تحریر: عزیز علی داد
معلومات ہمیں نگل رہی ہیں۔ ہم اس عہد کے لوگ ہیں جن کی شخصیت معلومات میں لپٹی ہوئی ہے۔ اندر کچھ نہیں رہا، اس لیے باہر ہی دکھا رہے ہیں۔ہم وہ خالی چھلکے ہیں جن کے اندر نہ مغز رہا ہے نہ پھل۔ حد یہ ہے کہ چھلکے کو پتہ ہی نہیں کہ وہ کس کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ آج کی تہذیب کا سارا معاشی، عمرانی اور علمی ڈھانچہ ہمارے اندر معلومات انڈھیلنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ یہاں پر روح اور عقل کی موت ہورہی ہے۔۔یہ عہد اپنی ایک دیومالا تشکیل دے رہا ہے۔ اس نئی دیومالا میں روح کی باتین کرنے والا بدروح، عقل کی باتیں پاگل پن، جمالیات بدصورتی، شہرت نروان، دکھاوا روح اور ڈس انفارمیشن علم ہے۔ آج بھی لوگ چلہ کاٹتے ہیں مگر اس میں وجدان تب حاصل ہوتا ہے جب آپ شوشل میڈیا پر دس لاکھ فالوورز بناتے ہیں۔ اس مذہب کے دیومالا میں بنک کی چھوٹی چھوٹی برانچیں محلے کی مسجدیں ہیں اور شہر میں موجود بنکوں کے ہیڈ آفس جامع مسجدیں۔ بینک میں موجود اکاونٹ آپ کی نیکیوں کا ریکارڈ ہے۔ اگر اکاونٹ میں پیسے زیادہ ہیں تو آپ نیک ہیں۔ اگر آپ کے اکاونٹ میں کچھ نہیں ہے تو آپ جیتے جاگتے دورزخی ہیں۔ قوم کی مجموعی روحانی ترقی اسٹاک ایکسچینج سے ظاہر ہوتی ہے، اور اس روحانیت کی علامت اسٹاک ایکسچینج کے باہر سونے کے رنگ میں ڈھایا ہوا بیل ہے۔
آج کی ساری علمی، سائنسی و فکری کاوشیں آج کے ابھرتے ہوئے اس برقی دیومالا کے ڈھانچے کو برقرار رکھنے کے لیے مرکوز ہیں۔ اب علم ایک التباس ہے جو ہمیں غیر مرئی حالت میں خواب میں نظر آتا ہے۔لگتا ہے کہ ہم تیسرے ہزاریئے میں ایک کونیاتی سطح کی نیند میں چلے گئے ہیں۔ ہم آج کے وہ اصحاب کہف ہیں جنہوں نے اس دنیا کو ایک غار میں بدل دیا ہے اور لمبی نیند میں
چلے گئے ہیں۔ آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ خواب کے اندر ایک خواب ہے۔ ایسی خوابیدہ حالت میں جو مسیحا ہمیں ہلک میں، کیپٹن امریکا، سپر مین، ہولو میں، ایقوا مین، ارتغرل، کرش، پانی فلم کے ہیرو وغیرہ وہ غیر مرئی کردار ہیں جو ہمارے خوابوں کی دنیا کی سکرین پر نمودار ہوکر ہمیں اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں۔
عزیزعلی داد ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہدی نیوز، فرائڈے ٹائمز، ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ؑعزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں