Baam-e-Jahan

ریاست ہنزہ کا آخری قیدی یا ریاست ہنزہ سے آزادی کی پہلی کرن؟


دیدار علی جعفری


نیلسن منڈیلا کی جدوجہد اور اُن پر گذری جیل کے شب و روز کو یا تو ڈاکومنٹری فلم کی صورت میں دیکھنے کا موقع ملِا یا کتابوں اور رسالوں کے  ذریعے جاننے کا موقع ملا۔ 

 مگر افسوس کہ  غلام محمد انکل کی زندگی اور ریاست ھُنزہ سے آزادی کی جدوجہد پہ آج تک نہ کوئی ڈاکومنٹری فلم منظر عام پہ آئی اور نہ کوئی جامع کتاب شائع ھوا۔

 خوشی اِس بات کا ضرور ہے کی غلام محمد انکل اور اُنکے رفقاء کی جدوجہد کی داستان آج تک زبان زدعام ہیں اور کئی بار اُن سے ملنے کا موقع ملا۔

مرحوم غلام محمد کا پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر اور اپوزیشن رہنما امجد ایڈوکیٹ کے ساتھ گروپ فوٹو

جو لوگ، خاص کر عہد حاضر کے نوجوان نسل جو غلام محمد انکل کو، اُنکے کام اور جدوجہد سے نا آشنا ہے، ضرور یہ سوچ رہے ہوں گے کہ تمہید میں نیلسن منڈیلا کا ذکر کیوں آیا۔

 کچھ میرے احباب شاید اس بات سے متفق نہ ھوں، مگر  میری نظر میں ہجم، جگہ، حالات، طرزِ جدوجہد اور کردار مختلف سہی مگر مقاصد دونوں کے مشترک تھی۔ اور وہ ہے آزادی، وہ بھی نچلے طبقے کے پسے ہوئے مظلوم لوگوں کی۔

وادی ہنزہ جسے آج کل پاکستان بالعموم اور گلگت بلتستان بالخصوص کا چہرہ گردانا جاتا ہے، ایک زمانہ پہلے ظُلم، جہالت، غُربت، اور بربریت کے دلدل میں دہنسی ہوئی تھی۔

میری نظام/تھم  جو استحصال سے بھرا  ہنزہ کا تاریک دور تھا، خصوصا عوام گوجال کے لئے جہاں غریب لوگوں پہ ناجائز ٹیکس/ایلبن/ترخُندک کے مد میں میر/تھم اور اُن کے حواریوں نے  صدیوں تک غریبوں کو خوب لوٹا۔

اُس تاریک دور میں عشار/رجاکی کے مد میں لوگوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جانا معمول تھا۔

 پھر وہ وقت بھی آیا جب ہنزہ اور گوجال کے کُچھ سرپھیرے لوگوں نے غیر منصفانہ اور غاصبانہ طرز حکومت کے خلاف علمِ بغاوت بلُند کیا۔

 اُن  سر پھروں میں سر فہرست غلام محمد تھا جس کی انتھک جدوجہد نے  آخرکار ہنزہ اور گوجال بالخصوص کو بدترین غلامی سے نکال کے آزاد فضاء میں سانس لینا نصیب کیا۔

مرحوم غلام محمد کی آخری آرام گاہ

ذولفقار علی بھٹوکے دور حکومت میں ان دورہ گلگت کے موقع پر  ریاست ہنزہ کے خاتمے کا اعلان  غلام محمد اور اُن کے رفقاء کی مجموعی جدوجہد کا ہی نتیجہ تھا۔

 اور یہ غلام محمد، کریم خان (مرحوم) اور دیگر رفقاء ہی تھے جنہوں نے اُس دور کے وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو کو مجبور کیا کہ ریاست کے خاتمے کا اعلان گلگت میں ہی کیا جائے بجاۓ اسلام آباد کے۔

ریاست کے خاتمے کے ساتھ ہی لوگوں میں جینے کی اُمید جاگ اُٹھی۔ بنیادی تعلیم اور صحت پہ توجہ مرکوز ہونے لگیں، آزادیِ اظہار رائے اور جمہوریت کی باتین ہونے لگیں، اور عام آدمی کو نمائندگی کا موقع ملا۔

غلام محمد انکل اصول پرست اور  نڈر تھے، جس کی وجہ سے انہیں ریاست ہنزہ کا آخری قیدی کہا جاتا ہے۔

 مگر میری نظر میں وہ ریاست ہنزہ سے آزادی کے روشنی کی پہلی کرن تھا جسے التت قلعہ کے زندانوں میں چھ ماہ کے بھیانک شب و روز  کی صعوبتوں کے بعد اپنے پورے اب وتاب کے ساتھ  روشن ہونے کا موقع  ملا۔

 میری نظام سے آزادی، سیاسی شعور، سماجی کاموں میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے سیاحت خاص کر ہاسپیٹیلٹی سیکٹر میں کام کر کے نہ صرف اپنا روزگار کمایا بلکہ لوگوں کو کاروبار کرنے  کا شعور دیا۔

انیس سو ستر کے عشرے میں ہنزہ میں میری نظام کے خلاف کراچی میں شروع کردہ تحریک کے اراکین کا گروپ فوٹو

آپ نے اپنی ذاتی ضروریات زندگی اور مقاصد کو کبھی اجتماعی مفادات پہ ہاوی نہیں ہونے دیا۔ اسی لئے آپ نے کبھی کوئی وزارت/مشیر، یا کوئی ایسا فیصلہ جس سے انکو ذاتی طور پہ فائیدہ ہو سکتا، سے ہمیشہ اجتناب کیا۔

آپ کا اور آپ کے دیگر رفقاء کا احسان  نہ صرف ہنزہ، نگر  بلکہ گلگت بلتستان کے لوگوں پر ہمیشہ رہے گا ۔

اس انقلاب کے جب خواب ہم سجاتے ہیں

تمام رنج والم شب کے بھول جاتے ہیں

(جالب)

خُدا آپ کے روح کو اپنے اصل میں واصل کرے اور لواحقین کو صبر و جمیل عطا کرے۔ آمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں