Baam-e-Jahan

آزادی صحافت کا عالمی دن اور چترالی صحافی


تحریر: کریم اللہ


گزشتہ کل صحافت کا عالمی دن تھا اس سلسلے میں مختلف تقریبات کا انعقاد ہوا جس میں صحافیوں کی خدمات کو شاندار انداز میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ چترال جیسے دور افتادہ و پسماندہ علاقوں میں مسائل کو اجاگر کرنے میں ہمارے صحافیوں کا کتنا کردار رہا ہے۔۔۔؟

آگے بڑھنے سے قبل یہ بتایا بھی ضروری ہے کہ چترال سمیت دور دراز کے علاقوں میں صحافی بلا معاوضہ کام کر رہے ہیں جنہیں نہ اخبارات اور نہ ہی ٹی وی چینلوں کی جانب سے کچھ مراعات دی جاتی ہے اور نہ ان کی ٹریننگ یا کیپسیٹی بلڈنگ کا کوئی انتظام ہے، البتہ ان صحافیوں نے اپنی محنت اور محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے کام کر رہےہیں جن کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہے۔

 تاہم بطور صحافی میں یہ سوال بھی خود سے کرنا چاہتا ہوں۔کہ جس پیشے کو ہم نے اپنایا ہے اس پیشے کی  سنگلاخی اور مشکلات ہم سب کے علم میں ہے اس کے باؤجود اگر ہم نے خود کو کل وقتی یا جز وقتی اسی پیشے سے منسلک کیا ہے تو کیا ہم بطور  صحافی چترال کے مسائل کو اجاگر کرنے، یہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو رپورٹ کرنے اور یہاں کے لوگوں کی مشکلات کو دنیا کے سامنے رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔۔۔۔؟؟

کیا ہم بطور  صحافی چترال کے مسائل کو اجاگر کرنے، یہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو رپورٹ کرنے اور یہاں کے لوگوں کی مشکلات کو دنیا کے سامنے رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔۔۔۔؟؟

صحافی کا کام صرف پریس کانفرنس کور کرنا یا ایونٹ رپورٹنگ نہیں ہوتا بلکہ صحافی ہر وقت خبر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اور اسی دوران متوازن رپورٹنگ کرکے مسائل کو اجاگر کیا جاسکتا ہے۔

پچھلے چند سالوں کے دوران چترال میں خود کشیوں اور قتل کرنے کے حوالے سے بہت سی خبرین سوشل میڈیا میں آتے رہے البتہ ہمارے کل وقتی اور پریس کلب سے منسلک صحافیوں کی جانب سے ایسے ایشوز کو کبھی ہائی لائٹ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ شاید اس میں تفتیشی صحافت کے شعبے میں ان کا کمانڈ نہ ہونا ہو یا پھر کوئی مصلحت۔

ضروری نہیں کہ ہم بڑے لیول کی انوسٹیگیٹو جرنلزم کریں یہ چترال جیسے پسماندہ علاقوں کے غریب صحافیوں کے بس کی بات بھی نہیں مگر بعض اوقات قتل اور جنسی زیادتی جیسے سنگین جرائم کو بھی رپورٹ کرنے کی زحمت گوارہ کی  جاتی۔

چند برس قبل بریپ میں اسلم بیگ کا قتل، ڑاسپور میں ایک بچی کی سکول میں مشکوک خود کشی کا واقعہ، سنوغر میں قتل کا واقعہ، لوٹ اویر میں دھرا قتل اور اس کے علاوہ دیگر مشکوک اموات، تریچ میں مشکوک خود کشی، دروس میں مشکوک خود کشی، چند ماہ قبل چترال ٹاون میں ایک نوجوان کی مشکوک خود کشی جیسے واقعات کو ہمارے مین اسٹریم میڈیا کے دوستوں نے ہائی لائٹ نہیں کیا بلکہ سوشل میڈیا کے ایکٹوسٹ یا کمیونٹی جرنلسٹ نے ان ایشوز کو سامنے لے کر آئے۔

اس کی مثال چند برس قبل بریپ میں اسلم بیگ کا قتل، ڑاسپور میں ایک بچی کی سکول میں مشکوک خود کشی کا واقعہ، سنوغر میں قتل کا واقعہ، لوٹ اویر میں دھرا قتل اور اس کے علاوہ دیگر مشکوک اموات، تریچ میں مشکوک خود کشی، دروس میں مشکوک خود کشی، چند ماہ قبل چترال ٹاون میں ایک نوجوان کی مشکوک خود کشی جیسے واقعات کو ہمارے مین اسٹریم میڈیا کے دوستوں نے ہائی لائٹ نہیں کیا بلکہ سوشل میڈیا کے ایکٹوسٹ یا کمیونٹی جرنلسٹ نے ان ایشوز کو سامنے لے کر آئے۔

صحافت صرف کاپی پیسٹ، ایونٹ رپورٹنگ اور پریس کانفرنسز کو کور کرنے کا نام نہیں۔

کھوار کا ایک مقولہ ہے کہ "دولو گوڑو مو درا کی دریتاو ہو دیت”

یعنی پہلے ڈھول کو گلے میں مت ڈال اگر ڈال دیا تو اس کو بجانا شروع کر دیں۔

اسی طرح اگر ہم خود کو صحافی کہتے ہیں تو خود بخود ہماری زمہ داری بنتی ہے کہ عوامی ایشوز کو ہائی لائٹ کریں۔ اگر ایسا کرنے کی ہم میں استطاعت نہیں تو ہمیں صحافت کو خیر باد کہہ کر کوئی اور کام دھندہ کرنا چاہئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں