آئندہ انتخابات اور ان کےبعد کا لائحہ عمل
تحریر: زبیر توروالی
شمالی پاکستان حقوق تحریک“ میں بالائی خبیر پختون خوا اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔ چونکہ خیبر پختون خوا اور گلگت بلستان کی سیاسی اور موجودہ آئینی حیثیت مختلف ہے اس لئے یہاں صرف خیبر پختون خوا کے حوالے سے اس صوبے کی صوبائی اسمبلی کے لئے شمالی پاکستان حقوق تحریک کے لئے ایک مختصر روڈ میپ دیا جاتا ہے۔
گلگت بلتستان کے لئے وہاں کی سیاسی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی طرح کا لائحہ عمل وہاں کے دوست سامنے لا سکتے ہیں۔ اس روڈ میپ سے پہلے ان علاقوں کے صوبائی سیٹوں، یہاں کے وسائل اور مسائل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
آئندہ انتخابات میں ان علاقوں کی صوبائی اسمبلی کی سیٹیں درجہ ذیل ہیں:
)PK-1 Upper Chitral 1۔ صوبائی سیٹ نمبر 1 ضلع بالائی چترال(
)PK-2 Lower Chitral 2۔ صوبائی سیٹ نمبر 2 لوئیر چترال(
)PK-3 Swat-1 3۔ صوبائی سیٹ نمبر پی کے 3 ضلع سوات –1(
)Pk-10 Upper Dir-14۔ صوبائی سیٹ نمبر پی کے 10 ضلع بالائی دیر ۔ 1(
)PK-28 Upper Kohistan( 5۔ صوبائی سیٹ نمبر28 ضلع بالائی کوہستان
)Pk-29 Lower Kohistan( 6۔ صوبائی سیٹ نمبر 29 ضلع لوئیر کوہستان
)PK-30 Kohlai-Palas Kohistan( 7۔ صوبائی سیٹ نمبر 30 ضلع کوہلئی پالس کوہستان)
اس سال (2023ء میں) پاکستان میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ اس لئے ابھی سے ان علاقوں کے مذکورہ سیٹوں پر انتخاب سے پہلے ہمیں ان وسائل اور صدیوں سے جاری ان مسائل پر نظر رکھ کر ایسے نمائندوں کا چناؤ کرنا ہے جو آگے جا کر اس منشور پر کام کر سکے۔
خیبر پختون خوا میں مذکورہ صوبائی نشستوں کے ان علاقوں کی بڑی خصوصیات:
1۔ قدرتی حسن اور وسائل جیسے پانی، جنگلات اور معدنیات سے مالامال
2۔ اس صوبے اور پاکستان کی سیّاحت میں مرکزی حیثیت
3۔ پن بجلی کی پیدوار کے بڑے ذرائع
4۔ قدیم ثقافتوں کے آمین
5۔ لسانی اور کلتوری تنوع کے گلدستے
ان علاقوں اور یہاں بستی اقوام کے بڑے بڑے مسائل:
1۔ ہمیشہ سے سیاسی طور پر نظرانداز۔
2۔ ان کی سیاسی حیثیت صرف ووٹ کی حد تک۔
3۔ یہاں سے کسی بھی نمائندے کو صوبے میں کوئی اہم وزارت کبھی نہیں دی گئی۔
4۔ صدیوں کے حربی، سیاسی اور معاشی تسلط کے شکار رہے ہیں۔
5۔ ان کی وسائل کو استعمال کیا جاتا ہے تاہم ان کو ان وسائل سے کچھ نہیں دیا جاتا مثال کے طور پر پن بجلی اور جنگلات میں مخصوص حصّہ نہیں دیا جاتا۔
6۔ تعلیمی و صحت کی سہولیات کے حوالے سے پورے ملک میں پسماندہ ہیں۔
7۔ سڑکیں، راستے اور مواصلات کے دوسرے ذرائع کا یہاں فقدان ہے۔
8۔ بڑے بڑے سیاسی و تجارتی اور عسکری مگر مچھ یہاں کی زمینوں کو سستے داموں ہتھیا لیتے ہیں۔
9۔ سیّاحت کی صنعت میں مقامی لوگوں کو شامل نہیں کیا جاتا۔
10۔ صوبے میں ان علاقوں کی زبانوں کو نمائندگی نہیں دی جاتی۔
11۔ یہاں کی ثقافتوں کو فروغ نہیں دیا جاتا اور ان کے بارے میں غلط تاثرات روا رکھے جاتے ہیں۔
12۔ صوبے کی تعلیم میں ان علاقوں کی زبانوں کو نصاب میں شامل نہیں کیا جاتا اور نہ ہی یہاں کی ثقافتوں کو نمائندگی دی جاتی ہے۔
13۔ ان علاقوں کی اپنی شناخت کو مٹا دیا جاتا ہے اور شناخت کے حوالے سے کوئی مؤثر آواز یہاں سے نہیں اٹھتی۔
14۔ ان علاقوں کے لوگوں کو بھی صوبے کی بڑی آبادی کے ساتھ نتھی کرکے ان کی اپنی شناخت کو دبایا جاتا ہے۔
15۔ یہاں کے لوگوں میں عمومی طور پر اپنی ثقافتوں، زبانوں اور تاریخ کے بارے میں ہمہ گیر آگاہی موجود نہیں ہے۔
16۔ ان علاقوں کے لکھاریوں، ادیبوں، شعراء اور دیگر فنکاروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان کی کوئی خاطر مدارت نہیں کی جاتی ہے۔
17۔ یہاں کے مستقبل یعنی بچّوں اور نوجوانوں کو تعلیم کے شعبے میں پیچھے رکھا جاتا ہے۔
18۔ کئی تعلیمی اور انتظامی شعبوں میں ان علاقوں کے لوگوں سے تعصب برتا جاتا ہے۔
19۔ سرکاری محکموں اور شعبوں میں ان علاقوں کی زبانوں کو ”زبان“ نہیں بلکہ لہجے یا بولیاں کہہ کر کم تر گردانا جاتا ہے۔
20۔ سرکاری محکموں اور اداروں میں ان علاقوں کے بارے میں علم کم تر ہی نہیں بلکہ متعصب اور توہین آمیز بھی ہے۔
21۔ ان علاقوں کے مختلف جگہوں کے مقامی ناموں کو مٹا کر صوبے کی بڑی زبان یا پاکستان کی قومی زبان میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
22۔ یہاں کی زمینیں کم اور کم ذرعی ہیں لہذا یہاں خوراک کی قلّت ہمیشہ سے رہتی ہے۔
23۔ ان لوگوں کو زمینوں کی تقسیم پر اب بھی لڑایا جاتا ہے۔
24۔ یہاں کے جنگلات کی بے دریخ کٹائی کی جاتی ہے اور یہاں سے ٹمبر کی سمگلنگ پورے ملک کو کی جاتی ہے۔
25۔ مقامی لوگوں کو جنگلات کے محکمے، پن بجلی کے منصوبوں، یہاں کے تعلیمی اداروں میں اور دیگر شعبوں میں بھرتی نہیں کیا جاتا ہے ۔
26۔ آفات سے متاثر ہونے کی صورت میں ان علاقوں میں بحالی اور آفات سے روک تھام کا کوئی مؤثر کام نہیں کیا جاتا۔
27۔ سیّاحت کے شعبوں میں یہاں کے نوجوانوں کی بجائے باہر سے لوگوں کو یہاں لگایا جاتا ہے۔
28۔ ان علاقوں کی تجارتی مارکیٹس اور سیّاحت سے جڑی تجارت سے باہر کے لوگ منسلک ہیں۔
29۔ غربت کی وجہ سے ان علاقوں سے 30 تا 80 فی صد لوگ ہجرت کر جاتے ہیں اور کر گئے ہیں۔
30۔ صوبے اور مرکز میں ان علاقوں کی مؤثر نمائندگی نہیں ہوتی ہے۔
اس ملک میں ہمیں اب سب سیاسی جماعتوں کا خوب پتہ چل چکا ہے۔ سب کی رسیّاں کسی اور کے پاس ہوتی ہیں اور یہ لوگ محض اقتدار کا مزا لینے اور پیسے بنانے کے لئے آتے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں میں کسی کے پاس بھی کوئی عوامی ایجنڈا نہیں ہے اور ہمارے ان علاقوں کے بارے میں تو یہ ساری سیاسی جماعتیں ایک ہی صفحے پر ہے جہاں لکھا ہے کہ ان علاقوں کے لوگ جاہل اور پسماندہ ہیں لہذا یہاں سے جو نمائندہ آتا ہے اس کو بہت کم پر راضی کیا جاسکتا اور اس کے ووٹ کو آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اس سال (2023ء میں) پاکستان میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ اس لئے ابھی سے ان علاقوں کے مذکورہ سیٹوں پر انتخاب سے پہلے ہمیں ان وسائل اور صدیوں سے جاری ان مسائل پر نظر رکھ کر ایسے نمائندوں کا چناؤ کرنا ہے جو آگے جا کر اس منشور پر کام کر سکے۔
لائحہ عمل: ان علاقوں کی یہ براہ راست سیٹیں 07 بنتی ہے۔ 2 یا 3 ان کے ساتھ مخصوص نشستیں آسکتی ہیں۔ اس طرح یہ کل تعداد 10 تک پہنچ سکتی ہے۔ یہاں سے منتخب نمائندوں کو شمالی پاکستان حقوق تحریک یا اتحاد کا پارلیمانی گروپ بنانا ہے اور مل کر ان مسائل پر ڈٹ جانا ہے۔ وہ صوبے میں وزیر اعلی اور اسپیکر کے انتخاب میں اس تحریک/اتحاد کے پلیٹ فارم سے حصّہ لیں۔ اگر ان میں ہمت ہوئی تو مجھے یقین ہے وہ اپنا وزیراعلی بھی لاسکتے ہیں۔ اسی طرح وہ سنیٹ کے الیکشن میں اس اتحاد کو آگے کرسکتے ہیں۔
مزید براں صوبائی اسمبلی میں متحد ہوکر ان علاقوں کے وسائل، مسائل اور ملکی ترقیاتی تقسیم کے حوالے سے قانون سازی کرسکتے ہیں۔
ان علاقوں کے لوگوں کو چاہے کہ وہ ان مسائل کو اجاگر کرے اور اپنے لئے ایسے نمائندے منتخب کرے جو ان نام نہاد سیاسی پارٹیوں سے بالا ہوکر اس تحریک اور اتحاد کے تحت کام کرسکے۔
شمالی پاکستان کی اس پارلیمانی تحریک میں صوبہ خیبر پختون خوا کے دیگر علاقوں مثلاً دیر ، شانگلہ، بونیر، تورغر اور سوات کے دیگر علاقوں کے نمائندے بھی شامل کئے جاسکتے ہیں بشرطیکہ وہ ان مسائل اور وسائل کا احساس کرسکے۔
اس ملک میں ہمیں اب سب سیاسی جماعتوں کا خوب پتہ چل چکا ہے۔ سب کی رسیّاں کسی اور کے پاس ہوتی ہیں اور یہ لوگ محض اقتدار کا مزا لینے اور پیسے بنانے کے لئے آتے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں میں کسی کے پاس بھی کوئی عوامی ایجنڈا نہیں ہے اور ہمارے ان علاقوں کے بارے میں تو یہ ساری سیاسی جماعتیں ایک ہی صفحے پر ہے جہاں لکھا ہے کہ ان علاقوں کے لوگ جاہل اور پسماندہ ہیں لہذا یہاں سے جو نمائندہ آتا ہے اس کو بہت کم پر راضی کیا جاسکتا اور اس کے ووٹ کو آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
وقت ہے کہ ہم روایتی سیاست سے باہر نکل جائے اور اپنے لئے نئی تحاریک اور اتحادیں بنا لے۔ یہ نمائندے اپنی سیاسی پارٹیوں میں بھی رہ سکتے ہیں تاہم ان علاقوں کی نسبت اور یہاں کے ووٹوں کی وجہ سے ان کو اسی طرح متحد ہونے کی ضرورت ہے۔
شمالی پاکستان کی اس پارلیمانی تحریک میں صوبہ خیبر پختون خوا کے دیگر علاقوں مثلاً دیر ، شانگلہ، بونیر، تورغر اور سوات کے دیگر علاقوں کے نمائندے بھی شامل کئے جاسکتے ہیں بشرطیکہ وہ ان مسائل اور وسائل کا احساس کرسکے۔