تحریر: فخرعالم
قدیم زمانوں میں غلامی دنیا کے اکثر علاقوں میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے۔ اسی طرح مختلف ادوار میں انسانوں کو غلام بنانےاور تجارت کرنے کے خلاف بھی محدود پیمانے پر بحثیں اور قانون سازیاں ہوتی رہیں۔ اٹھارویں صدی کے وسط کے بعد یورپ اور پھر امریکہ میں ان مباحثوں اور قانون سازیوں میں تیزی آئی۔ برطانیہ نے ہندوستان سمیت اپنی دوسری کالونیوں میں غلامی کے خلاف اصلاحات کیے تو دوسری طرف روس میں بھی اس کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ مگر برطانوی ہندوستان اور روس کے بیچ وسط ایشیا اور افغانستان سمیت کچھ خودمختار علاقے ایسے تھے جہاں غلامی کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا اس لیے یہ عمل وہاں برابر جاری رہا۔ ان علاقوں میں موجود منڈیوں کو غلاموں کی ترسیل جن علاقوں سے ہوتی تھی ان میں چترال بھی شامل تھا۔
چترال میں غلام بنانے کا رواج کب اور کیسے شروع ہوا اس بارے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کچھ محققین کے نزدیک چترال میں یہ رجحان اسلام کی آمد سے پھیل گیا۔ چترال میں اسلام کی ترویج وسط ایشیا اور بدخشان سے ہوئی جہاں غلامی عام تھی۔ اس زمانے میں جنگی قیدیوں کو غلام بنانا بھی عام تھا۔ چترال میں بردہ فروشی کی سرپرستی مقامی حکمران کرتے تھے جنہیں چترال میں مہتر کہا جاتا تھا۔ کسی کو غلام بنانے، اسے بیچنے یا چترال کے اندر ہی کسی بااثر شخص کی خدمت میں دینے کا فیصلہ خود مہتر کا ہوتا تھا (حوالدار رپورٹ، 1872)۔ غلاموں کو چترال سے باہر فروخت کرنے کے بعد حاصل شدہ معاوضہ بھی مہتر وصول کرتا تھا۔
چترال میں غلاموں کی تجارت
چترال میں غلاموں کی خرید و فروخت کس پیمانے پر کی جاتی تھی؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1888ء میں انگریزوں نے “گزیٹیر آف ایسٹرن ہندوکش” کے نام سے ایک دستاویز مرتب کی تھی جس میں چترال میں غلاموں کی تجارت کو ریاست کی آمدنی کا تیسرا بڑا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کتاب میں لکھا ہے، “چترال اور یاسین میں اپنے ہی رعایا کو غلام بناکر بیچنے کا عمل وہاں کے حکمرانوں کے لیے ان لوگوں کے درمیان میں بھی شدید بدنامی کا باعث بن گیا ہے جہاں ابھی تک غلامی کو اس طرح بُرا نہیں سمجھا جاتا جس طرح یورپ میں سمجھا جاتا ہے” (صفحہ 93)۔ غلاموں کی لین دین مہتر کے وزیرِ خزانہ جسے دیوان بیگی کہا جاتا تھا، کی سرکاری ذمہ داریوں میں شامل تھی (بڈلف، 1880)۔ اسی طرح چترال سے متعلق انگریز افسروں اور مہم جوؤں کی لکھی اکثر یادداشتوں، رپورٹوں اور کتابوں میں چترال میں غلامی اور ان کی تجارت کا ذکر ملتا ہے۔ چترال پر تحقیق کرنے والے اطالوی محققین، کاکوپارڈو برادران کے مطابق اٹھارویں صدی کے آخر میں ہر سال چترال سے 500 لوگ بطورِ غلام چترال سے باہر بیچے جاتے تھے اور چترال کے اندر کوئی بھی گھرانہ ایسا نہیں تھا جہاں سے کسی کو اٹھاکر فروخت نہ کیا گیا ہو۔ (کاکوپارڈو برادران، 2001)۔ چترال کے غلاموں کو جن منڈیوں میں لے جایا جاتا تھا ان میں خیوہ، یارقند، خوقند، بخارا، ترکستان، قندوز، فیض آباد، جلال آباد اور کابل شامل تھے (منشی 1869، فیض، 1883)۔
چترال کے مشہور شاعر بابا سئیر کی منظوم تاریخِ چترال “شاہ نامہ سئیر” جو کہ غالباً 1810 میں لکھی گئی تھی اور چترال کی تاریخ پر اؤلین کتاب ہے، سے واضح ہے کہ اٹھارویں صدی کے آخر میں واخان کے والئی جہان خان نے چترال پر حملہ کیا اور کئی باشندوں کو غلام بناکر ساتھ لے گیا تھا۔ اس حملے کا بدلہ لینے کے لیے چترالی حکمران محترم شاہ کٹور ثانی نے بروغول سے گزر کر واخان پر چڑھائی کی، دیہات کو نذرِ آتش کیا اور دوسرے اسباب کے ساتھ کئی لوگ بھی غلام بناکر ساتھ لے آیا۔ ان میں سے دو غلام عورتوں کو محترم شاہ نے اپنے حرم میں شامل کیا جن سے اولادیں بھی ہوئیں۔ شاہ نامہ سئیر میں اس حملے اور غلاموں کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے،
بغارت چناں رفتِ ملکِ واخان—-کہ سرتا بپا شُد ہمہ خاکدان
اسیران و بندی فزوں از شمار—-ز اسپان و گاؤ و شتر صدقطار
سیہ چشم ، تر کان، سیمی زقن—شکر لب کنیزان و شیرین دہن
اسیران و رخت بنہُ بیحساب—چہ ریگِ بیابان و دریائے آب
ترجمہ: ملک واخان کچھ اس طرح سے غارت ہوا کہ سر سے پیر تک خاک ہوگیا۔ بے شمار لوگ قیدی بنے کہ گھوڑوں، گائیوں اور اور اونٹوں کی سو قطاروں سے بھی زیادہ کالی آنکھوں اور سفید ٹھوڑیوں والی ترک، شکر جیسے ہونٹوں اور میٹھے دہنوں والی قیدی اور مال غنیمت اتنا ہاتھ آیا کہ اس کے مقابلے میں صحرا کی ریت اور دریا کا پانی بھی کچھ نہیں۔ (غلام مرتضیٰ، 1957)
چترال میں بردہ فروشی کی سرپرستی مقامی حکمران کرتے تھے جنہیں چترال میں مہتر کہا جاتا تھا۔ کسی کو غلام بنانے، اسے بیچنے یا چترال کے اندر ہی کسی بااثر شخص کی خدمت میں دینے کا فیصلہ خود مہتر کا ہوتا تھا (حوالدار رپورٹ، 1872)۔ غلاموں کو چترال سے باہر فروخت کرنے کے بعد حاصل شدہ معاوضہ بھی مہتر وصول کرتا تھا۔
اسی محترم شاہ کے بھائی شاہ نواز نے بھی چترال پر حکومت کی تھی جس کی بعد میں معزولی کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے حد سے زیادہ بردہ فروشی کی جس کی وجہ سے لوگوں میں اپنی مقبولیت کھو دی (غلام مرتضیٰ، 1957)۔ جس دور میں چترال کے حکمران بدخشان کو خراج پیش کرتے تھے، اس وقت یہ خراج غلاموں کی صورت میں دیا جاتا تھا (منشی، 1869)۔
غلاموں کی قیمت
ایک غلام کی قیمت عموماً 100 روپے سے 300 روپے تک ہوتی تھی اور اس قیمت کا دارومدار غلام کی عمر، جنس اور خوبصورتی پر ہوتا تھا (گیزیٹ، 1888)۔ کہا جاتا ہے کہ ترکستان کی منڈیوں میں ایرانی غلاموں کے بعد سب سے زیادہ مانگ چترال سے آئے غلاموں کی ہوتی تھی اور اس کی وجہ ان کی خوبصورتی کے ساتھ مالک کے ساتھ وفاداری اور اس کی فرمانبرداری بھی تھی (منشی ، 1869) مَردوں کی قیمت
100 روپے سے 200 روپے تک تھی اور عورتوں کی قیمت 200 روپے سے 300 روپے تک (فیض، 1883)۔ مگر غلام کے بدلے ہمیشہ پیسے حاصل نہیں کیے جاتے تھے بلکہ غلام دوسری ضروریات ِ زندگی کے عوض بھی فروخت ہوتے تھے جن میں گھوڑا، اسلحہ، قالین، برتن حتٰی کہ بعض دفعہ گدھا یا خچر بھی شامل ہوتا تھا۔ اسی طرح بچوں کو بھی قلیل قیمت پر فروخت کیا جاتا تھا۔
چترالی غلام شاہی حرموں میں
یہ بھی قابلِ ذکر بات ہے کہ غلام ہمیشہ فروخت ہی نہیں کیے جاتے تھے بلکہ بعض اوقات مہترِ چترال عورتوں کو جبراً ہمسایہ ریاستوں کے حکمرانوں کو بطورِ تحفہ بھی پیش کرتا تھا۔ چترالی خواتین اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھیں اس لیے کشمیر، کابل اور بدخشان کے حکمرانوں اور امرا کے حرم سراؤں میں چترالی عورتیں شامل تھیں جو یہاں کہ حکمران نے انہیں خوش سگالی کی نشانی کے طور پر بھیجی تھیں (بڈلف، 1880)۔ چترالی غلاموں کو ان کی وفاداری کے باعث پسند کیا جاتا تھا (فیض، 1883)۔ ہمسایہ حکمرانوں کو بھیجے جانے والے غلاموں میں عورتیں ہی نہیں خوبرو لڑکے بھی شامل ہوتے تھے (ڈیورانڈ، 1900)۔ اسلام میں غلام عورتوں کو بطورِ لونڈی رکھنے کی اجازت ہونے کی وجہ سے خود مہتر کے حرم میں بھی لونڈیاں ہوتی تھیں جنہیں “قُمائی” کہا جاتا تھا مگر ان کے غلام ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ یہ لونڈیاں عموماً زرخرید غلام نہیں ہوتی تھیں بلکہ اکثر آزاد خواتین ہوتی تھیں جنہیں مہتر سے ذاتی مراسم بڑھانے یا مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے ان کے حرم کا حصہ بنایا جاتا تھا۔ کچھ جبراً بھی قمائی بنائی جاتی تھیں۔ اس حوالے سے چترال کی لوک روایت میں مشہور ہے کہ رئیسہ دورِ حکومت میں مقامی علما نے مہتر کو ایک فتویٰ کے ذریعے اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ رعایا میں سے کسی بھی عورت کو “قُمائی” کے طور پر رکھ سکتا ہے کیوں کہ چترال کی تمام رعایا مہتر کے غلام ہیں۔
غلام کسے بنایا جاتا تھا؟
قدیم زمانے میں چترال کا معاشرہ مختلف پرتوں پر مشتمل تھا۔ نسل، قبیلہ، طاقت اور سیاسی اثرپذیری کی بنیاد پر لوگوں کو مختلف طبقوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ان میں اشرافیہ کو “آدم زادہ”، متوسط طبقے کو “یوفت” اور نچلے طبقے کو “فقیر مسکین” کہا جاتا تھا۔ مہتر کو یہ خود ساختہ اختیار حاصل تھا کہ آدم زادہ کے علاوہ کسی سے بھی زمینیں اور جائیداد چھین کر انہیں غلام قرار دے سکتا تھا یا چاہے تو چترال سے باہر فروخت کرسکتا تھا۔ فقیر مسکینوں میں سے کچھ تو چھیرموژ یعنی مزارع تھے جو زمینوں کے عوض کسی کے ہاں کام کرتے تھے اور اگر کام کرنا نہ چاہے تو زمین مالک کو لوٹاکر مشقت سے آزاد ہوسکتے تھے۔ کچھ وہ لوگ تھے جو غلام تھے۔ انہیں “خانہ زاد” کہا جاتا تھا۔ ان کی مشقت کے بدلے انہیں زمین یا معاوضہ نہیں ملتا تھا۔ یہ آدم زادہ کی ملکیت میں ہوتے تھے۔ مالک چاہے تو ان کی خریدوفروخت کرسکتا تھا (غلام مرتضیٰ، 1957)۔ انہیں”ڈق” اور “روئے” بھی کہا جاتا ہے۔ غلام عورتوں کو آدم زادہ اپنی بیٹی کی شادی پر جہیز کے طور پر دلہن کے ساتھ بھیجتے تھے جنہیں “رُومتوُ دیرو” کہا جاتا تھا۔ خانہ زادوں کی اولاد بھی غلام تصور ہوتی تھی۔
چترال کے مشہور شاعر بابا سئیر کی منظوم تاریخِ چترال “شاہ نامہ سئیر” جو کہ غالباً 1810 میں لکھی گئی تھی اور چترال کی تاریخ پر اؤلین کتاب ہے، سے واضح ہے کہ اٹھارویں صدی کے آخر میں واخان کے والئی جہان خان نے چترال پر حملہ کیا اور کئی باشندوں کو غلام بناکر ساتھ لے گیا تھا۔ اس حملے کا بدلہ لینے کے لیے چترالی حکمران محترم شاہ کٹور ثانی نے بروغول سے گزر کر واخان پر چڑھائی کی، دیہات کو نذرِ آتش کیا اور دوسرے اسباب کے ساتھ کئی لوگ بھی غلام بناکر ساتھ لے آیا۔ ان میں سے دو غلام عورتوں کو محترم شاہ نے اپنے حرم میں شامل کیا جن سے اولادیں بھی ہوئیں
نچلے طبقے کے کسی شخص سے کوئی بڑا جرم سرزد ہوجاتا تھا تو سزا کے طور پر اسے فروخت کیا جاتا۔ بعض اوقات سزا کے طور پر کسی شخص کو قتل کرکے پیچھے رہ جانے والے اس کے گھر والوں کو فروخت کیا جاتا تھا۔ ریاست میں کوئی شخص کسی بات پر مہتر کی ناراضگی کا سبب بنتا تو مہتر اس شخص کو ایک وزیرِ خزانہ “دیوان بیگی” کے حوالے کرتا تھا جو اسے غلام بناکر بیچ دیتا تھا (بڈلف،67)۔ اسی طرح جنگی قیدیوں خصوصاً گلگت سے حملہ آور ہونے والے شیعہ اور ڈوگرہ فوجیوں کو بھی غلام بنایا جاتا تھا (فیض، 1883)۔ انگریزوں کے لیے 1883 میں مرتب کی گئی ایک خفیہ رپورٹ میں برٹش انٹیلجنس کے ایک دیسی افسر فیض بخش نے لکھا ہے کہ اگر “آدم زادہ” میں سے کوئی قتل کا مرتکب ہوتا ہے تو بجائے اس کو سزا دینے کے، اس خاندان کے لوگوں کو غلام بناکر بیچا جاتا ہے جہاں اس کی رضاعت اور پرورش ہوئی ہے۔ اسی طرح قرض داروں، چوری کے مرتکب ہونے والوں یا اکیلے سفر کرنے والے مسافروں کو بھی غلام بناکر فروخت کیا جاتا تھا بشرطیکہ وہ غریب اور نچلے طبقے سے ہو۔ کٹور دورِ حکومت میں مہتر امان الملک نے بیوہ خواتین اور لاوارث یتیموں کو غلام بناکر بیچنے کے رواج کو جلا بخشی (کاکوپارڈو برادران، 2001)۔
اس کے علاوہ مہتر جب چاہے بغیر کوئی وجہ اور جواز پیش کیے کسی کو بھی غلام بنانے پر قادر تھا۔
پروفیسر ممتاز حسین کے مطابق غلام بننے والوں میں ایک بڑی تعداد کالاش قبیلے کی ہوتی تھی۔ قدیم زمانے میں افغانستان کے موجودہ علاقے نورستان کو کافر ستان کہا جاتا تھا۔ کافرستان میں چترال کے موجودہ کالاشوں سے ملتی جلتی ایک قوم موجود تھی جسے کابل کے حکمران امیر عبدالرحمان نے انیسویں صدی کے آخر میں جبراً مسلمان بنایا اور کافرستان کا نام بدل کر نورستان رکھ دیا۔ اس سے پہلے مہتر ِچترال کی طرف سے کافرستان پر حملے کرکے انہیں غلام بنانا معمول تھا۔ بعض تاریخی حوالوں سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ غلامی کا شکار ہونے والوں میں صرف مقامی اسماعیلی اور کالاش شامل تھے مگر لگتا ہے کہ اس میں مسلک اور عقیدے سے زیادہ سماجی طبقات کا خیال رکھاجاتا تھا (منشی، 1869)۔ البتہ ان دونوں گروہوں کے ساتھ مہتروں کا، جو کہ خود سُنی عقیدے سے تعلق رکھتے تھے، امتیازی سلوک دیکھ کر اس بات کو مکمل طور پر نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔
ایک غلام کی قیمت عموماً 100 روپے سے 300 روپے تک ہوتی تھی اور اس قیمت کا دارومدار غلام کی عمر، جنس اور خوبصورتی پر ہوتا تھا (گیزیٹ، 1888)۔ کہا جاتا ہے کہ ترکستان کی منڈیوں میں ایرانی غلاموں کے بعد سب سے زیادہ مانگ چترال سے آئے غلاموں کی ہوتی تھی اور اس کی وجہ ان کی خوبصورتی کے ساتھ مالک کے ساتھ وفاداری اور اس کی فرمانبرداری بھی تھی (منشی ، 1869) مَردوں کی قیمت 100 روپے سے 200 روپے تک تھی اور عورتوں کی قیمت 200 روپے سے 300 روپے تک (فیض، 1883)۔
کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو غلام بنایا جاتا تھا انہیں قلعے میں جمع کیا جاتا تھا جہاں سے تاجر انہیں خرید کر لے جاتے تھے۔ ان کی رخصتی کے وقت رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آتے تھے اور قیدی دھاڑے مار تے ہوئے روتے اور آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے جو مہتر اور ان کے گھر والوں پر گراں گزرتا تھا۔ ایک کہانی کچھ یوں ہے ایک دفعہ کسی مہتر نے حکم دیا کہ غلاموں کی رخصتی کے وقت شاہی ڈوم دھول اور شہنائی بجایا کریں تاکہ قیدیوں کی آہ و فغان کی آواز ان کے کانوں تک نہ پہنچ پائے۔ ہوا یوں کہ ایک دفعہ مہتر کے چھوٹے بچے کا کسی وجہ سے انتقال ہوگیا اور مہتر کے گھر والوں نے ماتم شروع کیا۔ رونے کی آواز جب ڈھول بجانے والوں کے کانوں تک پہنچی تو انہوں نے سوچا کہ شاید غلاموں کی رخصتی ہورہی ہے چنانچہ انہوں نے قلعے کے برجوں پر چڑھ کر ڈھول پیٹنا شروع کیا جس کے بعد ظاہر ہے مہتر نے ان کی خوب سرزنش کی۔
اسی طرح اس تحقیق کے دوران چترال کے گاؤں ژوغور کے ایک باشندے نے ہمیں بتایا کہ ان کا پڑدادا کابل سے واپس چترال آرہا تھا جب راستے میں “گوبور بخ” کے مقام پر انہیں ایک خاتون ملی جسے بدخشان کے تاجر مہتر سے خرید کر اپنے ساتھ لے جارہے تھے۔ اس عورت نے اس شخص کی منت سماجت کی کہ وہ انہیں خرید کر واپس چترال لے جائیں اور بدلے میں انہیں اپنی زمین دینے کا وعدہ کیا۔ اس شخص نے 240 روپے تاجر کو دے کر عورت کو چھڑا کر اپنے ساتھ چترال لے آیا اور بدلے میں ان کے گھر والوں سے زمین حاصل کی جو اب بھی ان کے خاندان کے پاس ہے۔
فیض بخش نے، جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے، اپنی رپورٹ میں مہتر کے پیش کی گئی ایک درخواست درج کی ہے جو درجہ ذیل ہے؛
” میں ایک غریب عورت ہوں۔ پچھلے سال آپ کے اہلکاروں نے میرے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کو اٹھا کر بخارا میں بیچ دیا تھا۔ اس سال آپ کا ایک افسر میرے آخری بیٹے کو بھی ساتھ لے گیا ہے۔ خدا کے لیے اس کی بازیابی کا حکم دیجئے۔ میں آپ کی خوش حالی کے لیے دعائیں کیا کروں گی۔ ” (صفحہ، 11)
مہتر نے اس درخواست پر کوئی توجہ نہیں دی۔
اس سے ملتی جلتی ایک اور رپورٹ میں چترال اور بدخشان کے عمائدین کے بیچ ہونے والی ایک ملاقات کی روداد بیان کی گئی ہے جہاں چترال کی طرف سے بدخشان کے وفد کو 21 غلاموں کا تحفہ پیش کیا جاتا ہے۔ (حوالدار رپورٹ، 1872)
Gazetteer of the Eastern Hindukush, by Capt E. G. Barrow, 1888
چترال میں غلامی کب ختم ہوئی؟
برطانوی نو آبادیات اپنی تمام منفی پہلوؤں کے باوجود چترال کی رعایا کے لیے کئی حوالوں سے رحمت ثابت ہوئی۔ چترالی تاریخ دان ہدایت الرحمان کے مطابق چترال میں غلامی کی تجارت کے خاتمے کا سہرا انگریزوں کے سر جاتا ہے۔ مہتر امان الملک کے انگریزوں سے اچھے تعلقات تھے۔ انگریز حکام نے مہتر کے ساتھ خط و کتابت میں چترال میں غلاموں کی تجارت کے خاتمے کا بارہا مطالبہ کیا ہے اور ایسا تاثر دینے کی کوشش کی ہے گویا چترال کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات جن چیزوں سے مشروط ہے ان میں ایک غلامی کا خاتمہ بھی ہے۔ انیسویں صدی کے آخر میں افغانستان پر انگریزوں اور وسط ایشیا پر روسیوں کا اثر بڑھنے کے ساتھ ہی ان علاقوں میں غلاموں کی منڈیوں پر پابندی لگنی شروع ہوئی اور نتیجتاً چترال میں غلاموں کی تجارت بھی سُکڑ گئی (فیض، 1883)۔
کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو غلام بنایا جاتا تھا انہیں قلعے میں جمع کیا جاتا تھا جہاں سے تاجر انہیں خرید کر لے جاتے تھے۔ ان کی رخصتی کے وقت رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آتے تھے اور قیدی دھاڑے مار تے ہوئے روتے اور آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے جو مہتر اور ان کے گھر والوں پر گراں گزرتا تھا۔ ایک کہانی کچھ یوں ہے ایک دفعہ کسی مہتر نے حکم دیا کہ غلاموں کی رخصتی کے وقت شاہی ڈوم دھول اور شہنائی بجایا کریں تاکہ قیدیوں کی آہ و فغان کی آواز ان کے کانوں تک نہ پہنچ پائے۔ ہوا یوں کہ ایک دفعہ مہتر کے چھوٹے بچے کا کسی وجہ سے انتقال ہوگیا اور مہتر کے گھر والوں نے ماتم شروع کیا۔ رونے کی آواز جب ڈھول بجانے والوں کے کانوں تک پہنچی تو انہوں نے سوچا کہ شاید غلاموں کی رخصتی ہورہی ہے چنانچہ انہوں نے قلعے کے برجوں پر چڑھ کر ڈھول پیٹنا شروع کیا
امان الملک کی 1892میں وفات کے بعد تختِ چترال پر قبضے کی غرض سے شاہی خاندان میں لڑائیاں شروع ہوئی۔ یہ روس اور برطانیہ کے بیچ جاری گریٹ گیم کا دور تھا اور انگریز چترال کو اپنے اور روس کے بیچ “بفر زون” کے طور پر دیکھتے تھے۔ وہ اس اہم ریاست میں انتشار اور بدامنی نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے 1895ء میں کم عمر شجاع الملک کو تختِ چترال پر بیٹھایا۔ شجاع الملک کی حیثیت کٹھ پتلی حکمران کی سی تھی اور حقیقی اختیارات چترال میں تعینات پولیٹکل ایجنٹ کے پاس ہوتے تھے۔ اس وقت انگریزوں کو موقع مل گیا اور انہوں نے چترال میں غلاموں کی خریدو فروخت کو یکسر ختم کیا (غلام مرتضیٰ، 1957)۔
البتہ چترال کے اندر جو غلام تھے ان کے حوالے سے کوئی خاص قانون سازی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ چترال میں دوسرے علاقوں کے برعکس اشرافیہ اپنی خدمت کے لیے غلاموں کے بجائے مزارعوں یعنی چھیرموژوں پر زیادہ انحصار کرتی تھی۔ شنید ہے کہ خانہ زادوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی اور مقامی لوگوں کا ان سے رویہ بھی کچھ زیادہ برا نہیں تھا۔ اس لیے ان کے حوالے سے کسی قانون سازی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس چھیرموژوں کے حوالے سے بہت زیادہ قانون سازی ہوئی اور 1950 اور پھر 1970 کی دہائی میں تحریکیں بھی چلیں جن میں سے اول الذکر کی قیادت چترال مسلم لیگ نے کی تھی ( غلام مرتضیٰ، 1957)۔
لوگوں کو جبراً غلام بناکر دورداز علاقوں میں بیچنے کا رواج بلاشبہ چترال کی تاریخ کا ایک سیاہ باب تھا۔ ان جیسے رواجوں کی وجہ سے ہی چترال کے لوگ مہتری نظام کو جبر کے نظام کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ یہ شاید انہی رواجوں کا نتیجہ ہے کہ چترال میں ظلم کو ظلم اور سنگین ظلم کو “مہتری ظلم” کہا جاتا ہے۔
حوالہ جات
- Report on Chitral by Faiz Bakhsh, 1883
- Chitral, A Study in Statecraft by IUCN, 2004
- The Making of the Frontier by Colonel Algernon Durand, 1900
- Gates of Peristan: History, Religion & Society in the Hindukush, by Alberto M. Cacopardo & Augusto S. Cacopardo, 2001
- Tribes of the Hindoo Koosh by J. Bidulph, 1880
- Gazetteer of the Eastern Hindukush, by Capt E. G. Barrow, 1888
- On Gilgit and Chitral. By Munphool Meer Moonshee, C.S.I., of the Punjab Secretariate, Proceedings of the Royal Geographical Society of London, Vol. 13, No. 2 (1868 – 1869)
- A Havildar’s Journey through Chitral to Faizabad, by Montgomerie, 1872
- تمدنِ چترال ، شہزادہ حسام الملک، (غیر مطبوعہ)
- تاریخِ چترال (فارسی)، غلام مرتضیٰ، 1957
فخر عالم
Fakhr-e-Alam is a young journalist and writer. He has done his graduation from NUML Islamabad in Mass Communication. Currently he works with Pak Institute for Peace Studies (PIPS) Islamabad. His writings have appeared on various online and print platforms. He can be contacted at alam.fakherhss@gmail.com