جنرل ضیاء الحق کے 11 سالہ عہد ستم میں مذہبی انتہا پسندی کو رواج ملا۔ ان کے ماتحت اداروں نے فرقہ پرستوں اور لسانی شاؤنزم کے علم برداروں کی کھل کر سرپرستی فرمائی۔ جنرل ضیاء کہتے تھے ’’آئین کیا ہے 32 صفحات کی کتاب، وہ میں نے پھاڑ کر پھینک دی۔ میں جب ہڈی ڈالوں گا سیاست دان کتے کی طرح دم ہلاتے ہوئے میرے پاس آئیں گے‘‘۔
تحریر: حیدر جاوید سید
ہماری نسل کے لوگوں کی زندگیوں میں آئے تاریک دنوں کی تعداد روشن دنوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے لیکن 16 دسمبر 1971ء اور 5 جولائی 1977ء دو ایسے تاریک دن ہیں جو بھلائے نہیں بھولتے۔
16دسمبر 1971ء کا حادثہ یا سانحہ بھی عجیب ہے۔ مملکت پاکستان کی مجموعی آبادی کے 61 فیصد پر مشتمل صوبہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان کے دو لخت ہونے کی کہانی فقط اتنی ہی ہے کہ ہماری سول و ملٹری اور سیاسی اشرافیہ نے جس کی بھاری اکثریت کا تعلق اس وقت کے مغربی پاکستان سے تھا، مشرقی پاکستان والوں کو برابر کا شہری اور سیاسی و سماجی حقوق کا حقدار سمجھنے کی بجائے تیسرے درجہ کی مخلوق سمجھا۔
یہاں تک کہ پاکستان کے پہلے فوجی آمر اور خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان تو تحقیر آمیز انداز میں مشرقی پاکستان والوں کو بھوکا بنگالی کہہ کر تمسخر اڑاتے تھے۔
عدم مساوات نے دوریوں کی خلیج بڑھائی اور پھر باہر والوں کو اپنا اپنا لُچ تلنے کا موقع ملا۔ یوں 16 دسمبر 1971ء کے دن مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔
اور یہاں آج بھی اس سانحہ کے حوالے سے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے سارا ملبہ بھارت پر ڈال کر کچھ لوگ اپنی تسکین کا سامان کرتے پھرتے ہیں۔
5 جولائی 1977ء وہ تاریک اور منحوس دن ہے جب آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کر دیا۔ بھٹو کو ضیاء الحق پر اندھا اعتماد تھا اس لئے وہ اپنی حکومت اور جمہوریت سمیت اندھے کنویں میں جاگرے۔
بھٹو ایک جعلی مقدمہ میں 4 اپریل 1979ء کی نماز فجر سے قبل پھانسی چڑھا دیئے گئے لیکن جمہوریت کو اس اندھے کنویں سے نکلنے میں 11 سال لگے افسوس کہ وہ لولی لنگڑی تھی ۔ وہ بھی اگر جنرل ضیاء کا سی ون تھرٹی فضا میں نہ پھٹتا تو اس ملک کے لوگوں کو نہ جانے ایسے کتنے جنم اندھے کنوئیں میں گزارنے پڑتے۔
ذوالفقار علی بھٹو 16 دسمبر 1971ء کے الم ناک سانحہ کے بعد اقتدار میں آئے تھے۔ زخم خوردہ ملک اور بے سمت عوام کے لئے انہوں نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ ان کی جماعت اپنے نظریات کے حساب سے ترقی پسند عوام دوست اور سامراج دشمن جماعت سمجھی جاتی تھی۔ ان کے دور میں 1973ء کا دستور تشکیل پایا۔ 90 ہزار قیدی بھارت کی قید سے واپس وطن آئے۔ 11 سے 14 لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو بیرون ملک روزگار کمانے کے مواقع ملے۔
بھٹو نے ہی بھارت کے پہلے ایٹمی دھماکہ کے بعد پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ بڑے انسان تھے سو ان سے جو غلطیاں سرزد ہوئیں وہ ’’آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے‘‘ کے مصداق ثابت ہوئیں۔
1970 کی قومی اسمبلی کے نواب خیر بخش مری اور مخدوم نور محمد ہاشمی سمیت تین چار کے سوا تمام ارکان نے 1973ء کے دستور پر دستخط کئے تھے مگر خود انہوں نے اس میں سات ترامیم کروائیں۔
ذوالفقار علی بھٹو 16 دسمبر 1971ء کے الم ناک سانحہ کے بعد اقتدار میں آئے تھے۔ زخم خوردہ ملک اور بے سمت عوام کے لئے انہوں نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ ان کی جماعت اپنے نظریات کے حساب سے ترقی پسند عوام دوست اور سامراج دشمن جماعت سمجھی جاتی تھی۔ ان کے دور میں 1973ء کا دستور تشکیل پایا۔ 90 ہزار قیدی بھارت کی قید سے واپس وطن آئے۔ 11 سے 14 لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو بیرون ملک روزگار کمانے کے مواقع ملے۔
ان ترامیم کی منظوری میں جس عجلت سے کام لیا گیا اس سے بنتی سنورتی قدم قدم چلتی جمہوریت کے چہرہ پر داغ لگا اور یہ داغ ان کے عدالتی قتل سے کچھ کم تو ہوا لیکن صاف نہیں۔ بھٹو انسان ہی تھے، گوشت پوست کے انسان، ولی کامل یا آسمانی اوتار ہرگز نہیں۔ سو خوبیاں بھی تھیں اور خامیاں بھی۔ ہم ایسے طالب علموں کے نزدیک خوبیوں کا پلڑا بھاری تھا۔
ان کے خون کے پیاسے رجعت پسند خامیوں کا پلڑا بھاری قرار دیتے تھے (آج کل ان کے کچھ پرانے چاہنے والے نئے عشق کے جنون میں انہیں اسٹیبلشمنٹ کا ٹو ڈی ثابت کرنے میں جُتے ہوئے ہیں) ۔ یہ اور بات ہے کہ بھٹو کے خون کے پیاسے رجعت پسندوں میں سے بعض ان کی پھانسی کے چند سال بعد ان کی بیوہ بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ ایم آر ڈی نامی سیاسی اتحاد میں بیٹھنے پر مجبور ہوئے۔
ہاں جماعت اسلامی ثابت قدمی سے آخری وقت تک فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے نظام اور ذات کے ساتھ کھڑی رہی کہ اس کا دال دلیہ ضیاء کی وجہ سے ہی چلتا رہا۔
5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا۔ 90 دنوں میں اچھے ریفری کے طور پر انتخابات کروا کر واپس جانے کا اعلان کیا لیکن یہ 90 دن 17 اگست 1988ء کو تمام ہوئے۔
امریکی ڈالروں اور سول ملٹری اشرافیہ کی پشت پناہی سے بھٹو کے خلاف تحریک چلانے والے پاکستان قومی اتحاد کی بعض جماعتوں نے فوجی اقتدار کے سول حصہ دار کے طور پر وزارتیں بھی پائیں۔ ہمارے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی پی ڈی پی کو بھی دو وفاقی وزارتیں ملی تھیں ۔
گجراتی چودھری ظہور الٰہی بھی وفاقی وزیر بنے اور سکہ بند روایت کے تحت وہ جنرل ضیاء الحق سے کہا کرتے تھے ’’سانپ اور سندھی دکھائی دیں تو پہلے سندھی کا سر کچلنا چاہیے‘‘۔ چودھری ظہور الٰہی نے اپنے مربی و محسن جنرل ضیاء الحق سے وہ قلم بھی مانگ لیا تھا جس سے ضیاء نے ذوالفقار علی بھٹو کے لئے آئی رحم کی درخواستیں مسترد کرکے پھانسی کے حکم نامہ پر دستخط کئے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کے 11 سالہ عہد ستم میں مذہبی انتہا پسندی کو رواج ملا۔ ان کے ماتحت اداروں نے فرقہ پرستوں اور لسانی شاؤنزم کے علم برداروں کی کھل کر سرپرستی فرمائی۔ جنرل ضیاء کہتے تھے ’’آئین کیا ہے 32 صفحات کی کتاب، وہ میں نے پھاڑ کر پھینک دی۔ میں جب ہڈی ڈالوں گا سیاست دان کتے کی طرح دم ہلاتے ہوئے میرے پاس آئیں گے‘‘۔
ان کے 11 سالہ عہد اقتدار کے تیسرے سال افغانستان میں نور محمد ترکئی کی قیادت میں انقلاب ثور برپا ہوا۔ جنرل کی لاٹری نکل آئی۔ امریکہ سے سعودی عرب اور انڈونیشیا سے مصر تک انسانیت دشمن حکمران ان کے پشت پناہ بنے۔ اس پشت پناہی نے انہیں طاقت ور ترین بنا دیا۔
ان کی فوجی عدالتوں نے ہزاروں سے زیادہ سیاسی کارکنوں، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، صحافیوں اور دوسرے جمہوریت پرستوں کو ایک سال قید بامشقت سے عمر قید اور پھانسی کی سزائیں سنائیں۔ ان کے دور اقتدار میں ہی 1983ء میں جب ایم آر ڈی نے پاکستان بچاؤ کے نام سے اپنی سیاسی تحریک کا ڈول ڈالا تو ضیاء کے ماتحت اداروں نے سندھ میں سفاکی و بربریت کے ریکارڈ توڑ دیئے۔
5 جولائی 1977ء کے مارشل لاء کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ذات برادری، فرقے اور دوسرے تعصبات کے کاروباریوں کی موجیں لگ گئیں۔
جنرل ضیاء نے افغانستان میں لڑی گئی سوویت یونین، امریکہ کی جنگ میں پاکستان کو فرنٹ لائن سٹیٹ بنا دیا۔ دنیا بھر سے جہادی بھرتی کرکے لائے گئے۔ اس جہادی کلچر کی کوکھ سے فرقہ وارانہ جہاد کی بیماری نے جنم لیا۔
امریکی ڈالروں اور سول ملٹری اشرافیہ کی پشت پناہی سے بھٹو کے خلاف تحریک چلانے والے پاکستان قومی اتحاد کی بعض جماعتوں نے فوجی اقتدار کے سول حصہ دار کے طور پر وزارتیں بھی پائیں۔ ہمارے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی پی ڈی پی کو بھی دو وفاقی وزارتیں ملی تھیں ۔
آج کے تکفیری طالبان ہو یا کالعدم فرقہ پرست عسکریت پسند تنظیمیں ان کی بوئی ہوئی فصلیں ہیں جو کاٹے نہیں کٹ رہیں۔ ان کے دور میں ہی گریڈ 17کے سرکاری ملازم نے لشکر طیبہ کے نام سے جہادی تنظیم قائم کی۔
جن مولویوں کے آباؤں نے کبھی سائیکل خریدنے کی "ہمت” نہیں کی تھی وہ لینڈ کروزروں پر گھومنے لگے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات نے سیاسی ورکرز کے کلچر کا خاتمہ کر دیا۔ اسی انتخابات کی کوکھ سے سیاسی کرپشن کا وہ سیلاب پھوٹا جس کے آگے بند باندھنا بہت مشکل ہوچکا۔
5 جولائی 1977ء کے تیسرے مارشل لاء نے جو جن بوتلوں سے نکالے وہ اب دندناتے پھر رہے ہیں۔ انسان سازی کی جگہ دولے شاہ کے چوہے تخلیق کرنے کا کاروبار آج بھی عروج پر ہے۔ دولے شاہ کے ان مذہبی، سیاسی، صحافتی، ادبی اور دوسرے شعبوں کے چوہوں نے ہمارا جو حال بنا رکھا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کاش 5 جولائی 1977ء کا منحوس دن ہماری تاریخ میں نہ آتا۔
مصنف کے بارے میں:
حیدر جاوید سید پاکستان کے سینئر ترین صحافی، کالم نویس اور تجزیہ نگار ہے۔ وہ گزشتہ پانچ دھائیوں سے صحافت و اخبار نویسی کے شعبے سے منسلک ہے۔ اور پاکستان کے موقر اخبارات و جرائد کے لئے کام کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے چوتنیس کے قریب کتابین لکھی ہے جن میں سچ اور یہ عشق نہیں آساں تصوف کے موضوع پر ہیں باقی کچھ سیاسی ادبی کتب ہیں اور ایک سفر نامہ ہے جبکہ خلیل جبران کے کلیات کو مرتب کر چکے ہیں۔ آج کل وہ اپنی سوانح عمری لکھنے میں مصروف ہے جبکہ روزنامہ مشرق پشاور اور بدلتا زمانہ کے لئے کالم اور ایڈیٹوریل لکھتے ہیں۔ آپ پاکستان کا واحد صحافی ہے جسے جنرل ضیا کے دور میں بغاوت کے مقدمے میں سپیشل ملٹری کورٹ نے تین سال قید کی سزا دی تھی۔