Baam-e-Jahan

گلگت بلتستان اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل –خواہشات اور امکانات

Gilgit-Baltistan Assembly future

اشفاق احمد ایڈوکیٹ

گزشتہ چند دنوں سے  سوشل میڈیا پر یہ بحث  کی جا رہی  ہے اور  بعض  کارکنوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے  کہ گلگت بلتستان  اسمبلی کو تحلیل کرکے نئی  انتخابات پاکستان کے عام انتخابات  کےساتھ ہونے چاہئے،کیونکہ اس طرح گلگت بلتستان کے انتخابات پر  اسلام آباد کا اثر ختم ہوگا۔  یہ بات بادی النظر میں کافی پرکشش لگ رہی ہے لیکن پاکستان کی سیاسی نظام کو  جب گہرائی میں دیکھتے ہیں تو یہ دلیل اپنی قوت کھو دیتی ہے ۔ کیونکہ الیکشن میں دھاندلی یا پولیٹیکل انجینئرنگ  اب اتنا عام ہو گیا ہے  کہ اس کا اعتراف پاکستان کی تمام سیاسی رہنماءبشمول عمران خان  نے  بھی کیا  ہے۔ لہذا گلگت بلتستان جیسے  اہم خطے میں آزادانہ انتخابات ہوں اور  طاقت ور اداروںکی مداخلت نہ ہو ایسا سوچنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔

کچھ حضرات   یہ دلیل بھی دے رہے ہیں کہ چونکہ یہ قومی مفاد میں ہے اس لئے گلگت بلتستان  میں مسند اقتدار پر براجمان ممبران اسبلی اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی مارے اور اپنی حکومت ختم کرے اور وفاق پاکستان کے ساتھ انتخابات کرانے پر رضامند ہوں اور اپنا سیاسی مستقبل ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا رسک لیں۔

مگر یہ غلطی کوئی کیوں  کرے گا؟

اگلی بار یہی لوگ الیکشن جیت جائیں گے اس کی کیا گارنٹی ہے؟

 تلخ حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں دوسری مرتبہ الیکشن بہت کم لوگ ہی جیتنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ماضی کی دھند میں ایسے غائب ہوجاتے ہیں کہ ان کو خود بھی مشکل سے یاد رہتا ہے کہ کبھی وہ بھی  منتخب نمائندے تھے ۔اور ان کی جگہ نئے لوگ اور نئے چہرے لیتے ہیں۔ گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ ایسے افراد سے بھری پڑی ہے۔

دوسری اہم  بات یہ ہے کہ قانونی اعتبار سے  بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ وفاقی حکومت گلگت بلتستان اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کرے۔ یہ ان کے  اختیار میں  نہیں ہے۔ گلگت بلتستان آرڈر 2018  کےآرٹیکل 41 میں اسمبلی تحلیل کرنے کا طریقہ کار واضح ہے ۔ وزیر اعلی  کے مشورےپر گورنر اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے ، یا پھر عدم اعتماد کے ذریعے اسمبلی تحلیل کیا جاسکتا ہے ۔یہ دونوں صورتیں موجود معروضی صورتحال  میں ممکن نظر نہیں آتی ہیں۔

دوسری بات گلگت بلتستان نہ ہی آئین پاکستان میں شامل ہے نہ ہی وفاقی اکائی ہے۔نہ ہی 58-2 کی شق آئین پاکستان میں اب موجود ہے۔

 دلچسپ بات یہ  بھی ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے 2019 کے فیصلے کے بعد اب گلگت بلتستان میں لاگو صدارتی آرڈر میں ترمیم بھی سپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتی ہے. اس کی ایک اہم مثال یہ ہے کہ حفیظ الرحٰمن سرکار کے خاتمے کے بعد گلگت بلتستان میں نگران حکومت کے قیام اور انتخابات کرانے کے لئے سپریم کورٹ سے اجازت لیا گیا اور پھر صدارتی حکم نامہ کے تحت انتخابات کرائے گئے تھے۔

گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت کے انتخابات وفاق پاکستان کے ساتھ اس لئے بھی نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ علاقہ وفاق پاکستان کا کوئی آئینی صوبہ نہیں ہے جس کے انتخابات دیگر صوبوں کے ساتھ ہوں۔  یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک گلگت بلتستان پاکستان کا باضابطہ آئینی صوبہ نہیں بنتا ہے اور اس کی متنازعہ حیثیت ختم نہیں ہوتی ہےجو کہ موجودہ بین لااقومی معروضی حالات میں ممکن دکھائی نہیں دیتا البتہ اس کی خواہش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اس وقت گلگت بلتستان میں آرڈر 2018 لاگو ہے اور اہم بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت آرڈر 2018 کے آرٹیکل 35 (3) کے تحت 5 سال کے لئے منتخب ہوئی ہے لہذا اسے قبل از وقت ختم کرنے کا کوئی قانونی گنجائش نہیں سوائے  عدم اعتماد کے ووٹ کے زریعے۔ چند ماہ قبل اپوزیشن جماعتیں بھر پور کوششوں کے باوجود اس میں بھی بری طرح ناکام ہوئیں ۔

چنانچہ اب فرض کریں اگر وفاقی حکومت ایک نیا صدارتی حکم نامہ گلگت بلتستان میں لاگو کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے لئے بھی سپریم کورٹ سے اجازت لینا  ضروری ہے اور اس صورت میں بھی موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی کیونکہ گلگت بلتستان جیسے اہم سٹریٹجک علاقے میں ایک منتخب حکومت کو خلاف قانون ختم کرکے اضطراب اور سیاسی بحران پیدا کرنے کا مطلب اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے اور ایسا کرنا ریاست کے مفادات پر کاری ضرب لگانا ہے۔ اس طرح کی حماقت کا کوئی جواز موجود نہیں ہے ، اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔

جو لوگ بھی گلگت بلتستان کے انتخابات وفاق پاکستان کے ساتھ کرانے کے خواہشمند ہیں ان کو برصغیر کے مشہور شاعر اسد اللہ خان غالب کے  اس شعر کو دوبارہ پڑھ کر صبر کرنا چاہیے کہ

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے۔

حاصل گفتگو یہ ہے کہ یہ حکومت پانچ سال مکمل کرے گی اور آنے والے سالوں میں جو بھی سیاسی جماعت گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی کوشش کرے گی اور اگر کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو گلگت بلتستان کے عوام یہ یاد رکھیں کہ وہ جماعت یا رہنمااپنے پیروں پر اور گلگت بلتستان کے عوام کے سر پر کلہاڑی ماریں گے۔ کیونکہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سےاصلی صوبہ تو بن نہیں سکتا اور عبوری صوبہ کی صورت میں صرف تین افراد کو سینٹ اور تین کو قومی اسمبلی میں نمائندگی ملے گی۔ جبکہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادا جائیگا اور چند سالوں میں گلگت بلتستان کی ڈیموگرافی بھی مکمل تبدیل ہو جائے گی ۔

لہذا عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی کے ساتھ داخلی خودمختاری کے لئے آواز بلند کیا جائے اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 پر عمل درآمد کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو لوکل اتھارٹی یعنی آزاد کشمیر طرز کا  ڈھانچہ دیا جائے۔  یہ واحد  قابل عمل اور قابل قبول حل ہے جو کشمیر  کے تصفیے تک گلگت بلتستان کی شناخت اور وسائل کو تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ اور ہاں عبوری بھائیوں کے لئے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ جب کشمیر پاکستان بن  جائیگا تو گلگت بلتستان کو اصلی آئینی صوبہ بھی بنا سکتے ہیں یا پھر پختونخواہ کا ایک ضلع لیکن یہ اس وقت کے حالات پر منحصر ہوگا۔


GB Assembly election

اشفاق احمد گلگت چیف کورٹ میں وکالت کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مقامی کالج میں بین القوامی قوانین پر لیکچر دیتے ہیں ۔ وہ بلاگر بھی ہیں اور بام جہاں سمیت دیگر مقامی اور قومی اخبارات میں کالم بھی لکھتے ہیں


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے