Baam-e-Jahan

سائفر ڈرامے کی نئی قسط

حیدر جاوید سید

وزارت خارجہ کے مطابق سائفر کی ماسوائے عمران خان والی کاپی کے باقی کاپیاں واپس مل گئی تھیں لیکن جعلسازی سے رکن قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ کے  حکم امتناعی سے ڈپٹی سپیکر رہنے والے قاسم سوری کہتے ہیں میں نے بطور قائم مقام سپیکر قومی اسمبلی سائفر کی ایک سیل شدہ کاپی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھجوائی تھی۔

تحریر: حیدر جاوید سید


سابق وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے اسلام آباد کی مقامی عدالت میں دیئے گئے دفعہ 164/161 کے بیان میں کہا ہے کہ سابق وزیراعظم نے عدم اعتماد کی تحریک سے بچنے کے لئے سائفر کو بیرونی سازش کا رنگ دیا۔ قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف نفرت بھرا بیانیہ بنایا۔ سابق وزیراعظم نے مجھ سے سائفر 9مارچ کولیا اور پھر کہا کہ گم ہوگیا ہے۔ اعظم خان کے اعترافی بیان میں اور بھی بہت کچھ ہے۔

 البتہ عمران خان  نے گزشتہ روز ہی صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا ’’اعظم خان ایک ایماندار آدمی ہے میں جب تک خود اس کے منہ سے نہ سن لوں کسی بیان پر یقین نہیں کروں گا‘‘۔

سائفر ڈرامہ کے وقت ان کالموں میں عرض کرچکا ہوں کہ عمران خان سائفر کی آڑ میں مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں۔ آئینی طریقہ سے لائی گئی تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کی بجائے بیرونی سازش کا ڈھونگ رچا کر اپنے حامیوں میں زہر بھر رہے ہیں۔ بہرطور فی الوقت یہی عرض کرسکتا ہوں کہ سائفر فراڈ ڈرامے کے باوجود اعظم خان سے 164/161 کا بیان دلوانے والے اس سے کچھ "حاصل”  کرلیں گے مگر حاصل وصول کچھ نہیں ہوگا۔

اس ضمن میں تین باتیں اہم ہیں سائفر کے حوالے سے آڈیو لیک میں موجود گفتگو اس فراڈ کو سمجھنے میں بہت زیادہ مدد فراہم کرتی ہے۔ آزادانہ تحقیقات عمران خان، شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چودھری اور بابر اعوان کے گلے پڑ سکتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دو روز قبل لاہور ہائیکورٹ نے سائفر تحقیقات پر جو حکم امتناعی واپس لیا ہے یہ حکم امتناعی سائفر فراڈ کے منصوبہ ساز عمران خان کی درخواست پر جاری کیا گیا تھا۔

اعظم خان کئی دنوں سے لاپتہ تھے ان کی گمشدگی کی ایف آئی آر تھانہ کوہسار اسلام آباد میں درج تھی جو گزشتہ روز ان کے منظرعام پر آنے کے بعد خارج کر دی گئی۔

اعظم خان کے 164/161 کے بیان کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ حدیبیہ پیپر کیس میں اسحق ڈار کے 164 والے بیان پر سپریم کورٹ کے سینئر جج قاضی فائز عیسیٰ کے احکامات ریکارڈ پر ہیں۔ اسحق ڈار والے بیان حلفی پر جسٹس فائز عیسیٰ کے مطابق بیان چونکہ ملزم پارٹی کی غیر موجودگی میں لیا گیا تھا جسے  جرح کا حق نہیں ملا اس لئے اس کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

دو روز قبل لاہور ہائیکورٹ نے سائفر تحقیقات پر جو حکم امتناعی واپس لیا ہے یہ حکم امتناعی سائفر فراڈ کے منصوبہ ساز عمران خان کی درخواست پر جاری کیا گیا تھا

اعظم خان والے بیان حلفی کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ گو بعض قانون دان یہ کہہ رہے ہیں کہ 164/161 کے بیان کی قانونی اہمیت ہے لیکن یہی قانون دان اسحق ڈار کے بیان حلفی پر خاموش تھے یا ان کی رائے قاضی فائز عیسیٰ جیسی رہی۔ اسلام آباد پولیس عدالت میں اعظم خان کی گمشدگی کا  اعتراف کرچکی تھی۔

 اب کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کہیں مقیم تھے۔ مرضی سے ہی سامنے آئے اور مجسٹریٹ کی عدالت میں بیان حلفی دیا۔ حکومت اور اس کے ہمنوا بھلے ہی اس بیان حلفی پر آسمان سر پر اٹھا لیں مگر جس طریقہ سے وہ غائب و ظاہر ہوئے اور بیان دیا اس میں اتنے جھول ہیں کہ معمولی سی شدھ بدھ رکھنے والا شخص بھی حکومتی موقف کو مشکل ہی تسلیم کرے گا۔

 کیا عمران خان کی گرفتاری جیسے منصوبے کے جال میں پھنسنے والے ایک بار پھر جھانسے میں آگئے ہیں؟ کم از کم میری رائے یہی ہے کہ حکومت کے ساتھ پھر ہاتھ ہوگیا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ جو فیصلہ سال بھر پہلے ہوجانا چاہیے تھا اس میں مسلسل تاخیر کے بعد اب جو راستہ اپنایا جا رہا ہے اس سے حاصل  وصول کچھ نہیں ہوگا۔

کیا عمران خان کی گرفتاری جیسے منصوبے کے جال میں پھنسنے والے ایک بار پھر جھانسے میں آگئے ہیں؟ کم از کم میری رائے یہی ہے کہ حکومت کے ساتھ پھر ہاتھ ہوگیا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ جو فیصلہ سال بھر پہلے ہوجانا چاہیے تھا اس میں مسلسل تاخیر کے بعد اب جو راستہ اپنایا جا رہا ہے اس سے حاصل  وصول کچھ نہیں ہوگا۔

حدیبیہ پیپر کیس میں اسحق ڈار کے بیان حلفی پر فیصلہ ایک نظیر کی صورت میں موجود ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ ایف آئی  اے نے عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو مختلف تاریخوں میں تفتیش کے لئے طلب کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی اعظم خان کے بیان کو تضادات کا مجموعہ قرار دے چکی ہے۔ وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ گمشدہ سائفر کی برآمدگی کے لئے عمران خان کی گرفتاری لازمی ہے۔

وزارت خارجہ کے مطابق سائفر کی ماسوائے عمران خان والی کاپی کے باقی کاپیاں واپس مل گئی تھیں لیکن جعلسازی سے رکن قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ کے  حکم امتناعی سے ڈپٹی سپیکر رہنے والے قاسم سوری کہتے ہیں میں نے بطور قائم مقام سپیکر قومی اسمبلی سائفر کی ایک سیل شدہ کاپی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھجوائی تھی۔

عمران خان کی کچن کابینہ کے ایک سابق رکن فیصل واوڈا اس حوالے سے کچھ اور کہانی سنا رہے ہیں۔ انہیں کہانیاں کون لکھ کر دے رہا ہے یہ زیادہ اہم سوال ہرگز نہیں اصل سوال یہ ہے کہ اعظم خان کی پراسرار گمشدگی پھر منظر عام پر آنا اور مجسٹریٹ کی عدالت میں 164/161 کا بیان دینا یہ سب کیا ہے کیسے لوگوں کو مطمئن کیا جائے گا؟

لوگوں کو چھوڑیں 164 کے تحت اسحق ڈار کے بیان پر فائز عیسیٰ کے احکامات کا کیا ہوگا؟

مصنف کے بارے میں:

حیدر جاوید سید پاکستان کے سینئر ترین صحافی، کالم نویس اور تجزیہ نگار ہے۔ وہ گزشتہ پانچ دھائیوں سے صحافت و اخبار نویسی کے شعبے سے منسلک ہے۔ اور پاکستان کے موقر اخبارات و جرائد کے لئے کام کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے چوتنیس کے قریب کتابین لکھی ہے جن میں  سچ اور یہ عشق نہیں آساں تصوف کے موضوع پر ہیں باقی کچھ سیاسی ادبی کتب ہیں اور ایک سفر نامہ ہے جبکہ خلیل جبران کے کلیات کو مرتب  کر چکے ہیں۔ آج کل وہ اپنی سوانح عمری لکھنے میں مصروف ہے جبکہ روزنامہ مشرق پشاور اور بدلتا زمانہ کے لئے کالم اور ایڈیٹوریل لکھتے ہیں۔ آپ پاکستان کا واحد صحافی ہے جسے جنرل ضیا کے دور میں بغاوت کے مقدمے میں سپیشل ملٹری کورٹ نے تین سال قید کی سزا دی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں