Baam-e-Jahan

بنوں میں سی ٹی ڈی کے مرکز پر دہشت گردوں کا قبضہ


تحریر: حیدر جاوید سید


اتوار کے روز بنوں اور لکی مروت میں دہشت گرد جس طرح ’’کُھل‘‘ کر کھیلے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ماسوائے خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کے جس نے دونوں افسوسناک واقعات اور خصوصاً بنوں میں سی ٹی ڈی کے مرکز (تھانے) پر دہشت گردوں کے قبضے کے حوالے سے ایک انوکھی کہانی سنائی۔

موصوف کہتے ہیں ’’بنوں میں سی ٹی ڈی کے مرکز پر بیرونی حملہ نہیں ہوا بلکہ مرکز میں تفتیش کے لئے رکھے گئے دہشت گردوں نے ہی اہلکاروں سے اسلحہ چھینا اور انہیں یرغمال بنالیا۔ اس دوران فائرنگ میں 2 اہلکار شہید ہوئے‘‘۔

یہ وہی موصوف ہیں جو قبل ازیں یہ بتاتے رہے تھے کہ ’’سوات کے علاقہ مٹہ میں دہشت گرد نہیں آئے بلکہ کالعدم ٹی ٹی پی کا ایک کمانڈر اپنی ہمشیرہ کی عیادت کے لئے آیا تھا‘‘۔

اس کی ’’باخبری‘‘ کا عالم یہ ہے کہ اس نے وہ بیان صفائی ٹی ٹی پی کمانڈر کے اس انٹرویو کے لگ بھگ ایک ماہ بعد دیا جس انٹرویو میں کمانڈر نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا

’’ہمیں امیر صاحب نے حکم دیا کہ ہمارا معاہدہ ہوگیا ہے آپ لوگ مٹہ پہنچ کر انتظامات سنبھال لیں‘‘۔

دہشت گردوں کے اسی گروپ نے قانون نافذ کرنے والے محکمے کے ایک سینئر افسر سمیت متعدد اہلکاروں کے ساتھ سکیورٹی فورسز کے بھی ایک افسر اور چند افراد کو اغوا کرکے یرغمال بنا لیا تھا۔ یرغمالیوں کی ویڈیوز جاری کی گئیں بعدازاں مقامی جرگے سے مذاکرات کے بعد فورسز اور پولیس اہلکاروں کو رہا کیا گیا۔

اس عرصہ میں دہشت گردوں نے تین افراد کو مختلف مقامات پر قتل کیا ان میں سے ایک کو دوران سفر ٹارگٹ کیا گیا اس مقتول کا تعلق اے این پی سے تھا ۔

لگ بھگ ایک ماہ مٹہ میں رہنے والے دہشت گردوں نے گیارہ کروڑ روپے سے زائد کی رقم تاوان میں حاصل کی اس میں وزیراعلیٰ محمود خان کے خاندان کی طرف سے ادا کئے گئے ساڑھے چار کروڑ روپے بھی شامل ہیں۔

ان تلخ حقائق کی موجودگی میں بیرسٹر سیف کے اتوار والے بیان پر کون یقین کرے گا؟

بنوں اور خیبر پختونخوا کے بعض صحافی دوستوں اور ایک ذریعہ نے سی ٹی ڈی مرکز بنوں کے واقعہ کی جو ویڈیوز بھجوائی ہیں ان سے جو کہانی سمجھ میں آرہی ہے وہ بیرسٹر سیف کی غلط بیانی کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہے۔

بنوں میں سی ٹی ڈی کے مرکز پر قبضہ کرنے والے دہشت گردوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے علاوہ بھی ایک محکمے کے چند اہلکار بطور یرغمالی موجود ہیں اس دعوے کے ثبوت میں دہشت گردوں نے ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے ۔ حملہ آور میران شاہ کے راستے سے بنوں میں داخل ہوئے یا وہ مختلف اوقات میں ایک ایک کرکے شہر میں اپنے کسی مرکز پر پہنچے؟

اس سے اہم سوال یہ ہے کہ جدید اسلحہ سے لیس دہشت گردوں کا یہ گروپ آخر کیسے سی ٹی ڈی کے مرکز تک پہنچ پایا۔ کیا سی ٹی ڈی مرکز سے پہلے والی چیک پوسٹ پر بھی حملہ ہوا تھا؟ اطلاع یہی ہے کہ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے علاوہ دہشت گردوں کی تحویل میں موجود اہلکار اس چیک پوسٹ سے اٹھائے گئے تھے۔ اب یہ تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اتوار کے واقعات حقیقت میں سکیورٹی لیپس ہیں۔

ان سطور میں ایک سے زائد بار عرض کرچکا  ہوں کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے مذاکرات کا ڈھونگ اپنے لوگوں کو خیبر پختونخوا میں منظم کرنے کے لئے رچایا تھا ۔ اس کے 6 مطالبات درحقیقت مذاکرات کاروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں