پی ٹی آئی میں اہم منصبوں اور وزارتوں پر رہنے والے فواد میں ایک خوبی بہر طور تھی کہ انہوں نے بعض سوشل ایشوز اور بالخصوص شدت پسندی پر اپنی دوٹوک آراء سے مخالفین سے بھی داد سمیٹی
تحریر: حیدر جاوید سید
فواد حسین چودھری کی سیاست اسی دن ختم ہو گئی تھی جب وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ میں دوبارہ گرفتاری سے بچنے کے لئے بھاگ اٹھے اور گرتے پڑتے وکلاء کی مدد سے عدالت کی عمارت میں داخل ہو گئے تھے۔
گزشتہ روز انہوں نے سوشل میڈیا کی سائٹ ٹیوٹر پر اپنے اکاؤنٹ میں لکھا ’’سیاست سے بریک لینے کا فیصلہ کیا ہے 9 مئی کے واقعات کی غیر مشروط مذمت کرتا ہوں تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر اور پارٹی رکنیت سے مستعفی ہو رہا ہوں میں نے عمران خان سے اپنی راہیں جدا کرلی ہیں‘‘۔
اس ٹویٹ کے چند گھنٹے بعد ان کی اہلیہ محترمہ حبہ چودھری نے ٹیوٹ کیا ’’آخرکار سفر اختتام کو پہنچا‘‘۔
9اور 10 مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف سے "جذبہ حب الوطنی” یا تھکان دور کرنے کے لئے الگ ہونے والوں کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو 2011ء کے بعد ’’گھیر گھار‘‘ کر پی ٹی آئی میں لائے گئے۔ عمومی خیال یہی ہے کہ یہ لوگ دباؤ برداشت نہیں کر سکے اس لئے آڑے وقت میں پارٹی چھوڑ گئے ہوسکتا ہے کہ یہ خیال قدرے درست ہو لیکن میری رائے میں بات فقط دباؤ برداشت نہ کرسکنے کی نہیں۔
اس ایلیٹ کلاس کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا ماسوائے اقتدار کے ایوانوں میں کسی نہ کسی طور موجود رہنے کے۔
فواد ایک پرانے سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے ایک چچا چودھری الطاف حسین پنجاب کے گورنر رہے انہوں نے سیاسی عمل میں شرکت پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے کی تھی۔ ابتدائی طور پر ان کا پورا خاندان پیپلزپارٹی میں تھا۔ البتہ فواد حسین چودھری پرویز مشرف، (ق) لیگ، پیپلزپارٹی سے ہوتے ہوئے تحریک انصاف تک آپہنچے تھے ان کے دوسرے چچا چودھری شہباز حسین جنرل پرویز مشرف کی جرنیلی جمہوریت کے برسوں میں (ق) لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے اور پھر وفاقی وزیر بنے۔ تیسرے چچا افتخار حسین چودھری لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے فواد کی وکالت اسی دور میں چمکی۔
اس چمکنے کی تفصیل پی ٹی آئی کے بانی رہنما اور پاکستان میں "جج ساز” لاء چیمبر کے مالک حامد خان ایڈووکیٹ کی کتاب میں درج ہے۔
سیاسی عمل میں پر جوش شرکت سے قبل فواد چند برس مختلف ٹی وی پروگراموں میں بطور اینکر بھی کام کرتے رہے۔
پی ٹی آئی میں اہم منصبوں اور وزارتوں پر رہنے والے فواد میں ایک خوبی بہر طور تھی کہ انہوں نے بعض سوشل ایشوز اور بالخصوص شدت پسندی پر اپنی دوٹوک آراء سے مخالفین سے بھی داد سمیٹی۔
انہوں نے اب سیاست سے ’’وقفہ‘‘ لیا ہے یہ وقفہ کتنا طویل اور مختصر ہوگا میرا خیال ہے کہ اس کا فیصلہ ان کی امریکی شہریت رکھنے والی اہلیہ کریں گی۔ اندازہ یہی ہے کہ وہ اب انہیں سیاست میں واپس نہیں آنے دیں گی اس اندازے کی وجہ محترمہ حبہ فواد چودھری کی وہ ٹویٹ ہے جس میں انہوں نے لکھا ’’آخرکار سفر اختتام کو پہنچا‘‘۔
فواد ایک پرانے سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے ایک چچا چودھری الطاف حسین پنجاب کے گورنر رہے انہوں نے سیاسی عمل میں شرکت پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے کی تھی۔ ابتدائی طور پر ان کا پورا خاندان پیپلزپارٹی میں تھا۔ البتہ فواد حسین چودھری پرویز مشرف، (ق) لیگ، پیپلزپارٹی سے ہوتے ہوئے تحریک انصاف تک آپہنچے تھے ان کے دوسرے چچا چودھری شہباز حسین جنرل پرویز مشرف کی جرنیلی جمہوریت کے برسوں میں (ق) لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے اور پھر وفاقی وزیر بنے۔ تیسرے چچا افتخار حسین چودھری لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے فواد کی وکالت اسی دور میں چمکی۔
گزشتہ روز بھی پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کا تانتا بندھا رہا تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اور عمران خان کے ’’معاشی جادوگر‘‘ اسد عمر نے عدالتی حکم پر جیل سے رہائی کے بعد رات کے پہلے پہر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کی کور کمیٹی کی رکنیت اور سیکرٹری جنرل کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بدنام کرداروں میں سے ایک میجر جنرل (ر) غلام عمر کے صاحبزادے اسد عمر نے پریس کانفرنس میں تھڑدلے پن کا مظاہرہ کم از کم نہیں کیا اس نے 9 اور 10 مئی کے واقعات کی آزادانہ تحقیقات کے مطالبہ کے ساتھ ان واقعات کی مذمت ضرور کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ
"یہ دیکھا جانا چاہیے کہ گرفتار شدگان میں کتنے لوگ افسوس ناک واقعات میں ملوث ہیں اور کتنے بے گناہ، جو بے گناہ ہیں انہیں کسی تاخیر کے بغیر رہا کیا جانا چاہیے”۔
اسد عمر نے اپنی پریس کانفرنس میں چھاؤنی بوائے کی سوچ کے مطابق عدلیہ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بھی ریاستی امور میں فریق قرار دیا ان کے خیال میں پی ڈی ایم، عدلیہ، فوج اور تحریک انصاف ان سب کو مل بیٹھ کر موجودہ حالات سے نکلنے کی سعی کرنا ہوگی اسد عمر نے پی ڈی ایم کو ایک حقیقت قرار دیا۔
ہماری دانست میں عدلیہ، سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سول بیوروکریسی ان تینوں کا سیاسی اور ریاستی امور میں کوئی کردار نہیں تینوں نے آج تک جو کردار اپنا رکھا ہے یہ دھونس اور طاقت سے سنبھالا ہوا کردار ہے۔
سیاست یا جمہوریت (وہ کیسی کی بھی ہو) نظام اور امور مملکت ان تمام معاملات پر صرف اور صرف سیاسی جماعتوں کو ہی بات کرنی چاہیے پارلیمان کے اندر اور پارلیمان سے باہر۔
سیاسی عمل میں شریک لوگوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ آپ جب بھی اپنے میدان میں کسی تیسرے کو راستہ دے کر لائیں گے پھر مشکلات پیدا ہوں گی۔ محض مشکلات ہی نہیں بلکہ پھر تیسری قوت واپس نہیں جائے۔
عدلیہ کا کام قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے ساتھ انصاف کی بلا امتیاز فراہمی ہے۔ افسوس کہ اس حوالے سے ہماری عدلیہ کا ماضی شاندار ہے نہ حال قابل فخر ۔
اسد عمر نے اپنی پریس کانفرنس میں چھاؤنی بوائے کی سوچ کے مطابق عدلیہ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بھی ریاستی امور میں فریق قرار دیا ان کے خیال میں پی ڈی ایم، عدلیہ، فوج اور تحریک انصاف ان سب کو مل بیٹھ کر موجودہ حالات سے نکلنے کی سعی کرنا ہوگی اسد عمر نے پی ڈی ایم کو ایک حقیقت قرار دیا۔
اسی عدلیہ نے مارشل لاؤں کو جائز قرار دیا۔ جنرل پرویز مشرف کی بغاوت پر ظفر علی شاہ کیس کا جو فیصلہ آیا اسے پڑھ کر سرشرم سے جھک جاتا ہے۔
یہ فیصلہ تاریخی دروغ گوئیوں سے عبارت ہی نہیں بلکہ اس میں ملک کی سب سے بڑی عدلت نے ایک فوجی آمر کو تین سال اقتدار میں رہنے کا لائسنس تھماتے ہوئے آئین میں ترمیم کا حق بھی عطا کردیا تھا۔
اس فیصلے کے چند مزید اختلافی اور باعث شرم نکات بھی ہیں ان پر کالم کے مختصر دامن میں بحث اٹھانا ممکن نہیں آپ پڑھنا چاہیں تو کسی وکیل دوست کے ذریعے اس فیصلے کو حاصل کرکے پڑھ لیجئے۔
چودہ کی بجائے سترہ طبق روشن ہوجائیں گے ایسے لگے گا کہ فیصلہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا نہیں بلکہ بھاٹی لوہاری کے پرانے تانگہ اسٹینڈ کے ٹھیکیداروں کا لکھا ہوا ہے۔
اسی عدلیہ کے بعض حالیہ فیصلے بھی تنازعات کا دروازہ کھول گئے۔ خود عدلیہ نے حدود سے تجاوز کرتے ہوئے آئین کی تشریح کی بجائے آئین نویسی کا کام سنبھال ہی نہیں لیا بلکہ لکھنا بھی شروع کردیا۔
نچلی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی از خود نوٹسوں کے ذریعے شنوائی نے نظام انصاف سے بلاتکار کیا۔ مسلح افواج کا کردار اور حدود دونوں دستور میں لکھے ہوئے ہیں۔ ریاستی اور سیاسی امور سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں۔
پچھلے پچھتر برسوں سے ’’لینے دینے‘‘ کا جو پروگرام چل رہا ہے اس کی وجہ اس ریاست کا جمہوری نہ ہونا ہے۔ سکیورٹی اسٹیٹ کے اپنے تقاضے اور چلن ہوتے ہیں تواتر کے ساتھ ان کالموں میں نصف صدی سے یہی عرض کرتا آ رہا ہوں کہ سکیورٹی اسٹیٹ اور طبقاتی نظام (اسے جمہوریت کہیں یا کچھ اور یہ آپ کی مرضی ہے) ساجھے دار ہوتے ہیں۔ ملا سرمایہ اور ابن الوقت سیاست دان اس کے مہرے۔
سکیورٹی اسٹیٹ کے طبقاتی نظام سے عوامی جمہوریت کی طرف کا سفر تدبر و تحمل اور حکمت عملی سے طے ہوتا ہے۔ اندھی طاقت آفتاب کو پھانسی چڑھا دیتی ہے اور چاندنی سڑک پر ماردیتی ہے ہم صرف تعزیت کرتے نوحے اور مرثیے پڑھتے رہ جاتے ہیں۔
سول بیوروکریسی جو اس ملک میں حاکم طبقہ بنی ہوئی ہے اصل میں عوام کی ملازم ہے۔ عوام کے سبھی ملازم ہیں جو جو ان کے خون پسینے کی کمائی سے ادا کردہ ٹیکسوں سے تنخواہ اور مراعات لیتے ہیں۔ اب یہ نہ کہہ دیجئے گا کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے عام آدمی تو ماچس خریدنے اور نمک کے ایک پیکٹ تک پر ٹیکس دیتا ہے۔
سول بیوروکریسی جو اس ملک میں حاکم طبقہ بنی ہوئی ہے اصل میں عوام کی ملازم ہے۔ عوام کے سبھی ملازم ہیں جو جو ان کے خون پسینے کی کمائی سے ادا کردہ ٹیکسوں سے تنخواہ اور مراعات لیتے ہیں۔ اب یہ نہ کہہ دیجئے گا کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے عام آدمی تو ماچس خریدنے اور نمک کے ایک پیکٹ تک پر ٹیکس دیتا ہے۔
معاف کیجئے گا اسد عمر نے جو فریق بتائے ان پر گفتگو کچھ طویل ہوگئی۔ چھاونی بوائے اسد عمر مجھے کبھی پسند نہیں آئے ان کا معاشی جادوگر ہونا بھی پروپیگنڈے کا حصہ تھا۔ وزیر خزانہ کے طور پر ان کی کارکردگی صفر جمع صفر رہی۔ البتہ پارٹی عہدے چھوڑنے کے اعلان کے لئے بلائی گئی پریس کانفرنس میں انہوں نے چھچھوروں کی طرح ساری صورت حال کا ذمہ دار عمران خان کو ٹھراکر گھر کی راہ نہیں لی درست انداز میں اپنا موقف بیان کیا۔
اس حساب سے وہ عامر کیانی، فواد چودھری اور دوسرے پارٹی چھوڑنے والوں کے مقابلہ میں بہت بہتر آدمی ثابت ہوئے۔
حرف آخر یہ ہے کہ لوگ پی ٹی آئی چھوڑ رہے ہیں ابھی مزید چھوڑیں گے ہجوم پارٹی نہیں ہوتا اور ہانک کر لائے گئے لوگ نظریاتی نہیں ہوتے۔
ضیاء الحق فاؤنڈیشن اور پیپلزپارٹی کے ایک سابق رہنما بابر اعوان ایڈووکیٹ آج کل تحریک انصاف میں ہیں پی ٹی آئی چھوڑنے والوں پر انہوں نے پھبتی کسی کہ ’’اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ڈیپوٹیشن پر بھیجے گئے اپنے بندوں کو واپس رپورٹ کرنے کا حکم دیا ہے‘‘۔
اسٹیبلشمنٹ بارے ان سے بہتر کون جانتا ہے وہ بھی آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ جنرل (ر) فیض حمید کے گھر ایک شام ماحضر تناول کرکے اگلے دن تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ دیکھتے ہیں وہ اپنی ’’رجمنٹ‘‘ میں کب رپورٹ کرتے ہیں۔
مصنف کے بارے میں:
حیدر جاوید سید پاکستان کے سینئر ترین صحافی، کالم نویس اور تجزیہ نگار ہے۔ وہ گزشتہ پانچ دھائیوں سے صحافت و اخبار نویسی کے شعبے سے منسلک ہے۔ اور پاکستان کے موقر اخبارات و جرائد کے لئے کام کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے چوتنیس کے قریب کتابین لکھی ہے جن میں سچ اور یہ عشق نہیں آساں تصوف کے موضوع پر ہیں باقی کچھ سیاسی ادبی کتب ہیں اور ایک سفر نامہ ہے جبکہ خلیل جبران کے کلیات کو مرتب کر چکے ہیں۔ آج کل وہ اپنی سوانح عمری لکھنے میں مصروف ہے جبکہ روزنامہ مشرق پشاور اور بدلتا زمانہ کے لئے کالم اور ایڈیٹوریل لکھتے ہیں۔ آپ پاکستان کا واحد صحافی ہے جسے جنرل ضیا کے دور میں بغاوت کے مقدمے میں سپیشل ملٹری کورٹ نے تین سال قید کی سزا دی تھی۔