Baam-e-Jahan

فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کے مترادف ہے ۔ اے ڈبلیو پی


عوامی ورکر ز پارٹی کی جانب سے انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسندی، آمریت اور ہر قسم کی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ناقابل قبول ہے ۔ اے ڈبلیو پی


کراچی: عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے سیاسی کارکنوں کے خلاف استعمال کیے جانے والے زیادتیوں، غیر انسانی  سلوک ، جبر کے ہتھکنڈوں پر تشویش کا اظہار کرتی ہے اور حالیہ  پرتشدد واقعات میں  ملوث افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کی مخالفت کرتی ہے۔

 پارٹی بلا   استثنا خواتین سیاسی کارکنوں کے ساتھ تشدد اور بدسلوکی کی اطلاعات پر پریشانی کا اظہار  کرتی ہے اور اس وقت زیر حراست تمام خواتین کے قانونی، شہری اور سیاسی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کرتی ہے۔

اے ڈبلیو پی کے وفاقی صدر اختر حسین ایڈووکیٹ نے ایک بیان میں کہا کہ ان کی جماعت قانون کی حکمرانی، آئینی اور سویلین بالا دستی، جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے اور عوام کے بنیادی سیاسی، معاشی اور شہری حقوق کو یقینی بنانے پر یقین رکھتی ہے اور اس کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔

  ہم  فوجی اسٹیبلشمنٹ  کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ   سیاسی  جوڑ توڑ، کریک ڈاؤن اور سیاسی کارکنوں پر تھرڈ ڈگری تشددسے باز رہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور  سیکیورٹی  اداروں کو  چاہیے  کہ وہ اپنی آئینی حدود اور قانون کے دائرہ کار میں رہ کر  کام کریں۔

عوامی ورکرز پارٹی  ماضی میں تحریک انصاف  اور اس کے چیرمین عمران خان کی اپنے مخالفین کے خلاف  غیر جمہوری  نفرت انگیز روے، عوام دشمن پالیسیوں اور آمرانہ ہتھکنڈوں کی مسلسل مخالفت کرتی آ رہی ہے۔  تاہم، ہم موجودہ حکومت کی طرف سے مخالفین  ، سیاسی کارکنوں، اور  ان کے خاندانوں کے خلاف استعمال کیے جانے والے  وہی ہتھکنڈوں اور فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے خلاف چلائے جانے والے جابرانہ  اقدامات کو درست نہیں سمجھتے ہے اور ان  کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں  ۔

اے ڈبلیو پی کی قیادت  یہ سمجھتی ہے کہ  اپنے مستقبل سے مایوس اور ذہنی انتشار کے شکار  نوجوانوں اور محنت کشوں کی پاپو لسٹ بیانیہ سے متاثر ہو کر اسٹیبلشمنٹ اور حکمران طبقے کے خلاف غصے کو ریاست مخالف عمل قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔اس قسم کےصورت حال میں  سفاکانہ ریاستی ردعمل موجودہ زوال پذیری اور افراتفری     میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لائے گا بلکہ نوجوانوں میں سیاست  بیزاری  اور مایوسی پیدا کر سکتا ہے۔  عوامی ورکرز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ جس نے بھی کوئی جرم کیا ہے اس کے خلاف متعلقہ قوانین کے تحت عام عدالتوں میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ بنیادی  سماجی تبدیلی کے لیے واضح وژن اور موجودہ بوسیدہ نظام کی ساختی اصلاحات ، دولت اور وسائل  کی منصفانہ تقسیم کے جامع پروگرام کے بغیر پاکستان میں کوئی حقیقی ترقی نہیں ہو سکتی۔

اب وقت آگیا ہے کہ حکمران طبقے کی  جماعتوں کی موقع پرستی ، اقتدار پر قبضہ کرنے یا اس سے چمٹے رہنے ، اپنے ذاتی مفادات اور وفاداریاں بدلنے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے مدد مانگ کر اور ان پر انحصار کرنے کے روش کی مذمت  کرنا چاہیے اور ا نہیں  بے نقاب اور  ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔  ان جماعتوں  کو محنت کش طبقے اور محنت کش لوگوں کے بڑھتے ہوئے معاشی مسائل ، بے روزگاری ، اور دیگر مسائل سے کوئی   سروکار نہیں اور نہ ہی سیاسی و معاشی  بحرانوں سے نمٹنے کے لیے کوئی پروگرام ہے۔

عوامی ورکرز پارٹی عدلیہ  کے  اندرونی چپقلش ، محاذ  آرائی اور سیاسی  معاملات میں دخل اندازی  سے اس کی خود مختاری  متاثر  اور متنازعہ ہو نے پر  بھی تشویش کا اظہار کرتا ہے اور 2017 سے اب تک سیاسی انجینئرنگ میں ملوث  ججوںاور فوجی اعلیٰ افسران کے خلاف قانونی کاروائی کا مطالبہ کرتا ہے۔

اے ڈبلیو پی  یہ سمجھتی ہے کہ پاکستانی سیاست کی غیر آئینی انجینئرنگ کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک فوج میں اعلیٰ ترین سطح پر ذمہ داروں کا احتساب نہیں کیا جاتا۔

اے ڈبلیو پی القادر ٹرسٹ کیس میں ملک ریاض اور سابق فوجی افسران اور نجی شعبے اور ریاستی اداروں سے تعلق رکھنے والے رئیل اسٹیٹ مافیا کے دیگر ارکان جو کراچی، لاہور،  بلوچستان، گلگت بلتستان اور پختونخواہ میں زمینوں پر بے دریغ قبضے میں ملوث ہیں اور  محنت کش لوگوں کو ان کی آبائی زمین اور وسائل سے محروم کر رہے ہیں، کے خلاف کاروائی کا مطالبہ بھی دہرایا ۔

ہم پی ڈی ایم کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ امریکی قیادت میں سامراجی طاقتوں اور ان کے مالیاتی اداروں  آئی ایم ایف کی  بے جا من مانیوں اور شرائط کو ماننے سے انکار کریں اور ان کی گرفت سے باہر نکلیں، ملک کو گہرے معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں، بیوروکریسی کے حجم ، دفاعی اور غیر پیداواری بجٹ میں کٹوتی ، ہمسایوں کے ساتھ سفارتی، تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنائیں اور چین، بھارت، ایران، ترکی، روس، سعودی عرب، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ علاقائی اقتصادی انتظامات کی حوصلہ افزائی کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے