شبِ یلدا ہے
ماووں کو بتا دو
جواں پیشانیوں پر نور کی آیات دم کر دیں
انہیں تاکید کر دینا کہ حرز جان کی جتنی دعائیں
ان کی ماوں نے انہیں تعلیم کی تھیں
آج پڑھ کر پھونک دیں بیٹوں کے سینوں پر
جب ان کے بازووں پر ضامنی کی نذر کا سکہ
ہرے کپڑے سے باندھیں
تو سمجھا دیں کہ یہ منت کا سکہ ہے
خیر سے لوٹو تو اپنے ہاتھ سے
اس کو علم پر وار دینا
تم اپنے گھر کے دہلیزوں سے آگے
امانت کر کے بھیجے جا رہے ہو
وہ سب جن کی مسیں بھیگی نہیں ہیں
گھر کے دروازوں پہ پہرا دو
وہ جن کی مٹھیاں تلوار کے قبضوں کو ایسا بھینچتی ہیں
کہ ان پر انگلیوں کے داغ پڑتے ہیں
وہ بازاروں میں جائیں
وقت سے پہلے نکل آنے سے لیکن
اپنی تلواروں کو روکیں
موت کے ہونٹوں کا رس چکھنے کی بے صبری
انہیں نیاموں سے باہر کھینچتی ہے
شب یلدا ہے بیٹوں سے کہو کہ آگ روشن ہو
بستیوں میں آنے والے راستوں پر
اور چوراہوں پہ ایسی آگ روشن ہو
کہ جو سورج کا چہرہ دیکھ لیتی ہے
مگر مرتی نہیں ہے
جوانوں سے کہو کہ موت کا عفریت جب اترے
تو اپنے دوستوں کے سامنے
سینے سپر کر دیں
کہ ان کے باپ میدانوں کی مٹی اوڑھ کر سوئے ہوئے ہیں
جان لو کہ زندگی کا ننگ ہوتا ہے
سنانی لے کے ان صحنوں میں جانا
کہ جن کی ڈی