Baam-e-Jahan

چترال پریس کلب میں یوم خواتین کا انوکھا پروگرام


تحریر: کریم اللہ 

8 مارچ کو پوری دنیا میں یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن خواتین کے حقوق کے حوالے سے سیمینارز، واک اور آگاہی مہم چلائی جاتی ہے۔

پاکستان میں بھی عالمی یوم خواتین کی مناسبت سے تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ملک کا لبرل و روشن خیال طبقہ خواتین کے حقوق کے لئے  آواز اٹھاتے ہیں۔

چترال پریس کلب میں یوم خواتین کی مناسبت سے کاٹا گیا کیک

ہر سال کی طرح سال روان میں بھی عالمی یوم خواتین جوش و خروش سے منایا گیا بالخصوص سوشل میڈیا میں خواتین کے عالمی  دن کی مناسبت سے ہر جانب پوسٹ اور تحریروں کی بھر مار دیکھنے کو ملی۔

ایسے میں چترال پریس کلب کی جانب سے بھی عالمی یوم خواتین منانے کا فیصلہ کیا گیا جس کی فوٹوز سوشل میڈیا میں وائرل ہوگئی کیونکہ چترال پریس کلب کی جانب سے منایا جانے والا یوم خواتین دنیا بھر کی نسبت ایک انوکھی تقریب تھی جس میں پریس کلب کے سارے مرد عہدہ دار مل کر کیک کاٹا اور آپس میں مل بیٹھ کر کھا لیا۔ نہ اس سلسلے میں کوئی سیمینار، نہ کوئی ورکشاپ، نہ کوئی اور تقریب بس پریس کلب کے سارے مرد ممبران آپس میں مل بیٹھ کر کیک کاٹا اور قصہ خلاص۔

چترال پریس کلب میں یوم خواتین کی مناسبت سے منعقدہ پروگرام میں صحافیوں کے علاوہ قانون دان نیاز اے نیازی ایڈوکیٹ اظہار خیال کر رہےہیں

عالمی یوم خواتین کی مناسبت سے شاید پاکستان سمیت دنیا کے کسی اور ملک بھی میں کیک کاٹنے کا اہتمام کیا جاتا ہو اس کا اندازہ نہیں۔ البتہ یہ بھی اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا۔

اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس تقریب میں کوئی خاتون موجود نہیں تھی کسی خاتون کو بلانے یا خواتین کو مدعو کرکے ایک چھوٹی سی پروگرام ترتیب دے کر اگر کیک کاٹتے تب بھی کوئی بات نہیں تھی، مگر یہاں جب سارے مرد مل کر یوم خواتین منایا تو سوشل میڈیا پر طنز و تنقید کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔

سوشل میڈیا کے ایک صارف قاری محمد فدا نے اس سلسلے میں یہ شعر لکھ دیا

"کہا غضب ہے کہ اس محفل میں

بنت حوا ایک بھی نہیں”

چترال پریس کلب کے صدر ظہیر الدین عاجز قانون دان نیاز اے نیازی ایڈوکیٹ کو یوم خواتین کے موقع پر کیک کھلا رہے ہیں

ایک اور صارف افضل  ولی بدخش نے لکھا ہے کہ ” اس وقت یوم خواتین منانے کی بات ہوسکتی ہے جبکہ خواتین کو پریس کلب کی ممبر شپ ملے چترال پریس کلب میں صنفی مساوات کا نام  و نشان تک نہیں”

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے طنزا لکھا کہ ” تصویر میں ایک سفید داڑھی والی دبنگ خاتون نظر آرہی ہے”۔

ایک اور صارف فضل باری نے مزاحا لکھا کہ ” چترالی صحافی خواتین کے حقوق کھاتے ہوئے”

پروفیسر ممتاز نے سوال اٹھایا کہ ” یہ یوم خواتین ہے یا یوم خوانین۔؟”

نیاز اے نیازی یوم خواتین کے موقع پر چترال پریس کلب کے مرد صحافیوں کو کیک کھلا رہے ہیں

مورخ سرور صحرائی نے اس پر یوں تبصرہ کیا کہ ” یار مرد حضرات نے خواتین ڈے کو منایا ہے اس بات کو ریکارڈ پہ لایا ہے کہ صحافیوں کو یہ احساس ہے کہ آج خواتین کے دن کے موقع پر ان کے ساتھ یک جہتی کو نمایاں کیا جائے یہ اتنا ہی۔

یہ دعوی انہوں نے کب کیا ہے کہ ہم خواتین کو بھی پریس کلب میں مدعو کیا تھا۔۔؟ البتہ اس بات کو محسوس کیا گیا کہ خواتین کی نمائندگی لوئر چترال میں جنرلزم کے شعبے میں آج کی تاریخ تک نہیں ہے۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے