Baam-e-Jahan

موجودہ سیاسی بحران میں سویلین  بالادستی کو برقرار رکھا جائے


کہ  اگرچہ سیاسی کارکنوں اور پی ٹی آئی کے حامیوں بشمول خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد اور زیر حراست  تشدد کے بہت سے الزامات کی تصدیق ہونا باقی ہے تاہم، ہم ایسے تمام الزامات کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایچ آر سی پی حکام کو یاد دلاتا ہے کہ زیر حراست افراد کے ساتھ تشدد یا کسی بھی طرح کا ناروا سلوک انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن

اسلام آباد( پ ر)


پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے تمام سیاسی فریقین کو خبردار کیا ہے کہ انہیں ملک کو درپیش متعدد بحرانوں سے نکالنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اگر وہ ایسے  اقدامات سے گریز نہیں کریں گے جس سے ملک کی پہلے سے کمزور جمہوریت کو مزید خطرات لاحق ہوسکتے ہوں۔

ایچ آر سی پی کی موجودہ سیاسی بحران پر گہری نظر  ہے اور اس کو تشویش ہے  کہ ماضی قریب میں سویلین بالادستی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ سویلین بالادستی کے تحفظ یا پارلیمنٹ کے وقار کو برقرار رکھنے میں حکومت کی ناکامی  یا عدم دلچسپی انتہائی مایوس کن ثابت ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، حزب اختلاف کی مخالفانہ سیاست اور قانون کی حکمرانی کی توہین کی ایک تاریخ ہے جس  نے  9-10 مئی کے دوران املاک کی بے دریغ تباہی کے واقعات کو ہوا دی۔  آتش زنی، ہنگامہ آرائی، لوٹ مار، توڑ پھوڑ اور ریاستی اور نجی املاک پر تجاوزات سے ظاہر ہوتا ہےکہ یہ پر امن احتجاج نہیں تھے۔

عدلیہ بھی کمزور ثابت ہوئی ہے، اس کے باہمی اتحاد اور غیرجانبداری کی کمی، اختیارات کی تقسیم  پر سنگین منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ایچ آر سی پی کو افسوس ہے کہ عدلیہ  اپنی آزادی اور غیر جانبداری کو معتبر طریقے سے برقرار رکھنے میں ناکام رہی  جس نے ملک میں قانون کی حکمرانی کے بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔

اس موقع پر کہا گیا ہے کہ  اگرچہ سیاسی کارکنوں اور پی ٹی آئی کے حامیوں بشمول خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد اور زیر حراست  تشدد کے بہت سے الزامات کی تصدیق ہونا باقی ہے تاہم، ہم ایسے تمام الزامات کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایچ آر سی پی حکام کو یاد دلاتا ہے کہ زیر حراست افراد کے ساتھ تشدد یا کسی بھی طرح کا ناروا سلوک انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے  مطالبہ کیا کہ دو صحافیوں کی گمشدگی کی بھی شفاف طریقے سے تحقیقات کی جائے، نتائج کو منظر عام پر لایا جائے اور مجرموں کا کڑا احتساب کیا جائے۔

ایچ آر سی پی نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت عام شہریوں پر مقدمہ چلانے کے  حکومتی فیصلے پر  خاص طور پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ سرکاری اور نجی املاک کی تباہی کے ذمہ داروں کو بلا شبہ جواب دہ ٹہرایا جانا چاہیے، تاہم  اس کے لیے سویلین قوانین موجود ہیں۔ کوئی بھی حکومت جو سویلین بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہو وہ  اس ایکٹ کے آرٹیکل2( 1) (d) کو منسوخ کرنے پر سنجیدگی سے غور کرے گی، جو عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کی اجازت دیتا ہے، اور یوں لوگوں کو ان کے منصفانہ ٹرائل کے آئینی حق سے محروم کرتا ہے۔

ایچ آر سی پی  کو اس من مانی طریقے پر بھی اعتراض ہے جس کے تحت فوجی عدالتوں کے ذریعے کچھ مقدمات ٹرائل کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں، جو قانون کے سامنے برابری اور قانون کے مساوی تحفظ کے اصول کے منافی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ  تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے سیاسی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے جمہوری، نیک نیتی پر مبنی پر امن طریقے اختیار کرنے چاہئیں، تاہم ایچ آر سی پی سمجھتا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے سے پاکستان کی سیاست کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ  حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے کی کوئی بھی کوشش ایک غیر متناسب اور غیر محتاط اقدام ہوگا جس سے مستقبل میں ایک بری مثال  قائم ہوگی اور سیاسی جماعتیں اپنے رائے دہندگان کی خواہشات کے مطابق قدرتی طور پر ترقی کرنے سے قاصر رہیں گی۔

 ایچ آر سی پی کا اصرار ہے کہ کسی بھی صورت میں قومی انتخابات کو اکتوبر 2023 سے آگے موخر نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایسا کوئی بھی حکومتی اقدام جمہوری عمل کو پٹڑی سے اتارنے کے مترادف ہوگا  اور اس سے سیاسی عدم استحکام مزید بڑھے گا۔ ایک ایسے ماحول میں جو تمام بنیادی آزادیوں کے استعمال کا موقع دیتا ہو،  آزادانہ، منصفانہ اور قابل اعتماد انتخابات سے کم کوئی بھی چیز ملک کو مزید غیر منصفانہ اور غیر جمہوری سیاسی ‘تجربات’ سے دوچار کردے گی۔

  ایچ آر سی پی کو اس بات پر  شدید تشویش ہے کہ پاکستان کی سول سوسائٹی نے ایک طویل اور بھرپور جدوجہد کے بعد جو آزادیاں حاصل کی تھیں غیر سیاسی قوتیں ان پر قابض ہونے کے لیے سرگرم ہیں۔ پاکستانی عوام جس جمہوریت کے طلب گار اور حق دار ہیں   وہ بدلتی وفاداریوں اور بیانیوں  پر استوار نہیں ہو سکتی۔

ایچ آر سی پی نے 2018 کے انتخابات میں ہونے والی سیاسی انجینئرنگ کی مخالفت کی تھی ، اسی طرح آج   ہم جمہوری عمل کو پٹڑی سے اتارنے کی موجودہ کوششوں کی بھی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں