بدخشان کے ایک پسماندہ علاقے کے پامیری لوگوں کی کہانی ہے جو ایک غیر دریافت شدہ علاقہ ہے یعنی مہذب دنیا اس کے وجود سے ناآشنا ہے۔ اور ۱۹۱۷ کے سوشلسٹ انقلاب کے ابتدائی دنوں کی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے جب وسط ایشیاء کے پسماندہ جاگیردارانہ سماج میں خانوں، میروں اور مذہبی عناصر کا غلبہ تھا جنہوں نے پورے معاشرے کو دقیانوسی اور جہالت کے اندھیرے میں رکھا ہوا تھا۔ ایسے کسی علاقے کی لوگوں کی زندگی کس قدر زبوں حالی کا شکار ہو سکتی ہے اس کا اندازہ ناول پڑھ کے ہوتا ہے۔ وہاں کسی حکومت کی عمل داری نہیں۔ برفانی پہاڑوں کے درمیان چھپی اس وادی میں کسی قسم کی کاشت کرنا ممکن نہیں اور لوگ سخت سرد موسم میں گھاس ابال کے کھانے پہ مجبور ہیں۔ اور گرمائش کے لئے جانوروں سے لپٹ کے سوتے ہیں۔
جب روس میں انقلاب برپا ہوتا ہے اور کمونسٹ پارٹی ایک نوجوان انقلابی شاہ پیر کو اس دور دراز وادی میں لوگوں کو تعلیم اور نئے نظام کے بارے متعارف کروانے کے لئے بھیجتے ہیں تو انہیں انقلاب دشمن مسلح دستوں باسمچیوں کی جانب سے شدید مخالفت اور مشکلات کا سامانا کرنا پڑتا ہے۔ اس وادی میں ایک لڑکی رہتی ہے، جس کا نام نساء ہے۔ اس کی ماں اس کے بچپن میں ہی مر گئی تھی اس کی پرورش اس کی خالہ نے کی۔ لیکن وہ بھی ایک غریب عورت تھی۔ اسے نساء سے کوئی محبت نہیں تھی۔ اس لئے نساء کا بچپن مصائب میں گزرا۔ بڑے ہونے پہ اس نے چند سکوں کے عوض نساء کو ایک بوڑھے شخص کے ہاتھ بیچ دیا۔ نساء کسی طرح وہاں سے بھاگ نکلی اور ایک دوسرے علاقے میں پہنچ گئی۔ وہاں کے باشندوں کو جب معلوم ہوا کہ وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کے بھاگی ہے تو انہوں نے اسے واپس کرنے کی کوشش کی۔ توہم پرست کی وجہ سے اس علاقے کے بڑے بوڑھوں نے کہا کہ اگر یہ عورت یہاں رہی تو اس علاقے پہ ضرور کوئی مصیبت آ جائے گی یا سورج روشنی دینا بند کر دے گا۔
اس وادی میں لڑکی کی ملاقات شاہ پیر سے ہوتی ہے۔ وہ اس پسماندہ پدر شاہانہ سماج سے بغاوت کرتی ہے اور نوجوان انقلابی سے متاثر ہوتی ہے اور ان کے انقلابی جدوجہد میں اس کا ستھ دیتی ہے اور آہستہ اآہستہ دونوں میں انقلابی جزبوں کے ساتھ محبت پیدا ہوتی ہے۔ شاہ پیر کے تعلیم ی وجہ سے کچھ لوگوں میں شعور بیدار ہوتا ہے اور وہ نئے سماج کی تعمیر کے لئے کمر بستہ ہوتے ہیں انہی میں سے کچھ لوگ لڑکی کی حمایت کرتے ہیں اور یوں زندگی کی گاڑی آگے بڑھتی ہے۔ نساء کی زندگی میں کیا کیا ہوا، اس علاقے کا مہذب دنیا سے رابطہ کیسے ہوا، یہ سب جاننے کے لئے تو ناول ہی پڑھنا پڑھے گا۔
ناول ایک منفرد موضوع پہ لکھا گیا ہے۔ منظر نگاری اتنی خوبصورت ہے کہ قاری خود کو اسی برف سے ڈھکی چوٹیوں کے درمیاں موجود وادی میں پاتا ہے جہاں ہر طرف صاف ستھری ہوا اور فضا ہے۔ اور جدید دنیا کی کوئی سہولت موجود نہیں۔ ناول کا ہر کردار قاری کے ذہن میں اپنی شبیہہ بناتا چلا جاتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ذہن کے پردے پہ کوئی فلم چل رہی ہے۔ یقیناً مصنف اتنے عمدہ اظہار بیان کے لئے تعریف کے مستحق ہیں۔ کچھ مختلف پڑھنے کے شوقین قارئین کے لئے یہ ایک عمدہ ناول ہے۔
ناول کی کردار نگاری اور منظر کشی کا ہنزہ، گوجال، غذر، بروغیل اور چترال کے سماج سے کافی مشابہت پائی جاتی ہے اور کس طرح بااثر اشرافیہ اور حکمران طبقہ مذہبی اداروں اور روایات کے نام پر عام لوگوں کو ذہنی غلام بنا کر ان کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ستر اور ۸۰ کی دھائی میں ہر ترقی پسند نوجوان سیاسی کارکن کے لئے اس ناول کو پڑھنا لازم تھا اور آج بھی یہ اتنا ہی تازہ اور اہم ہے جتنا آج سے ۸۰ سال پہلے تھا۔