تحریر۔ کریم اللہ
جب پاکستان میں پی ٹی ایم یعنی پختون تحفظ مومنٹ اپنے جوبن پر تھی اور حلقہ مقتدرہ اس تحریک کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے تو اچانک پی ٹی آئی ٹائیگرز کو چابی دی گئی جنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا میں اس تحریک کو نہ صرف کاؤنٹر کیا بلکہ ان کے خلاف ایسے ایسے گھناؤنے الزامات کی بوچھاڑ کر دی کہ اس سے تحریک کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کو اس تحریک سے بدزن کیا گیا۔
اس کے بعد ایک بڑے نے پی ٹی آئی ٹائیگرز کو شاباشی دی اور ان کی خدمات اور پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر انہیں "کی بورڈ واریر” کا خطاب دیا۔
یہ طبقہ جذبات سے سرشار اور مغالطہ پاکستان کے ڈھسے ہوئے ہیں۔ اسی لئے اپنے لیڈر کے ہمراہ دو ہزار اٹھارہ میں جائز و ناجائز طریقے سے اقتدار حاصل کی اور اگلے چار سالوں تک سوشل میڈیا میں ہر ایک خرد افروزی، روشن خیالی، سیاسی و سماجی تحریکوں کے خلاف کسی کے کہنے پر ٹرینڈ چلاتے اور غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرتے رہے۔
گئی پی ٹی آئی کارکنان نے دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا میں اس پی ٹی ایم کی تحریک کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ ان کے خلاف ایسے ایسے گھناؤنے الزامات کی بوچھاڑ کر دی کہ اس سے تحریک کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کو اس تحریک سے بدزن کیا گیا۔
کسی سیاسی کارکن، صحافی و ادیب یا سماجی خدمت گاروں پر حملہ ہوا تو یہ طبقہ سوشل میڈیا میں کنفیوژن پھیلانے اور سازشی نظریات گھڑتے رہے۔
"کی بورڈ واریر” کے سرغنے کا نام ڈاکٹر ارسلان بتایا جارہا ہے جو شاید بیرونی ملک سے میڈیا سائنسز پڑھ کے آیا ہے یا کچھ اور۔
گزشتہ پانچ چھ مہینوں سے ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ میں ہمارے ایک بڑے کا نام شامل ہی رہتا ہے شاید ہی کوئی دن ہو جس میں اس صاحب کے نام کے ساتھ نازیبا الفاظ کی ہیش ٹیگ ٹرینڈ میں نہ ہو۔
آج کل وہی "کی بورڈ واریر” اپنے سابقہ محسنوں کے ساتھ وہی سلوک کررہے ہیں جو کسی زمانے میں ان کے کہنے پر منظور پشتین سمیت عوامی حقوق کی باتین کرنے والوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔
گزشتہ پانچ چھ مہینوں سے ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ میں ہمارے ایک بڑے کا نام شامل ہی رہتا ہے شاید ہی کوئی دن ہو جس میں اس صاحب کے نام کے ساتھ نازیبا الفاظ کی ہیش ٹیگ ٹرینڈ میں نہ ہو۔
وہی "کی بورڈ واریر” اب انہی کو ڈس رہے ہیں جنہوں نے انہیں پالا تھا۔
سچ یہ ہے کہ دوسروں کے لئے جب گڑھا کھودتے ہیں تو انسان کا خود ان میں گرنے کا خطرہ رہتا ہے یہی کچھ ہمارے ملک میں ہورہا ہے۔